ووٹ بڑی طاقت

July 24, 2018

’’بیلٹ کے لفظ کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ اطالوی زبان سے آیا ہے

کاغذ سے بنے ہوئے پہلے بیلٹ پیپرکے انتخابات میںاستعمال کے شواہد139 قبل مسیح میںروم میںملتے ہیں

جدید تاریخ میں برطانیہ میں پہلی مرتبہ 15 اگست 1872ء کو پوٹن فریکٹ میں خفیہ رائے شماری کی گئی تھی جس میں بیلٹ پیپر اور بیلٹ باکس استعمال ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں وہاں بیلٹ ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا۔ ان بیلٹ باکسز کو موم سے سر بہ مہر کیا گیا تھا اور LIQUORICE (ملٹھی) کی مہر لگائی گئی تھی‘‘

’’یونان میں تیسری اورپانچویں صد ی قبلِ مسیح میں ایک سیاسی اقدام میں ٹھیکریوں کے ذریعے رائے کے اظہار کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ اقدام اوسٹراسزم (OSTRACISM) کہلاتا تھا اور اس کے ذریعے نا پسندیدہ افراد عوامی اظہارِرائے کے ذریعے چند برسوں کے لیے جلاوطن کردیے جاتے تھے

آسٹریلیا میں تقریباً ایک صدی قبل خفیہ اظہارِ رائے اور بیلٹ باکس کا استعمال شروع ہوا تھاجس کی بعد میں دنیا بھر میں تقلید ہونے لگی‘‘

قوموں کی زندگی میں عام انتخابات اور ریفرنڈم بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک میں بیلٹ اور بیلٹ باکس کی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی ہے اور انہیں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔لیکن ہمارے ملک میں بہت سے افراد آج بھی یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا میری رائے کی کوئی اہمیت ہے ؟ پو لیٹیکل سائنٹسٹس کی زبان میں اس کا سب سے بڑا جوا ب یہ ہے کہ جمہوریت میں ہر شخص کی رائےیک ساں اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کی رائے جاننے کے لیے بیلٹ اور بیلٹ باکس بنیادی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔لیکن ہم میں سے بہت سے افراد ان کی تاریخ اور اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ ذیل میں ہم نے اسی بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی ہے۔

بیلٹ (BALLOT) دراصل وہ ذریعہ ہے جو انتخابات میں لوگ اپنی رائے کے اظہار (ووٹنگ) کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوسکتا ہے یا خفیہ اظہارِ رائے کے لیے چھوٹی سی گیند بھی ہوسکتی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ایک چھوٹی سی سیاہ گیند ہوتی تھی جو رائے دہندگان (ووٹرز) کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے کو ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ دنیا بھر میں رائے شماری یا انتخابات کے لیے ایک رائے دہندہ ایک بیلٹ استعمال کرتاہے اور اس میں کسی دوسرے کو شر یک نہیں کیا جاسکتا۔ انتخاب کی سادہ قسم میںیہ کاغذ کا ٹکڑا ہوسکتاہے جس پر رائے دہندگان اپنے پسندیدہ امید وا ر و ں کے نام تحریر کرسکتے ہیں یا ان کے نام یا انتخابی نشان کے آگے نشان لگاسکتے ہیں۔ لیکن جب معاملہ پارلیمانی انتخابات یا حکومت کے چنائو کا ہو تو اس کے لیے پہلے سے طبع شدہ بیلٹ پیپراستعمال کیا جاتاہے تاکہ رائے دہند گا ن کی رائے خفیہ رہ سکے۔ رائے دہندگان بیلٹ پیپر پر ا پنی رائے کا اظہار کرنے کے بعد اسے پولنگ اسٹیشن میں جس باکس میں ڈالتے ہیں اسے بیلٹ باکس کہا جاتا ہے۔ برطانوی انگریزی میں بیلٹ کو بیلٹ پیپر کہا جاتاہے۔ ’’ بیلٹ‘‘کا لفظ دراصل کسی تنظیم یا انتظام کے تحت ہونے والے انتخابی عمل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی سماجی تنظیم، محنت کشوں یا دکان داروں کی انجمن میں بھی ہوسکتا ہے۔

