اوم پور کی دلہن

August 05, 2018

حجلۂ عروسی میں سِمٹی سمٹائی، آنسو چھلکاتی دُلہن کے اعتراف نے دلہے کو ششدر کردیا۔ سلیم ہکّا بکّا سامنے لٹکتی گلاب، گیندے کی لڑیوں کو گھور رہا تھا۔اُس کا ذہن ماضی میں چلا گیا۔

بستی، قلعے کے گردونواح تک ہی محدود تھی۔ قلعے کی فصیل سے باہر کے علاقے کو بیرونِ شہر کہا جاتا اور سرِشام ہی قلعے کی دیوار میں رخنہ ڈالتے دیوہیکل دروازوں کو بند کر کے صرف مشرقی سمت کے دروازے کے اندر قدِآدم رستہ کھُلا رکھا جاتا۔ رات کے پہلے پہر اُسے بھی بند کر دیا جاتا۔ کوئی بھولا بھٹکا راہی، مسافر اِدھر آن وارد ہوتا تو اسے خُوب چھان پھٹک کے بعد داخلے کی اجازت ملتی۔ایسے میں جب کہ جاڑ ے کے ابتدائی دِنوں کی شاموں میں بیرونِ فصیل آبادی، کُہرکاسرمئی غازہ رمائے اونگھتی ہوتی، اندرونِ فصیل زندگی جاگ جاتی۔ مشعلیں جل اُٹھتیں اور اُن کا دھواں افق سے گھُلتا مِلتا پھیلتا جاتا۔ بستی کی تمام پُرپیچ گلیوں، چوراہوں پر تیل کے ہنڈے نصب کر دئیے گئے تھے، جنھیں سرِشام نیچا کر کے، تیل بَھر کے اور روشن کرکے پھر سے بُلند کر دیا جاتا۔ دُور بُلندی سے یہ تصویر اور بھی خواب ناک لگتی، جب یکے بعد دیگرے تمام ہنڈے روشن ہوتے جاتے۔ یہ منظر پھولوں کے وسیع باغ سے مماثل نظر آتا، جس پر رات کو جگنوئوں کی ایک برات اُتری ہو۔ایسے میں بستی کی گہما گہمی عروج پکڑ لیتی۔

وہ ایک ایسی ہی شام تھی، جب بانکا، چھبیلا سلیم سَر پر دوپلی تِرچھی ٹوپی پہنے شاہی چوک سے نیچے اُترتی گلی میں اپنے بے فکرے دوستوں کے ساتھ گرما گرم مونگ پھلیاں پھانکتا، گپیں ہانکتا چلا آتا تھا۔ سرد ہوا تیز تھی، اس کی نقرئی تار کے کام والی سیاہ اچکن پھڑپھڑا کے، نیچے پہنے سفید پاجامے کُرتے کو نمایاں کررہی تھی۔یک دَم تیز سنسناتی ہوا اس کی ٹوپی لے اُڑی۔ وہ ٹوپی کے پیچھے بھاگا لیکن ٹوپی تھی کہ ہاتھ آنے کا نام نہ لیتی تھی۔ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا، وہ چند قدم اور آگے لُڑھک جاتی، جیسے کوئی خُفتہ ڈور اسے کھینچے لیے جاتی ہو۔بازار والوں کے لیے تو تماشے کا اچھا سامان ہوگیا۔ دو طرفہ چھوٹی چھوٹی دکانوںکے دکان دار جھانکنے اور مُسکرانے لگے، لیکن کسی میں اتنی جرأت نہ تھی کہ چھوٹے نواب کے لاڈلے کے ساتھ کُھل کر ٹھٹّھا کرے۔ اِدھر وہ خوانچہ فروشوں سے بچتا، خریداروں کے بیچ رستہ بناتا، گلی پھلانگتا چلا جاتا تھا، اُدھر اس کے دوست اس کے پیچھے پیچھے رستہ الانگتے چلے آتے تھے۔اور پھر ٹوپی کسی کے پیروں سے جا لپٹی اور پھڑپھڑانے لگی۔

اس نے ٹوپی کو جا لیا۔ جھاڑ پھٹک کے، گھُٹنے پر مار کے سَر پر ترچھی کرکے ڈالی اور تشّکرکے لیے سامنے دیکھا تو ٹھٹھک گیا۔دو آئینہ آنکھوں میں مشعل کے شعلے کا عکس لرز رہا تھا۔ دودھ رنگ چہرے پر ملاحت کا ہلکا سا سایہ پڑتا تھا۔ رُخساروں کی نازک میدے کی پھُلکی سی جِلد ٹھوڑی کے خم میں جا ملتی تھی۔نظریں، نظروں سے ملیں اور شعلوں کے عکس کو ریشمی پلکوں نے ڈھانپ لیا۔سلیم کی شرارتی نظروں نے اُسے دیکھا۔’’سلیم آج پہلی مرتبہ اللہ کے بعد، کسی اورکے آگے جھکاہے۔‘‘اس جملے پر دوشیزہ نے جلدی سے گھبرا کر دوبارہ کن اکھیوں سے سلیم کو دیکھا اور اوڑھنی سنبھالتی مخالف سمت چل دی۔ اتنے میں سلیم کے ساتھی بھی آن پہنچے۔ اُن میں سے ایک پھُولتی سانس میں بولا،’’کیوں خیر ہے میاں؟‘‘وہ بھی اس دوشیزہ کو دیکھ چکا تھا۔’’ہاں خیر ہی سمجھو شبّن‘‘۔ کہہ کر وہ چلا ،تواس کے ہم راہی بھی پیچھے چل دئیے۔