بیلٹ کے لفظ کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ اطالوی زبان سے آیا ہے۔ اس کے دو ممکنہ ماخذ اطالوی زبان کا ایک لفظ BALLOTA ہے۔جدیداطالوی ز با ن میں اس کے استعمال کے بارے میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ 1803ء میں فلورنس کی سٹی کونسل نے روم کے شہنشا ہ کونرڈ (KONRAD) دوم کی جانب سےتحفےکے طور پر تعمیر کرائے جانے والے چیسٹ نٹ ٹاور میں اجلاس منعقدکر نے کا آغاز کیا تھا۔ رائے دہندگان اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے وہاں اخروٹ استعمال کرتے تھے۔ رائے کے اظہار کا یہ طریقہ بعد میں بیلٹا کے نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ دراصل فلو ر نس کے لوگوں کے اخروٹ کے استعمال کے ایک طریقے کا نام ہے۔ بعد میں یہ اصطلاح دیگر شہروں تک پھیل گئی تھی اور پھر اسے رائے دہندگی کے دیگر طریقوں کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ دوسرا ماخذ بھی BALLOTA کا لفظ ہی ہے۔ لیکن اس کا تعلق قدیم اطالوی زبان میں استعمال کی جانے والی اصطلاح سے جوڑا جاتا ہے۔ قدیم اطالوی زبان میں یہ لفظ اصطلاحاً چھوٹی گیند کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق وینس (اطالیہ) میں 1540ء کی دہائی میں بیلٹ کا لفظ را ئے دہندگی کے لیے استعمال کی جانے والی گیندکے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یونان میں تیسری اورپانچویں صد ی قبلِ مسیح میں ایک سیاسی اقدام میں ٹھیکریوں کے ذریعے رائے کے اظہار کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ اقدام اوسٹراسزم (OSTRACISM) کہلاتا تھا اور اس کے ذریعے نا پسندیدہ افراد عوامی اظہارِرائے کے ذریعے چند برسوں کے لیے جلاوطن کردیے جاتے تھے۔

کاغذ سے بنے ہوئے پہلے بیلٹ پیپرکے انتخابات میںاستعمال کے شواہد139 قبل مسیح میںروم میںملتے ہیں۔ انڈیا میں 920 بعد از مسیح میں تامل ناڈو میں گائوں کی اسمبلی کے اراکین کے انتخاب کےلیے پام کے درخت کے پتّے استعمال کرنے کے شواہد ملتے ہیں۔ ان پتّوں پر لوگ امیدواروں کے نام لکھ کر مٹی کے برتن میں ڈال دیا کرتے تھے جنہیں بعد میں باہر نکال کر شمار کیا جاتا تھا۔ اس عمل کو کودا وولائی (KUDAVOLAI) نظام کہا جاتا تھا۔ شمالی امریکا میں 1629ء میں میسا چوسٹس بے کالونی کے چرچ کے پاسٹر کے انتخاب کے لیے پہلی مرتبہ کاغذ کے بیلٹ کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں۔

رائے دہندگی کے نظام کی قسم کے حوالے سے مختلف بیلٹس استعمال کیےجاتےہیں۔رینکڈ (RANKED) بیلٹ میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ رائے دہندگان اپنی ترجیح کے لحاظ سے امیدواروں کو درجے د یں۔ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم میں رائے دہندگان ایک عہدے کے لیے صرف ایک امیدوار کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ پارٹی لِسٹ سسٹم میں امیدواروں کی فہرست کھلی یا بند ہوسکتی ہے۔امریکاکی سیاسی تاریخ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں طویل اور چھوٹے بیلٹ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ وہاں خانہ جنگی (سِول وار) سے قبل بہت سے افراد کی سوچ یہ تھی کہ فعال عہدوں کی تعداد بڑھا کرجمہوریت کی بنیادیں وسیع کی جاسکتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ریاست کی سطح پر وزیر، کنٹری سرویئر، رجسٹر آف ڈیڈز، کنٹری کارنر اور سٹی کلرک تک کے عہد ے انہوں نے اپنی فہرست میں شامل کیے تھے۔ چناں چہ اتنے زیادہ افراد کے انتخاب کے لیے طویل بیلٹ کی ضرورت تھی، لیکن اس سے ابہامات اور مسائل پیدا ہو گئےتھے۔پھر وہاں ترقی پسندوں نے اپنے دور (1893ء ۔1917ء) میں اس معاملے پر آواز اٹھائی تھی ۔لہٰذا آج بیلٹ ریفارم کی اصطلاح بعض اوقات ان کو ششوں کی جانب اشارہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو منتخب عہدے داروں کی تعداد کم کرنے کے لیے کی گئی تھیں۔

بیلٹ کا ڈیزائن انتخابی عمل میں ابہامات پیدا یا ختم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے ا نتخا با ت میں اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ابہام کی وجہ سے رائے دہندگان اپنی رائے کے اظہار میں غلطی کرسکتے ہیں۔ امریکا میں 2000ء کے انتخابات میں جو بیلٹ استعمال ہوا اسے بٹر فلائی کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے بیلٹ میں دونوں جانب نیچے کی طرف نام ہوتے ہیں اور ایک کالم میں درمیان میں پنچ ہول ہوتے ہیں۔ اس بناوٹ کی وجہ سے وہاں بڑے پیمانے پر بیلٹ میں غلط نشانات لگنے کے الزامات عاید کیے گئے تھے۔ روس میں 2011ء میں ہونے والے ڈوما کے انتخابات میں لسٹ بیلٹ استعمال ہو اتھا جس میں سیاسی جماعتوں کی فہرست تھی۔ بعض پو لیٹیکل سائنٹسٹس کہتے ہیں کہ پے چیدہ انداز کے بیلٹ کی وجہ سے انتخابی اصلاحات کا نعرہ لگتا ہے۔

رائے کا اظہار کرنے کے بعد لوگ بیلٹ جس ڈبے میں ڈالتے ہیں وہ بیلٹ باکس کہلاتا ہے جو پولنگ اسٹیشن میں رکھا ہوتا ہے۔ تاہم بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں انہیں گھر لے جانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ مثلاً آئر لینڈ،اطالیہ اور روس میں جن لوگوں کے لیے پولنگ ا سٹیشن جانا ممکن نہیں ہوتا ان کے لیے بیلٹ باکس گھر تک پہنچایا جاتا ہے۔ جن ممالک میں بیلٹ پیپر کافی طویل ہوتا ہے وہاں اسے بیلٹ باکس کے اندر پہنچانے کے لیے فیڈر میکانزم استعمال کیا جاتا ہے۔ انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے کے لیے دنیا بھر میں جاری اصلاحات کے نتیجے میں اب بہت سے ممالک میں شفاف بیلٹ باکس استعمال کیے جاتے ہیں۔ بیلٹ باکس کی بناوٹ اور شکل کے مراحل مختلف زمانوں میں طے ہوئے۔ ان کی ابتدائی شکل بنانے کا کام مٹّی سے شروع ہوا۔ پھر انہیں لوہے سے بنایا جانے لگا اور اب بہت سے ممالک میں (بہ شمول پاکستان) یہ پلاسٹک سے بنے ہوتے ہیں۔ تاہم بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اب پیپر بیلٹ استعمال ہوتا ہے اور نہ بیلٹ باکس، کیوں کہ وہاں اب الیکٹرانی طر یقے سے رائے کا اظہار کیا جاتا ہے۔