اُس رات جب ستاروں کی چادر زمین کے قریب اُتر آئی اور چاند کی قاش پر حویلی کے کمرے کی کھڑکی سے ٹکٹکی باندھے سلیم سویا ،تو شب بَھر وہ آنکھیں اس کے سپنوں میں آتی رہیں۔پھرصُبح سویرے جب مُرغوں کی بانگوں، تیتروں کے سبحان تیری قدرت کے ورد اور کبوتروں کی غٹرغوں نے اس کی سماعت پر دستک دی، تو اُس نے پہلے ایک آنکھ کھولی پھر دوسری۔وہ دونوں آنکھیں غائب تھیں۔ سامنے چُونا تُھپی دیوار پر جاڑے کی صُبحِ کاذب کا دھواں دھواں سایہ مچل رہا تھا۔ اُس کا آسمانی نیلا ریشمی لحاف مسہری سے نیچے گِرا پڑا تھا۔ رات سے کُھلا کھڑکی کا کواڑ تیز کٹیلی ہوا سے اور کُھل گیا تھا۔ اس نے لحاف کھینچ کر اپنے اوپر ڈال لیا۔ٹھنڈے برف ہوتے پیروں کو آرام ملا، تو ایک سکون سا آگیا، مگر وہ آنکھیں غائب تھیں۔آخر کو وہ کسمسا کر اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔نیچے چھوٹی اینٹ کے وسیع دالان کے تین اطراف برآمدہ تھا اور ایک جانب چوبی دروازہ، جو باہر بیٹھک میں کُھلتا تھا۔

برآمدہ بھاری بھرکم گول ستونوں پر کھڑا تھا۔ تمام ستون بیلوں سے ڈھکے تھے۔ ساتھ میں سنگِ مرمر کے مختلف گملے دھرے تھے، جن میں پودے، بُوٹے لہلہا رہے تھے۔ وسط میں سنگِ سرُخ کا ایک فوارہ تھا، جو کنول کے کھِلے پھول کی مانند تراشا گیا تھا۔کچھ دیر وہ دالان میں بے چینی سے ٹہلتا رہا۔یہاں تک کہ تھک کر برآمدے میں پڑے دیوان سے ٹیک لگا کر سُرمئی آسمان کو دیکھنے لگا۔ ’’دو آنکھیں‘‘۔ وہ بُڑبُڑایا اور گُنگُنانے لگا۔ گُنگُناتے ہوئے اسے پتا ہی نہ چلا کہ کتنا وقت بیت گیا ،بادل چَھٹ گئے، آسمان صاف ہوگیااور دھوپ صحن میں اُتر آئی۔وہ چونک گیا،برآمدے میں جانا ہی چاہتا تھاکہ مردانے کی جانب کا دروازہ کُھلا۔’’اجی سلیم میاں! شبّن صاحب تشریف لائے ہیں، حضور کو یاد فرما رہے ہیں۔‘‘ ’’بلّو بھائی! ان کو یہیں لے آئو۔ آج ہمارا چوسر کھیلنے کو مَن نہیں۔‘‘ساعت بَھر میں شبّن نمودار ہوا اور سلیم کو آداب کہا۔دونوں برآمدے میں پڑے سیاہ آبنوسی لکڑی کے دیوان پر گائو تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔بلّو بہت اہتمام سے پان دان اُن کے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا اور سر جھُکا کر پتّوں پر کتھا لگانے لگا۔سلیم اُسے دیکھ کر کھنکھارا،’’بلّو بھائی! آج ہمارا پان کھانے کا بھی جی نہیں۔

ہمیں تخلّیہ عنایت کر دیا جائے۔‘‘تنہائی پاتے ہی شبّن حیرت بَھرے لہجے میں بول اُٹھا۔’’نہ چوسر، نہ پان اور تخلّیہ۔ خیریت تو ہے سلیم میاں؟‘‘’’شبّن! گزشتہ شب سے وہ ’’دو آنکھیں‘‘ طواف کر رہی ہیں۔‘‘’’عشق وشق؟‘‘ ’’ہاں شبّن میاں،ہمیں وہ ماہ پارہ تلاش کردو۔ ہمارا دُکھ بانٹ لو۔سینے سے بوجھ اُتار دو۔‘‘’’اس سے پہلے بھی تو کتنے بوجھ اتارے ہیں شاہ آباد شہر میں۔یہاں اوم پور میں بھی کوئی صُورت بَن ہی جائے گی۔ پر سلیم میاں، وہ دوسرا شہر تھا۔ اب یہاں آنجناب ابّا حضور کے زیرِسایہ سینے سے بوجھ اُترواتےخود زمیں کے سینے پر بوجھ نہ بن جائیے گا۔‘‘’’اس تفّکر میں مت پڑو اور کوئی صورت بنائو۔‘‘’’کوئی نہ کوئی صورت تو بن ہی جائے گی۔ سیلم میاں…‘‘

اور پھر…اُسی شام ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق شبّن گزشتہ شب والے رستے سے پیوستہ گلی میں ہنڈے سے پرے کھڑا ہو کر ہر راہ گیر کو تاکنے لگا۔شام، رات میں بدل کر بھیگ گئی۔ راہ گیروں کا رش دَم توڑنے لگا۔ گرم مونگ پھلیوں، ریوڑیوں، جلیبیوں اور موسمبیوں کے خوانچہ فروشوں کی آوازیں مدھم پڑنے لگیں۔ آخر قریبی چوبارے پر ٹیک لگائے، شبُن اونگھنے لگا۔ یہاں تک کہ مایوس ہو کر چل دیا۔اگلی دو شامیں بھی اُجڑے شہر کے اپاہج بھکاری کے اندھے کاسے کی طرح گزر گئیں۔چوتھی شام جب وہ بیچ بازار سر