انتخابات میں رائے دہندگی کے دنیا میں دو طریقے را ئج ہیں۔ اول عیاں، دوم خفیہ۔ جدید تاریخ میں برطانیہ میں پہلی مرتبہ 15 اگست 1872ء کو پوٹن فریکٹ میں خفیہ رائے شماری کی گئی تھی جس میں بیلٹ پیپر اور بیلٹ باکس استعمال ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں وہاں بیلٹ ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا۔ ان بیلٹ باکسز کو موم سے سر بہ مہر کیا گیا تھا اور LIQUORICE (ملٹھی) کی مہر لگائی گئی تھی۔ واشنگٹن ڈی سی میں پہلے وفاقی انتخابات میں گتّے سے بنے بیلٹ باکس استعمال کیے گئے تھے۔ شمال مشرقی امریکا میں 1870ء میں جاری کش مکش کے دوران استعمال ہونے والے بیلٹ باکس لکڑی سے بنے ہوئے تھے۔ کیلی فورنیا میں 1936ء میں استعمال ہونے والے بیلٹ باکس گیلوینائزڈ دھات سے بنائے گئے تھے۔ امریکا میں 1884ء میں استعمال ہونے والے بیلٹ باکس شیشے سے بنے ہوئے تھے۔

انیسویں صدی کے زیادہ تر عرصے میں مغربی ممالک میں پیپر بیلٹ کی طباعت اور ان کی تقسیم کا کام سیاسی جما عتوں کے کنٹرول میں تھا جنہیں پارٹی ٹکٹ کے نام سے شہرت ملی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اس کام کے لیے استعمال ہونے والے کاغذکے سائز، موٹائی اور رخ کے بارے میںریاستوں نے قوانین بنائے تھے۔ باقی معاملات سیاسی جماعتوں کی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں وہاں بیلٹ کی مختلف اشکال اور اقسام سامنے آگئی تھیں اور ان کے ذریعے ابہامات اور جعل سازی کے دروازے کُھل گئے تھے۔ یہ مسائل حل کرنے کے لیے وہاں گزرتے وقت کے ساتھ انتخابی اصلاحات کی گئیںاور آج وہاں ان مسائل پر قابو پالیا گیا ہے۔

انتخابات میں جعل سازی اور دھاندلی کی شکایات نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہیں۔چند برس قبل امریکا میں بھی اس بارے میں آوازیں اٹھی تھیں۔ وہاں بعض حلقوں نے ری پبلکن پارٹی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے فلوریڈا سے پنسلوانیا تک اقلیت کے ووٹ کی طاقت کم کرنے کی کو شش کی ہے۔ یہ آواز اٹھانے والے صرف سیاہ فام نہیں تھے بلکہ ان سے آواز ملانے والے بہت سے سفید فام بھی تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹس کے حامی اضلاع میں شناختی کارڈ کی اور دیگر پابندیاں لگا کر اس جماعت کے حامیوں کی طاقت کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے بہ قول 1960ء کے عشرے میں بھی جنوبی علاقوں میں ایسا کیا گیا تھا۔ ایسے اقدامات کے خلاف امریکا کی بعض اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات بھی دائر کیے گئے تھے جن کے فیصلوں میں اس بارے میں بعض رہنما اصول وضح کیے گئے تھے۔ 1966ء میں امریکا کی سپریم کورٹ نے اس با رے میں آخری رکاوٹیں بھی ختم کردی تھیں اور اس کے بعد وہاں ووٹنگ رائٹ ایکٹ منظور کرلیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہاں سیاہ فاموں اور کم تعلیم یافتہ افراد کے ووٹ دینے کے حق کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہوگئی تھیں۔

آج کل دنیا بھر میں عام انتخابات اور ریفرنڈم میں رائے دینے کا جو طریقہ رائج ہے وہ خفیہ اظہارِرائے کہلاتا ہے۔ اس طریقے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ رائے دہندہ بلا خوف و خطر کسی امیدوار کے حق یا مخالفت میں اپنی شنا خت ظاہر کیے بغیر رائے کا اظہار کرسکے اور کوئی امیدوار کسی رائے دہندہ کو دبائویا لالچ کے تحت اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور نہ کرسکے۔ طباع شدہ فارم کے ذریعے انتخابات میں اظہارِ رائے کا یہ خفیہ طریقہ آسٹریلین بیلٹ بھی کہلاتا ہے، کیوں کہ وہاں یہ پہلی مرتبہ 1850ء کی دہا ئی میں استعمال ہوا تھا۔

امریکا میں اسے میساچوسٹس بیلٹ کہا جاتا ہے، کیوں کہ وہاں پہلی مرتبہ یہ طریقہ ریاست میساچوسٹس میں استعمال کیا گیا تھا اور 1892ء سے وہاں یہ طریقہ تمام ریاستوں میں استعمال ہونے لگا تھا۔ تاہم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خفیہ اظہارِرائے کا طریقہ سب سے پہلےیونانیوںنے اپنایا تھا اور وہاں اسے مختلف موا قعےپر استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی طرح روم کی سلطنت دنیا کی وہ پہلی سلطنت تھی جس نے سب سے پہلے یعنی 139 قبلِ مسیح میں انتخابات سے متعلق قوائد و ضوابط ترتیب دیے تھے۔ فرانس کے 1795ء کے آئین کا آرٹیکل نمبر 31 کہتا ہے: ’’تمام انتخابات خفیہ اظہارِرائےکے طر یقے کے تحت ہوں گے۔‘‘ یہ ہی بات 1848ء کا آئین بھی کہتاہے۔یہ آئین کہتاہےکہ رائےدہندہ اپنے پسند ید ہ امیدوار کا نام بیلٹ پیپر پر اپنے گھر میں لکھے گا اور ایسا سفید کاغذ کے ٹکڑے پر کیا جائے گا۔ پھراس کاغذ کو تہہ کیا جائےگاتاکہ دیگر افراد کاغذپر لکھاگیانام نہ دیکھ سکیں۔

نپولین بوناپارٹ نے 1851ء میں ہونے والی را ئے شماری میں خفیہ اظہارِرائے کا طریقہ ختم کرنے کی کو شش کی تھی۔ اس کے لیے اس نے ایک انتخابی حکم نامہ جا ری کیا تھا جس کے تحت رائے دہندگان سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنی رائے کا اظہار ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ لکھ کر کر یں اور ایسا سب لوگوں کے سامنے کیا جائے۔ لیکن اس با ر ے میں اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بالآخر اس نے پسپائی اختیار کرلی تھی۔ فرانس میں پولنگ بوتھ 1913ء سے مستقل طور پر استعمال ہونے لگا تھا۔ ا نگلستا ن میں 1755ء سے قبل خفیہ رائے شماری کا طریقہ رائج نہیں تھا اور رائے دہندگان مشترکہ جگہ پر اپنی رائے کا عیا ں طریقے سے اظہار کرتے تھے۔

وہاں چارٹسٹس (CHARTISTS) نے حکومتِ وقت کو جو چھ مطالبات پیش کیے تھے ان میں سے ایک خفیہ رائے شما ر ی کا تھا۔ تاہم اس وقت کی حکومت نے اس پر غور کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ لارڈمیکالے نے1842ء میں ان مطالبات کو یکسر رد کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں اعتراف کیاتھاکہ خفیہ اظہارِرائےکامطالبہ ان دو مطا لبا ت میں سے ایک ہے جن کی وہ حمایت کرسکتے ہیں۔بعد میںانگلستان میں 1872ء کے بیلٹ ایکٹ کے تحت خفیہ اظہارِرائے کا طریقہ متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس ایکٹ کے تحت انتخابی مہم کے اخراجات میں کچھ حد تک کمی کی گئی تھی۔