نیہوڑائے چلا جارہا تھا کہ سامنے سے بیبیوں کی ایک ٹولی کی نسوانی بھنبھناہٹ سُن کر ایک جانب ہونے ہی کو ہی تھا کہ حلوائی کے دودھ سے بَھرے کُونڈے کو بچاتے، لڑکھڑاتے، گرتے ایک بی بی کے برقعے کا کونا ہاتھ آگیا۔ اب کے سامنے ایک بڑی بوڑھی برہنہ سَر، اُسے خشمگیں، ملامتی نگاہوں سے گھُور رہی تھیں۔ اس نے گڑبڑا کر جلدی سے زمین سے سَرپوش اُٹھا کر اُنہیں پکڑایا۔’’معاف کیجیے گا بیٹا۔‘‘چوڑیاں چھنکیں، ہنسی کی نقرئی گھنٹیاں بجیں اور وہ بذلہ سنج بی اُسی رَو میں کہہ گئیں۔’’کوئی بات نہیں پھوپھا جی۔‘‘وہ آنکھیں گھُما کر نیم اوندھی ہوتی ان چار بیبیوں کو دیکھنے لگا۔ قریبی ہنڈے کی سُنہری روشنی ان میں سے ایک دوشیزہ کے عارض اور پھر پورے چہرے کو دَمکا گئی۔’’یہ وہی آنکھیں ہیں میاں‘‘ سوچ نے دستک دی۔اُس نے معذرت کی اور لمبے ڈگ بَھرتا مخالف سمت چل دیا۔ تھوڑی دُور جا کے یک دَم رُک گیا۔ایک ٹم ٹم اُسے بچاتی تِرچھی ہو کر آگے نکل گئی۔دفعتاً وہ مُڑا اور ہر قدم دیکھ بھال کر دھرتا، کچھ فاصلے سے بیبیوں کے تعاقب میں چل دیا۔بیبیاں دو چار گلیاں مُڑ کے ایک پرانی طرز کی حویلی کے سامنے جاکھڑی ہوئیں۔ شبّن بہت احتیاط سے اُن کا پیچھا کرتا آیاتھا ۔

اب ایک دیوار کی اوٹ میں کھڑا تھا۔ اتنے میں حویلی کی بالائی منزل سے ایک نسوانی آواز آئی،’’آہا…آپا! آپ پیدل ہی چلی آئیں۔ ڈولی والے مَر گئے تھے کیابستی میں۔‘‘’’بٹیا !اندر تو آنے دو، پھر ساری رام کہانی سُن لینا۔‘‘دروازے کے کواڑوں کے چرچرانے کی آواز سُنائی دی اور نسوانی آوازیں اُس میں دب کر رہ گئیں۔’’اصل تماشا تو اب شروع ہوا ہے۔‘‘ شبّن نے سوچا اور وہیں جم کر بیٹھ گیا۔چار چھے گھڑیوں بعد کواڑ چرچرائے، آوازیں اُبھریں، قدموں کی چاپ اسے اپنے قریب آتی سُنائی دی اور دو برقع پوش ہیولے اس کے سامنے سے گزر گئے۔وہ تذبذب کا شکار ہوگیا۔’’وہ ماہ لقا اُن دو میں ہے، جو اندر رہ گئیں یا اِن دو میں۔ میں واپس ہو لوں یا اِن کا پیچھا کروں؟‘‘ ’’وہ تو صِرف اوڑھنی لیے تھی۔اس لیے یقیناً اندر ہی ہوگی‘‘اُس نے سوچا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سلیم کے سامنے بیٹھا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ساری کارروائی کی روداد جب سلیم کو سُنا چکا، تو دونوں خاموش ہوگئے۔ بس وقفے وقفے سے ’’ہوشیار، خبردار‘‘ کی آوازیں جاڑے کی سنسان رات کے سیاہ انگرکھے کی سلائی کو اُدھیڑے جاتیں۔’’اچھا؟‘‘سلیم بولا۔’’جی!‘‘ شبّن نے جواب دیا اور بات مکمل کی۔ ’’بھابی کا گھر دیکھ آیاہوں۔ اب بارات کی تیاری کرو۔‘‘

اگلی صُبح شبّن ترکاری لینے کے بہانے پھر اُسی گلی جا پہنچا۔ دِن کے اُجالے میں حویلی اِرد گِرد کے مکانوں میں یوں دِکھتی تھی، جیسے قراقلی، عرق چینی، چہار گوشہ ٹوپیوں کے بیچ تاج دھرا ہو۔کچھ دیر تو وہ سامنے چوبارے پر سستاتا رہا، پھر نظروں میں آجانے کے اندیشے سے اُٹھنے ہی کو تھا کہ ایک بُڑھیا اپنے سَر پر ایک ٹوکرا سنبھالتی سامنے آکھڑی ہوئی۔ اُس کی پشت شبّن کی جانب تھی۔ اس نے ٹوکرا نیچے رکھ کر دروازے پر لگا آہنی کُنڈا بجایا اور انتظار کرنے لگی۔ شبّن نے ٹوکرے میں دیکھا تو انواع اقسام کے مختلف رنگین کپڑے نفاست سے تہہ کیے دھرے تھے۔سرسراہٹ کی آواز سے اوپر کی منزل سے چلمن ہٹی، ایک نسوانی چہرے نے جھانکا اور غائب ہوگیا۔اب کے شبّن کا یقین پختہ ہوگیا۔اتنے میں دروازہ کھلا اور بُڑھیا اندر چلی گئی۔

شبّن اپنے منصوبے کا دوسرا حصّہ سوچنے لگا۔وہ وہاں سے ہٹ کر گلی کی نُکڑ پر آن بیٹھا ۔ بہ ظاہر تو وہ آس پاس سے لاتعلق نظرآتا تھا،مگر درحقیقت اُسی حویلی پر نظر رکھے ہوئے تھا۔بازار میں سبزی ترکاری اور منیاری کی ہٹیاں تو صُبح سے کھُل چکی تھیں۔ خوانچہ فروش ریڑھیاں دھکیلتے اور پھیرے باز سر پر ٹوکرے جمائے گلیوں میں صدائیں دیتے اپنے مال منال کی بِکری میں مصروف تھے۔’’لیلیٰ کی انگلیاں، مجنوں کی پسلیاں ہیں۔ کیا خُوب ککڑیاں ہیں۔‘‘’’لال گلال تربوز۔ شہد بَھرے تربوز۔‘‘سورج کی کرنیں قریبی مندر کے دھاتی کلس سے دھیرے دھیرے اُترتی گلی میں چلتے خریداروں کے پیروں میں لَوٹنے لگیں، تو شبّن کی آنکھوں میں چمک عود آئی۔وہی بڑھیا چادر کا پلّو سنبھالتی، سَر پر ٹوکرے کو گرنے سے بچاتی، چھوٹے قدموں سے حویلی کے دروازے سے نکلی اور بازار کا رُخ کیا۔شبّن نے پیر زمین پر ٹکائے اور بہ ظاہر ایک مصنوعی انگڑائی لیتا، ٹہلتا ہوا بُڑھیا کے پیچھے ہولیا۔ بڑھیا نے تیز قدموں سے بازار کو لمبائی میں عبور کیا اور شہر کے نسبتاً کم مایہ حصّے میں داخل ہوگئی۔’’دادی آگئی۔ دادی آگئی۔‘‘ایک بچّہ بہت پیار سے بڑھیا کا ہاتھ تھام کر ایک کوٹھری کا میلے سے کپڑے کا پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوگیا۔شبّن نے بھی چند ثانیے کچھ سوچا اور لمبے ڈگ بَھرتا اُسی کوٹھری کے سامنے جا پہنچا۔ اندر سے عورتوں، مَردوں کی مِلی جُلی آوازیں آرہی تھیں۔

شبّن نے کھنکھار کر آواز لگائی۔’’اے بھائی !کوئی ہے؟‘‘ٹاٹ کا پردہ سرِکا اور وہی بچّہ باہر جھانکنے لگا۔’’چندو! بڑی بی ہیں؟‘‘’’آپ کون؟‘‘’’کہنا دلاور لِلّہ آئے ہیں۔‘‘بچّے نے سَر سے پیرتک اُنھیں دیکھا اور اندر چلا گیا۔چند ثانیے بعد پردہ ہٹا، اُسی بڑھیا نے سَر باہر نکالا اور استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔’’ابّا نواب صاحب نے دلاور نام رکھا تھا۔ آپ شبّن کہہ سکتی ہیں۔‘‘بڑھیا کی نظروں کا سوال ہنوز برقرار تھا۔’’آپ کے ہاں کی کڑھائی اور کام کے زنانہ کپڑوں کی بہت تعریف سُنی تھی۔‘‘’’کیا کوئی بی بی نہیں آئیں؟‘‘بڑی بی نے سوال کیا۔’’وہ حویلی ہی میں ہیں۔‘‘’’تو کیا حویلی آنا پڑے گا۔‘‘شبّن نے جھجکتے ہوئے کہا ’’نہیں، اُنہیں آج دوسرے شہر جانا ہے۔ ہمیں اُن کی جانب سے اختیار ہے۔‘‘’’مَیں تو چند گھرانوں ہی کا کام کرتی ہوں۔‘‘’’ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل کر لیجیے۔‘‘بڑھیا نے لمبی’’ ہُوں‘‘بَھری اور واپس لوٹ گئی۔ شبّن انتظار کرتا رہا۔ چند لحظے بعد وہی لڑکا اُسے اپنی راہ نمائی میں اندر لے گیا۔ بڑھیا نے ٹوکرا کھڑکی کے سامنے جا رکھا اور کپڑے کے تھان کھول کھول کر اُسے دکھانے لگی۔کچھ دیر کپڑے دیکھنے کے بعد وہ بولا،’’خالہ! آپ ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ زنانہ کپڑے پسند کرنا تو بس عورتوں ہی کا کام ہے۔ اُن کی واپسی کا انتظار کرتا ہوں۔ اور پھر آپ کو ماپ لینے تو آنا ہی ہوگا۔‘‘ابھی شبّن گلی میں چند قدم ہی چلا تھا کہ وہ بڑھیا تقریباً بھاگتی اُس کے پاس آ پہنچی اور اپنی ہتھیلی کھول دی۔’’بیٹا !آپ کے چاندی کے سِکّے کپڑوں میں گِر گئے تھے۔‘‘شبّن نے پہلے ہاتھ بڑھایا، پھر ہٹا کر بولا،’’خالہ! کوئی نامُراد ہی ہوگا، جو آپ سی بزرگ کے ہاتھوں سے پیسے واپس لے۔ یہ آپ ہی کی امانت ہے۔ میں توبس ایک وسیلہ بن گیا۔ دُعائوں میں یاد رکھیے گا۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ بہت تابعےداری سے سَر جُھکا کر اپنے کّھسّے کی مُڑی نوک دیکھتا چل دیا۔بُڑھیا ممنونیت سے اُسے تکتی اور دُعائیں دیتی واپس مُڑ گئی۔اِس واقعے کے بعد چودھویں کی رات کو شبّن اور سلیم قلعے کی قدیم، خستہ دیوار کے ساتھ بنے تالاب کے گِرد پتھریلی سیڑھیوں پر بیٹھے پانی میں کنکر پھینک رہے تھے۔ جھینگروں کا شور، حشرات اور مکوڑوں کی آوازوں میں دَب سا گیا تھا۔ ’’تو اب تک کام یابی نہیں ہوئی؟‘‘ سلیم نے مایوسی سے پوچھا۔ ’’پورا احوال تو سُنا دیا ہے۔ بڑھیا کو تیسری مُلاقات ہی میں شیشے میں اُتار لیا تھا۔بس، چاندی کے چند سِکّے مزید لُٹانا پڑے اور ریشمی کپڑے کا ایک تھان خریدنا پڑ گیا۔‘‘ شبّن نے ضمناً ذکر کیا۔’’مگر سلیم میاں! شبِ وصال تو دُور کی بات، وہ خندہ جبیں تو ملاقات پر بھی متردّد ہے۔ بلکہ بڑھیا کو بھی بے نقط سُنا ڈالیں۔ بڑی بی نے تو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ یہاںدال گلنے کی نہیں۔ پُرانے خاندانی لوگ ہیں۔ اکلوتی بیٹی ہے۔ بڑھیا بتاتی ہے کہ جتنی حسین ہے، اُتنی ہی باحیا بھی۔‘‘کافی دیر دونوں کے بیچ خاموشی کا پردہ حائل رہا۔پھر شبّن کی آنکھوں میں ایک چمک لہرائی اور وہ چُٹکی بجا کے بولا، ’’ایک کارگر ترکیب ذہن میں آئی ہے۔‘‘