چارٹسٹس کا یہ مطالبہ آسٹریا کی نو آبادیات میں بھی بہت مقبول ہوگیا تھا اور وکٹوریا میں 1854ء میں اس کے حق میں آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ لہٰذا اس کی ایک آبادی تسمانیا میں پہلی مرتبہ 7 فروری 1856ء کو اس مطالبے پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔ امریکا میں 1884ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد وہاں زیادہ تر ریاستوں میں خفیہ اظہارِرائے کا طریقہ اپنا لیا گیا تھا۔ ریاست کینٹکی وہ آخری امریکی ریاست تھی جس نے سب سے آخر میں، یعنی 1891ء میں، یہ طریقہ اپنایا تھا۔ اس سے قبل وہاں زبانی اظہارِرائے کا طریقہ رائج تھا۔ امریکا میں مکمل طورپر آسٹریلین بیلٹ کے تحت منتخب ہونے والے پہلے صدر گروور کلیولینڈ تھے۔

آسٹریلیا کے لوگوں نے تقریباً ایک صدی قبل خفیہ اظہارِ رائے اور بیلٹ باکس کا استعمال شروع کرتے ہو ئے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے اس عمل کی بعد میں دنیا بھر میں تقلید کی جائے گی۔ اس زمانے میں جمہوریت کا لفظ صرف کھاتے پیتے افراد کے لیے ہی قابل احترام تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ اس وقت وہاں عام آدمی کی رائے کا کسی بھی معاملے میں کوئی احترام نہیں تھا بلکہ یہ مسئلہ بھی تھا کہ عوام کی مقبول رائے کو، خواہ وہ کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو، محفوظ بنانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ تا ہم 1850ء تک وہاں تبدیلی کا آغاز ہوچکا تھا۔

اس برس وہا ں ایک ایکٹ ’’فاردی بیٹر گورنمنٹ آف ہرمیجسٹیز آ سٹر یلین کالونیز‘‘ کے عنوان سے نافذالعمل ہوگیا تھا جس کے تحت جنوبی آسٹریلیا اور پورٹ فلپ ڈسٹرکٹ کو قانون سا ز کونسلز منتخب کرنے کا اختیاردے دیا گیا تھا۔ یہ کونسلز تشکیل دینے کے لیے مشینری کے انتخاب کے معاملے پر وہاں ا حتجاج شروع ہوگیا تھا اور بیلٹ اپنانے کا مطالبہ ہونے لگا تھا۔ چناں چہ 19 مارچ 1856ء کو بیلٹ سے متعلق پہلا قا نون وکٹوریا میں منظور ہوا تھا۔ اس نکتے سے وہاں انقلابی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بیلٹ، بیلٹ باکس اور خفیہ اظہار رائے کے طریقے اپنانے کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوگیا جس کے بعد سے آج تک بہت سی اقوام کے مستقبل کے فیصلے ان ہی ذرا یع کی مدد سے ہوتے آرہے ہیں۔ آج ہم بھی اپنی تاریخ کے بہت اہم موڑ پر کھڑے ہیں لہٰذا اس مرحلے پر ہمیں بھی بہت ہوش مندی کے ساتھ یہ طریقہ استعمال کرنا چاہیے۔

دنیا میں بیلٹ باکس اور بیلٹ پیپر کے حجم، شکل، رنگ اور انداز کے بارے میں طرح طرح کے قوانین اور قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ مختلف ممالک میں یہ قانون، قاعدے حکومتیں، حزبِ اختلاف کے ساتھ طویل مشاورت اور غو ر و خوض کے بعد بناتی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ پوری آزادی کے ساتھ لوگوں کی جانب سے رائے کے اظہار کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ انتخابی عمل کی شفّافیت کو یقینی بنانے کا ہوتا ہے۔ بعض ممالک میں اس ضمن میں بہت زیادہ پیش رفت کی جاچکی ہے اور وہاں الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ رائج ہوگیا ہے۔ ہمارے پڑ و سی ملک بھارت میں بھی ایسی مشین کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس مشین کی وجہ سے بیلٹ پیپر کی طباعت، منتقلی اور حفاظت ،بیلٹ باکس بنانے، انہیں منتقل کرنے ا و ر ان کی حفاظت کرنے کے اخراجات بھی ختم ہوگئے ہیں ۔ الیکٹرانک ووٹنگ کی وجہ سے ووٹس کی گنتی میں صرف ہو نے والا وقت اور رائے کے اظہار کا وقت کافی کم ہوگیا ہے۔جن ممالک میں آج بھی بیلٹ باکس استعمال ہو ر ہے ہیں ان میں سے بعض میں شفاف پلاسٹک سے بنے ہوئے بیلٹ باکس کا استعمال لازم ہے۔