اگلی صُبح جب وہ شبّن سے تالاب کنارے مِلا، تو شبّن نے اپنے ساتھ کھڑے خشخشی داڑھی اور جَمے بالوں کے پٹّوں والے جوان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔’’یہ ہیں آزردہؔ صاحب۔ صاحبِ دیوان اور جہانِ ریختہ کے مہان اور عشّاق کے پردھان۔‘‘پھر تینوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ کبھی آزردہؔ صاحب انکار میں سَر ہلانے لگتے،تو شبّن اُن کے گھٹنے دبانے بیٹھ جاتا۔ ایک مرتبہ تو وہ اُٹھ کر جانے کو بھی لگے، تو شبّن نے ہاتھ جوڑ کر اُنہیں روکا۔اِس ملاقات سے تیسرے روز کی بات ہے۔ بڑھیا دوپہر ڈھلے حویلی میں داخل ہوئی تو حسبِ توقع پاکیزہ خانم گھر میں تنہا تھی۔بڑھیا نے مُوڑھے پر بیٹھ کر پاکیزہ کو ساتھ بِٹھا لیا اور لگی دُنیاداری کے گُر سکھانے۔ وہ سَر جُھکائے سُنتی رہی۔ جب بات ختم ہوئی تو اُس کی شفّاف آنکھوں میں کئی سوال تھے۔

بڑھیا نے ایک رُقعہ اُس کے ہاتھوں میں تھما کر، لرزتی مُٹھی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ دیا اور پھر یہ کہتی ہوئی اوڑھنی سنبھالتی چل دی۔’’بِٹیا! زمانہ بدل گیا ہے۔ کسی ان جانے نامُراد کے ساتھ بندھ جانے سے بہتر ہے کسی جانے پہچانے کے آنگن میں ڈولی اُترے۔‘‘پاکیزہ بڑھیا کے جانے کے بعد لرزتے ہاتھوں میں پکڑے رقعے کو دیکھتی رہی۔بعدازاں، گھبرا کر سامنے دیوار کی اور دیکھا کہ کوئی جھانک تو نہیں رہا، کن اکھیوں سے حویلی کی طرف دیکھا، جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو، رقعہ پھاڑنے کا سوچا اور بالآخر اندر زنان خانے میں جا کر، کمرے کی چٹخنی چڑھا کے اور کھڑکی کا ایک پٹ کھول کرروشنی میں دیکھنے لگی۔ رقعہ ایک ریشمی ڈور میں بندھا تھا، جس کے جوڑ پرایک پھول چپکا کر اُسے بند کر دیا گیا تھا۔ اس نے بہت نفاست سے پھول علیحٰدہ کیا، تو ڈورکی گرہ کا ایک سِرا کھینچا اور وہ کُھلتی چلی گئی۔ موتیے کے عطر کی بھینی بھینی خوشبو اُس کے ہاتھوں میں اُتر آئی۔کانپتی انگلیوں سے رنگین کاغذ کی تہیں کھولیں اور کاغذ پر پروئے الفاظ پر نظریں کہیں رُکنے اور کہیں پھسلنے لگیں۔آغاز القاب و آداب سے کیا گیا تھا۔ احترام ہر لفظ سے مترشح تھا۔ ہر فقرے سے مرقّع و مسجّع زبان یوں دمک رہی تھی، جیسے موتی۔ زبان میں جہاں حدِ ادب کا پاس رکھا گیا تھا وہیں اپنائیت کی ایک زیریں لہر بھی موجزن تھی۔

الفاظ کیا تھے گویا آواز ہم کلام تھی۔ وہی آواز۔’’سلیم آج پہلی مرتبہ اللہ کے بعد کسی اور کے آگے جُھکا ہے۔‘‘ہر ورق سے وہی شرارت بَھری آنکھیں جھانک رہی تھیں۔اس روز جب پاکیزہ کا سلیم سے سامنا ہوا تھا، تو اس کے اندر کوئی جذبہ نہ جاگا تھا، بلکہ اسے سلیم کا انداز عامیانہ سا لگا تھا، البتہ یہاں پہلے ہی خط میں نستعلیق زبان اور شائستہ اندازِ تخاطب ایک بے فکرے، مَن چلے جوان کے اندر کی سنجیدہ اور باوقار شخصیت کا پتا دے رہے تھے۔جب وہ چہار ورق خط کے آخری حصّے پر پہنچی تو اپنائیت کی ایک رنگین مہکتی پھوار میں بھیگتی جارہی تھی اور سوچ رہی تھی ’’بابا حضور ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ اکثر پہلی نظر دھوکا دیتی ہے۔ شخصیت کے اوصاف تو کُھلتے کُھلتے ہی کُھلتے ہیں۔

سلیم نے اپنے خط میں کہیں شدتِ عشق کا اظہار یا ملاقات کی خواہش نہ کی تھی۔ پسِ الفاظ ایک موہوم پسندیدگی اور اس جذبے کے مخاطب تک پہنچ جانے کی خواہش کارفرما تھی یا پھر یہ دُعا تھی کہ اسے ایک قدردان کے طور پر جانا جائے۔ اس سے بڑھ کر اور کچھ نہ تھا۔ ابھی وہ انھی سوچوں میں غلطاں تھی کہ صدر دروازے پر کھٹکے کی آواز سُن کر چونک گئی۔جلدی سے خط تہہ کیا اورالماری کے زیورات کے خفیہ خانے میں چُھپا کر، مقفل کرکے دوپٹا سنبھالتی باہر کو لپکی۔

چند روز بعد جب بڑھیا بغل میں چاندی کا پان دان دبائے، سَر پر اُوڑھنی سنبھالے پاکیزہ خانم کی حویلی سے باہر نکلی اور بغلی گلی سے نکل کر مرکزی بازار میں مُڑی تو شبّن نے اُسے جالیا۔’’خالہ! کوئی بات بنی ہے؟‘‘’’نہیں بیٹا۔‘‘’’کوئی اُمید؟‘‘’’کہہ نہیں سکتی بیٹا۔ کوشش جاری ہے۔ اب تمھارے لیے یہ بھی نہ کروں گی کیا؟‘‘ بڑھیا مُسکرائی تو پان زدہ ادھ کھائے دانت جھانکنے لگے۔ وہ چلتے چلتے ایک چھجّے کے سائے میں دو گھڑی سانس لینے کورُکی۔ شبّن بھی وہیں کھڑا ہوگیا۔’’بیٹا ایک ترکیب ہے، جس سے بات بن سکتی ہے۔‘‘ وہ شبّن کے کان میں سرگوشی کرنے لگی۔چند روزبعد بڑھیا نے پاکیزہ کو دسواں رقعہ تھمایا اور پراندے دِکھاتے ہوئے کہا،’’بیٹا! آج کے خراب زمانے میں ایسا سُلجھا لڑکا ہم نے تو نہ دیکھا۔ ہاں تمہاری بات بھی ٹھیک تھی کہ بہ ظاہر شوخ اطوار ہے، مگر مَیں نے اب جانا کہ یہ تو ایک ملّمع ہے، جو اس نے اپنی ذات پر کر رکھا ہے۔ کبھی مجھ سے اوچھی بات نہ کی، بلکہ اتنے احترام سے بات کرتا ہے کہ کیا بتاؤں۔

دوست بھی ایسے سلجھے اور باوقار کہ وہ بات صادق آتی ہے کہ آدمی اپنے دوستوں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے بڑھیاکی نظروں کے سامنے وہ منظر گُھوم گیا، جب کسی بزِعم خود برجستہ جواب پر ہنستے ہنستے شبّن کی رال ٹپکنے لگی تھی ،اور اُس نے عادتاً بڑھیا کو آنکھ مار کر بے اختیار زانو پر زور سے دھپا مار دیا تھا۔بڑھیا نے یہ سوچ کر بُرا سا مُنہ بنایا، پھر ہونٹوں پر دوبارہ مُسکراہٹ طاری کرتے ہوئے بولی۔’’بِٹیا! اگر خالہ کہتی ہو تو یہ بھی جان جائو کہ مَیں کبھی تمہارا بُرا نہ چاہوں گی۔ اب تک اتنے رشتے ناتے خراب ہوتے دیکھ لیے ہیں کہ تم جیسی معصوم بچّی کا سوچ کر جی سہم جاتا ہے۔ کہیں کسی بدبخت کے ساتھ زندگی دوزخ نہ کرنی پڑ جائے۔اپنی بِٹیا کا مور پنکھ سا سراپا، صُبح سا نِکھرا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے، تو جی میں پیار اُمڈ آتاہے۔‘‘پاکیزہ نے گھنی پلکوں کو جھُکالیا اور پیر کے ناخن سے فرش کُریدنے لگی۔پائیں گلی سے برتن قلعی کرنے والے کی صدائیں آرہی تھیں۔ پاکیزہ نے نظریں اُٹھائیں، تو اس کی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے۔’’چلو بِٹیا! میری کوٹھری میں تمھارے آنے سے چار چاند لگ جائیں گے۔ تمھارے گھر کی فرد ہوں۔

میرے ساتھ جانے پر کسی کو اعتراض بھی نہ ہوگا۔ بس یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ منّت کا ختم ہے، سو ساتھ جا رہی ہو۔ سلیم میاں بھی وہیں ہوں گے۔ اُن کی شرافت کی ضامن مَیں خود ہوں۔‘‘ٹپ سے ایک قطرہ پاکیزہ کی کٹورا آنکھوں سے ٹپکا۔گلوگیر لہجے میں بولی۔’’خالہ! شادی سے پہلے مَیں کسی غیر مَرد سے نہیں مل سکتی۔‘‘’’اور اگر وہ ہونے والا شوہر ہو تو…؟‘‘بڑھیا نے پوچھا۔’’مگر شوہر ہے تو نہیں۔ اور اس کا بھی فیصلہ ابّا حضور کریں گے‘‘ پاکیزہ نے گویا بات ختم کردی۔اب تک سب کچھ بڑھیا کی توقع کے عین مطابق ہو رہا تھا۔ سو، وہ پیار میں ڈوبے لہجے میں بولی۔’’اری تم تو ویسے ہی پریشان ہوگئی ہو۔ وہ تو مَیں نے ایسے ہی مِلنے کا کہہ دیا۔اُس بےچارے کے دِل پر جو کچھ بیتتی ہے، وہ تو میرے سامنے بیان بھی نہیں کرسکتا۔ بس، چند الفاظ ہیں، جو کاغذ پر گھسیٹ دیتا ہے۔ جواب پر تو اس کا حق ہے ناں۔ تم بھی جواب میں چند لفظ لِکھ ڈالو۔‘‘’’جواب؟‘‘پاکیزہ چونک گئی۔’’اچھے لوگ جواب تو دیا کرتے ہیں۔ تم ہی نے تو بتایا تھا کہ بہت مہذّب زبان میں چٹھی لکھتے ہیں سلیم میاں۔ زبان کی مشق ہی سہی۔‘‘بڑھیا متوقع نظروں سے پاکیزہ کا چہرے ٹٹولنے لگی۔

دِن، وقتِ پیما سے گرتی ریت کے ذرّات کی طرح پھسلتے رہے۔وہ جاڑوں کے ڈھلتے سورج کی سہ پہر تھی،جب شبّن نے حویلی کے دالان میں دھوپ تاپتے سلیم میاں کے کان میں سرگوشی کی اور اچکن کی اندرونی جیب سے ایک کاغذ کی جھلک دکھائی۔ سلیم میاں کے حلق میں سوجی کے حلوے میں شامل ناریل کی گِری پھنستے پھنستے رہ گئی۔حلوہ جیسے تیسے ختم کیا اور دونوں دوست تیز قدموں سے چلتے حویلی کی چھت پر بنی منڈیر پر جا بیٹھے۔’’واہ سلیم میاں واہ۔‘‘ شبّن نے بے اختیار تالی بجائی۔’’سلیم میاں! کیا خُوب صُورت خیالات ہیں۔ الفاظ کے چنائو کا کیا سلیقہ ہے اور پھر ان کو بیان کرنے کا کیا مسحورکن انداز اپنایاگیا ہے۔ ہمارا تو مَن موہ لیا بھابی نے۔‘‘سلیم نے گویا کسی تنویمی عمل کے تحت بہت پیار اور احترام سے خط جیب میں رکھا اور جیب تھپک کر یقین کیا کہ وہ جیب ہی میں ہے۔پاکیزہ کے تو پہلے ہی خط نے سلیم کی کایا پلٹ دی۔آنے والے دِنوں میں خطوط کا تبادلہ محتاط رفتار میں جاری تو رہا، مگر اُن کا مزاج بدل گیا۔