یہ باکسز رائے د ہندگان کی تعداد کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ پھر یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ ایک بار یہ باکس سر بہ مہر کردیا جائے تو اسے مہر توڑے بغیر کھولانہ جاسکے۔ ان کا وزن ایسا ہوتا ہے کہ انہیں آسانی سے ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاسکے۔بعض ممالک میں توان باکسز پر لگائی جانے والی مہر یا تالے کی شکل، قسم اور اس کی تیاری کے مواد کے با ر ے میں بھی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ بعض ممالک میں ان پر منفرد انداز کے کوڈ بھی ڈالے جاتے ہیں تاکہ گنتی کے وقت کوئی جعل سازی ممکن نہ ہوسکے۔ آج کل بہت سے ممالک میں (بہ شمول پاکستان) بیلٹ باکس کو سر بہ مہر کرنے کے لیے پلاسٹک کی مخصوص سیل استعمال کی جاتی ہے جسے توڑے بغیر کھولنا ناممکن ہوتا ہے۔

بیلٹ پیپر کا ڈیزائن اور پولنگ کا مقام اکثر معذور افراد کو رائے شماری میں حصہ لینے سے روکتا ہے یا ان کے لیے ایسا کرنا مشکل بناتا ہے۔ بہت سے ممالک میں اس کام کے لیے انہیں کسی شخص کو نام زد کرنا پڑتا ہے جو ان کے نام پر بیلٹ استعمال کرتا ہے۔ یہ عمل رائے کو خفیہ رکھنے کی ضمانت نہیں دیتا۔ لہٰذا معذوروں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن (جو 2008ء میں نافذالعمل ہوا) معذوروں کے لیے خفیہ اظہار رائے کو یقینی بناتا ہے۔ اس کا آرٹیکل نمبر 29 کہتا ہے کہ اس کنونشن پر دست خط کرنے اور اس کی توثیق کرنے والی تمام ریاستیں انتخا با ت اور ریفرنڈم میں معذوروں کے خفیہ اظہار رائے میں حصہ لینے کے حق کو تحفظ دینے کی پابند ہیں۔ اس کے لیے ریاستوں کو اظہار رائے کے لیے ایسے آلات یا سامان فراہم کرنے چاہئیں جن کی مدد سے معذور افراد آزادانہ اور خفیہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔

امریکا، نیدر لینڈ ،سلوینیا،البانیا اور بھارت معذوروں کو ووٹنگ مشین ا ستعما ل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ آذربائیجان، کینیڈا، گھا نا ، انگلستان اور براعظم ایشیا اور افریقا کے زیادہ تر ممالک میں بصارت سے محروم افراد بریل کے نظام کے تحت یا کا غذ پر طبع شدہ بیلٹ استعمال کرسکتے ہیں۔ مذکورہ کنونشن کا آ رٹیکل نمبر 29 یہ بھی کہتا ہے کہ اظہارِ رائے کا عمل، متعلقہ سہو لتیں اور مواد بھی اس ضمن میں مناسب، قابلِ رسائی، آ سا ن اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا اور استعمال کے قابل ہونا چاہیے۔ بعض ممالک، مثلاً انگلستان، سویڈن اور ر یا ست ہائے متحدہ امریکا میں تمام پولنگ اسٹیشنز اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ معذور افراد آسانی سے ان تک رسائی حاصل اور انہیں استعمال کرسکیں۔