جہاں ابتدا میں بات موسم، مزاج اور قلعے کی فصیل کے اندر ہونے والے واقعات تک محدود رہتی تھی، وہاں آہستہ آہستہ انسانی جذبات کی لطافتوں تک جا پہنچی۔ سلیم کی تحریر عمومی نوعیت کے انسانی جذبات سے بڑھ کر اپنے ذاتی جذبات تک آگئی۔ذاتی پسندیدگی کا اظہار جو پہلے خط میں مبہم انداز میں تھا، اب بے باکانہ اظہار پر اُتر آیا تھا۔’’اب مَیں تھک چکا ہوں۔ قافلے کو راہ میں کہیں تو پڑائو کرنا ہے۔ جس نخلستان کی تلاش تھی، وہ آن پہنچا ہے۔ یہاں پڑائو نہ کیا تو سفر بہت لمبا ہے۔ کیسے کٹے گا؟‘‘ سلیم نے ایک روز شبّن سے کہا۔’’اور پچھلے سب پڑائو۔‘‘شبّن نے سوال کیا۔’’وہ سب سراب تھے۔‘‘ سلیم نے لمبی آہ بَھری۔’’اِس میں دو قباحتیں ہیں۔‘‘ شبّن نے ٹھوڑی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔’’وہ کیا؟ ‘‘سلیم نے پوچھا۔’’ایک تو یہ کہ آپ اپنے ابّا حضور کو کیا بتائیں گے اور دوسرے، کِس طرح…؟‘‘’’اس کا حل مَیں نے سوچ رکھا ہے۔‘‘’’وہ کیا؟‘‘’’بڑی بی نچلی گلی والی چچی کے ہاں بھی کپڑا دیتی ہے۔ سو، ابھی سے پاکیزہ کے بارے میںان کے کان میں بات ڈلوا دی ہے۔ وہی ابّا سے بات کریں گی۔‘‘ایک ماہ گزر گیا، تو سلیم کے ہاں سے پیغام بھجوایا گیا۔ چند بیبیاں دُلہن کے ہاں ہاتھ مانگنے گئیں اور رمضان کے بعد کی تاریخ طے پاگئی۔دونوں حویلیوں میں جشن کا سماں تھا۔ اقارب میں شیرینی تقسیم کی گئی۔ دونوں جانب کے ملبوسات کی تیاری میں جہاں مقامی بزّاز اور درزی آگے آگے تھے، وہیں بڑھیا بھی بہت نمایاں تھی۔

وقت گزرتے پتا ہی نہ چلا اور شادی سَر پر آن پہنچی۔ امیر اعزا کے ہاں شادی کے مسجّع رقعے تیار کرکے تقسیم کروائے گئے۔ الائچی دانے، چاول دانے اور چھوٹی چھوٹی مصری کی ڈلیاں چاندی کی ڈبیوں میں اور غریب اقارب کے ہاں لال کاغذ میں ملفوف بھجوائی گئیں۔ مایوں سے پہلے میلاد کا اہتمام کیا گیا۔ نیاز دی گئی، جس میں بڑے بڑے مٹی کے کونڈوں میں عمدہ میوہ دار زردے پر بالائی جما کر چاندی کے ورق سجا دئیے گئے، جسے بیویوں نے بہت اہتمام سے نوش کیا کہ یہ خاص سہاگنوں کا کھاجا تھا۔سفید تِل کی کھلی، ہلدی اور خوشبو کے مسالے سے اُبٹن تیارکرکے اُس میں تیل ڈالا گیا اور مایوں کے دِن پاکیزہ کو مَلا گیا۔ شادی کے گیت گائے گئے۔ بعدازاں، اُسے دالان میں چوکی پر بٹھا کر اس کے ہاتھ دُعائیہ انداز میں گھونگھٹ سے باہر رکھے گئے اور ابّا حضور کو مردانے سے بلایا گیا، جنہوں نے حلوائی کے ہاں سے بنی پینڈیاں دلہن کے ہاتھ پر رکھیں اور یہ کہتے ہوئے ’’آج اللہ کے حُکم سے تمھارا فرض ادا کیا۔‘‘ اُن کی آواز بَھرا گئی۔شادی کے دِن پاکیزہ کُندن کی طرح دمک رہی تھی۔ اُس پرنظر نہ ٹھیرتی تھی۔حویلی میں پورا شہر اُمڈ آیا تھا۔

دادی امّاں نے دلہن کو دیکھ کردُعا دی اور واری صدقے ہونے لگیں۔ زنانے میں زرق برق ملبوسات سے سجی بیبیوں نے دیگر رسوم ادا کیں۔ ہر کوئی موم سی گُڑیا کو دیکھنے کی خواہش مند تھی، میراثنیں اور ڈومنیاں شادی کے گیت گانے لگیں۔اُدھر جب دُلہے کی شان دار برات اُتری، تو سلیم ایک اعلیٰ نسل کے سفید گھوڑے پر سوار سب سے آگے تھا۔سفید اطلسمی پاجاما، گلابی کم خَواب کی شیروانی، کمر میں پٹکہ، ہاتھ میں ریشمی رومال اور پائوں میں سلیم شاہی جوتی پہنے وہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ اُسے اندر بُلایا گیا۔اب دلہن کی پالکی ڈیوڑھی پر آ لگی۔پہلے ایک بکرا پالکی سے اُتارا گیا، اس کے بعد دلہن کے انگوٹھے دودھ سے دھلائے گئے۔ روپہلی ٹھپہ لگے سبز اطلسی لباس، ریشمی ململ کے باریک دوپٹے میں سُنہری چوڑیاں پہنے عطرِ سہاگ اور عرقِ گلاب میں بسی دمکتی پاکیزہ آسمان سے اُتری حور دِکھ رہی تھی۔طعام کا اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا،جس میں بریانی، قورما، شیرمال، کھیر کے خوانچے، خمیری روٹی وغیرہ کا وافر انتظام تھا۔شادی کی رسمیں پوری کرتے شام، رات میں ڈھل گئی۔ دالان کی کیاریوں میں لگے پودے بھیگنے لگے، ہوا ٹھٹھرنے لگی۔اُدھر شہر کی گلیوں میں تیل کے ہنڈے جل اُٹھے اور طاقوں میں چراغوں کو روشن کر دیا گیا۔حویلی میں گہما گہمی ذرا کو تھمی۔ اور وقت گزرتے گزرتے تھم کر ایک خواب گاہ کے اندر جھانکنے لگا۔

مسہری پر سُرخ ریشمی چادر پر سِمٹی سِمٹائی دلہن گٹھری بنی بیٹھی تھی۔ جھکی آنکھوں میں خوشی کے ہم راہ ایک تھکاوٹ آمیز اَ ن جانا سا احساس بھی تیر رہا تھا۔ بہت دیر سے گلابی کم خواب کی شیروانی پہنے دلہا بہت لگاوٹ سے دلہن کو تکے جا رہا تھا۔ وہ اِس انتظار میں تھا کہ دلہن خود اپنا چہرہ اُٹھائے، تو آنکھوں سے آنکھیں چار ہوں، پر موم کی دلہن اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی۔کمرے کے طاقوں پرچراغ روشن تھے، جن کی روشنی میں گوٹے کی لڑیاں جھلملا رہی تھیں۔ گلاب اور گیندے کے پھول لڑیوں کی صورت پروئے گئے تھے اور انہیں مسہری کے چاروں طرف کونوں پر لٹکا دیا گیا تھا۔بالآخر دلہے ہی نے گفتگو کی ابتدا کی۔’’پاکیزہ! آج ہمارے زندگی کے سفر کا آغاز ہے۔ اور مَیں تم سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتا۔ اپنی ذات تمھارے سامنے کھلی کتاب کی طرح رکھ دینا چاہتا ہوں۔ اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا، تاکہ ہم دونوں اس سفر کا آغاز ایک نئے جذبے سے کرسکیں۔‘‘سلیم کافی دیر تک اپنے بچپن کی شرارتوں، لڑکپن، جوانی کی نادانیوں اور زندگی کی حسرتوں کے بارے میں بتاتا رہا، یہاں تک کہ تھک کر خاموش ہو گیا۔اتنے میں باہر گلی سے کوئی جانور گزرا، تو اُس کے گلے سے بندھی گھنٹی کی آواز سے سلیم گویا خواب سے جاگ اُٹھا۔یک دم اُسے کچھ یاد سا آگیا۔’’اور ہاں! وہ جو تمام خطوط میں تمہیں لکھتا رہا، وہ مَیں نے نہیں لکھے تھے۔‘‘اس پر پہلی مرتبہ پاکیزہ نے اپنی سُرمہ بَھری آنکھیں اٹھائیں اور حیرت آمیز نظروں سے سلیم کی آنکھوں میں جھانکا۔اس کی آنکھوں میں سوال پڑھ کر سلیم بول اُٹھا۔’’وہ مَیں مشہور شاعر دوست آزردہؔ سے لکھوا کر کاغذ پر نقل کرلیتا تھا۔‘‘اتنا سُننا تھا کہ پاکیزہ کی آنکھیں چھلک اُٹھیں اور سُرمہ آنسوئوں میں مل کر ایک لکیر بناتا ہتھیلیوں پر ٹپکنے لگا۔

سلیم گھبرا گیا،’’مجھے پتا ہے کہ تم نے اُن خطوط کے پیچھے چُھپے انسان کو چاہا ہوگا، مگر مَیں بھی کم نہیں۔ اگر یقین نہ آئے، تو سینہ چیر کر دِل دکھا دوں۔‘‘سلیم بہت دیر اسے مناتا رہا۔معافیوں پر اُتر آیا، مگر اُس کی سسکیاں تھمنے میں نہ آرہی تھیں۔ آخرکاربے چین ہو کر بول اُٹھا۔’’پاکیزہ! اگرتمھارے آنسو نہ تھمے تو مَیں خود رونا شروع کر دوں گا۔‘‘اس پر پاکیزہ ہلکے سے مُسکرائی اور توقف کر کے باریک سی کپکپاتی آواز میں بولی۔’’آپ نے اتنا کچھ کہہ دیا۔ مَیں بھی ایک اعتراف کرنا چاہتی ہوں، تاکہ اپنے سینے پر دھرا بوجھ اُتار سکوں۔‘‘سلیم کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا،مگر وہ خاموش رہا۔پاکیزہ نے اٹکتی آواز میں بات جاری رکھی۔’’وہ جوابی خط بھی مَیں نے آپ کو نہیں لکھے۔‘‘یہ سُن کر سلیم کو گویا سانپ سونگھ گیا۔وہ سامنے لٹکی گلاب اور گیندے کی لڑیوں کو گھورتا رہ گیا۔دماغ ایک جھماکے سے ماضی میں چلا گیا۔’’تو تو…؟‘‘ اُس نے کچھ دیر بعد بہ مشکل پوچھا۔’’وہ…وہ مَیں اپنی ایک سہیلی سے لکھوا کر نقل کرلیتی تھی۔‘‘پاکیزہ کچھ دھیرے سے بولی۔

قریبی طاق پر چراغ ایک پروانے کو نگل گیا۔’’اگر ہو سکے تو…تو…مجھے معاف کر دیجیے گا۔‘‘پاکیزہ کی ااواز رندھی ہوئی تھی۔سلیم کی نظریں اُس کے چہرے پر جم کر رہ گئیں۔دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور پھر دونوں بےاختیار ہی کھلکھلا کے ہنس پڑے۔