سمندر سے پلاسٹک کی آلودگی ختم ہوجائے گی؟

July 31, 2018

سائنس دانوں نے حال ہی میں ایک ایسی قوی الجثہ ڈیوائس تیا رکی ہے جو سمندر میں پلاسٹک کے فضلے کو بڑے بڑے لقموں میں کھا کر 2040 تک سمندر آلودگی میں 90 فی صد کمی کر دے گی ۔ تحقیقی ماہرین کو اُمید ہے کہ بحرالکاہل میں سمندری سطح پر تیرنے والی 600 میٹرز طویل فلٹر ٹیوب اس علاقہ میں پائے جانے والے دنیا کے سب سے بڑے فضلے کی صفائی میں کامیاب رہے گی۔ بحر الکاہل کا کل رقبہ 179.7 ملین مربع کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین پر سب سے زیادہ گہرا مقام ماریانا ٹرینچ بحر الکاہل میں ہی واقع ہے، جس کی گہرائی 37 ہزار 797 فیٹ ہے۔جب کہ بحر الکاہل کی اوسط گہرائی14 ہزار فیٹ ہے ۔سسٹم تیار کرنے والی فرم ’’ اوشین کلین اپ ‘‘ کے مطابق یہ ڈیوائس سطح سمندر پر تیرتی رہے گی، مگر اس کے ساتھ سمند ر کی گہرائی میں 3 میٹر تک جانے والا ایک اسکرٹ منسلک ہو گا جو پلاسٹک کے فضلے کو کھینچ کر اسٹور میں پہنچا دے گا۔ اس سسٹم کو ہوا اور لہروں کی طاقت سے حاصل کی جانے والی برقی توانائی سے چلایا جائے گا، جس کا خودکار نظام پلا سٹک کے فضلے کو کھینچ کر اوپرلے جائے گا۔ سائنس دان اس سسٹم کا ڈیزائن اس وقت تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے جب اسے مختلف ٹیسٹس کے مراحل سے گزارنے کے دوران وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سسٹم کو لہروں کی قوت سے حا صل ہونے والی برقی قوت کے ذریعے زیادہ بہتر طور پر چلایا جا سکتا ہے۔ سسٹم تیار کرنے والی کمپنی کے سی ای او بوائن سلیٹ کے مطابق ہوا اور لہروں سےحاصل کی جا نے والی برقی قوت کے ذریعے یہ سسٹم دنیا کے سب سے بڑے پلاسٹک فضلے کوزیادہ قوت کے ذریعے صاف کر سکے گا۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ سال موسم گرما میں سسٹم کو دوبارہ ڈیزائن کے مراحل سے گزارنے اور تھرڈ پا رٹی معائنے کے بعد نظرثانی شدہ سسٹم کو دو ماہ قبل بحر ا لکا ہل میں دنیا کے سب سے بڑے سمندری فضلے والے علا قے میں پہنچایا گیا ہے جو کہ توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کے سمند ر و ں میں ہر منٹ کے بعد کوڑے کرکٹ کے ایک ٹرک کے برابر پلاسٹک کا فضلہ داخل ہو رہا ہے اور ہر سال یہ مقدار 80 لاکھ ٹن کے برابر بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 5 فی صد پلاسٹک کو موثر طریقے سے ری سائیکل کیا جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں 2015 ء کے دوران32کروڑ 20لاکھ ٹن پلاسٹک بنایا گیا اور 2050ء تک اس مقدار میں چار گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس سسٹم کے ذریعے سمندر سے نکالا گیا پلاسٹک فضلہ ہر چند ماہ کے بعد ایک بحری جہاز کے ذریعے ری سائیکلنگ کے لیے زمین پر لگے پلانٹس پر پہنچایا جائے گا۔ فرم کا کہنا ہے کہ سمندری فضلے کی صفائی کے لیے تیار کیا گیا یہ سسٹم کم ازکم 60 کلین اپ سسٹمز کے ایک فلیٹ پر مشتمل ہے جو کہ صرف پانچ برسوں میں بحر الکاہل میں پلاسٹک کے سب سے بڑے فضلے کی 50 فی صدصفائی مکمل کر لے گا۔ سسٹمز کے اس فلیٹ کو مکمل طور پر سمندری دائروں میں پہنچا کر متحرک کرنے کے بعد 2040 تک سمندر کا 90 فی صد فضلہ صاف ہو سکے گا۔ اس سسٹم کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ پلاسٹک کے حجم میں صرف چند ملی میٹر کے باریک ٹکڑوں سے لے کربڑے بڑے ملبوں تک کو سمندر سے نکال سکے گا۔ اس میں مچھلیاں پکڑنے کے بڑے جال بھی شامل ہیں جو کہ سیکڑوں میٹر وسیع ہوتے ہیں۔ اوشین کلین اپ کے مطابق اس میں ایک اسکرین بھی شامل ہے ،جس کے ذریعے سمندر پر تیرنے والے فضلے کے علاوہ سمندر کی سطح کے نیچے موجود فضلےپر بھی توجہ مرکوز کی جا سکے گی۔ سسٹم مکمل طور پر متحرک کرنے کے بعد جب یہ تیز ہوااور سمندری لہروں کی موجودگی میں بھی حرکت پذیری کر سکے گا تو اسے سخت اور بڑے حجم والے فضلے میں سوراخ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ فرم کے مطابق اس وقت تک 120میٹر والے سسٹمز کو سمندری سطح پر متحرک کیا گیا ہے، جس میں اسکرین کا وہی نظام نصب ہے جو کہ600 میٹر والے مکمل سسٹم میں نصب کیا جائے گا۔

حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کےمطابق بحر الکاہل کا ایک حصہ جو’’ گاربیج پیچ‘‘( کچرے کے ڈھیر) کے نام سے پہچانا جاتا ہے، وہاں پلاسٹک کے 1.8 ٹریلین ٹکڑ ے موجود ہیں جن کے وزن کا تخمینہ 80,000 میٹرک ٹن لگایا گیا ہے جوکہ 500 جمبو جیٹ طیاروں کے مساوی ہوتا ہے۔ اس علاقہ میں ایک مربع کلومیٹر کے حصے میں 10 کلوگرام پلاسٹک کا فضلہ بکھرا ہوا ہے جب کہ آلودگی سے متاثرہ رقبہ 1.6 ملین مربع کلو میٹرز ہے جو کہ فرانس کے رقبہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اعدادوشمار سابقہ تخمینوں کے مقابلے میں چار سے 16 گنا زیادہ ہیں۔ پلاسٹک فضلے کا 92 فی صد بڑی اشیا پر مشتمل ہے جب کہ 8 فی صدمائیکروپلاسٹک ہے ۔ مائیکرو پلاسٹک کا نام حالیہ برسوں میں اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنا جب یہ حقائق منظر عام پر آئے کہ کچر ے کو غیر مناسب طور پر ٹھکانے لگائے جانے کے نتیجے میں اس کی بڑی مقدار سمندر میں پہنچ جاتی ہے۔ ہر سال پلاسٹک کا ٹنوں کچرا ری سائیکل نہ ہونے کے باعث درست طریقہ سے ٹھکانے نہیں لگتا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سمندری ماحولیاتی نظام میں داخل ہو جاتا ہے۔ گوکہ سائنس دان اب تک اس بات کی وضاحت نہیں کر سکے کہ یہ سمندر میں کس طرح پہنچ جاتا ہے ۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگ مشین کے ہر چکر میں پلاسٹک کے 70,0000 فائبرزخارج ہو کر کرہ ٔہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پانی کے موجودہ سسٹمز ما ئیکر و پلاسٹک کی تمام آلودگی کو فلٹر کر کے باہر نکالنے میں ناکام رہتے ہیں، کیوں کہ اس کی آلودگی باریک ذرات کی شکل میں ہوتی ہے۔

2016 کی ایک رپورٹ میں بتا یا گیا تھا کہ ہنگامی بنیادوں پرری سائیکلنگ کے اقدامات نہیں کئے گئےتو دنیا کے سمندروں میں پلاسٹک کے فضلے کا وزن 2050 تک مچھلیوں سے بڑھ جائے گا۔ 2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پینے کا 80 فی صدپانی پلاسٹک سے آلودہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف مینی سوٹا کی تحقیق کے مطابق 93 فی صد پلاسٹک کی آلودگی میں امریکا سر فہرست ہے، جس کے بعد لبنان اور پھر بھارت کا نمبر آتا ہے ۔ فرانس ، جرمنی اور برطانیہ میں آلودگی کی شرح 72 فی صدپائی گئی ۔مجموعی طور پر دنیا بھر میں درجنوں ممالک سے حاصل کئے گئے پانی کے نمونوں میں سے 83 فی صد آلودہ پائے گئے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ مائیکروپلاسٹک اتنے مہین ہوتے ہیں کہ یہ انسانی اعضا میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔ ماہرین نے پانی کے جو نمونے حاصل کئے ان کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ بوتلوں میں آنے والا پانی بھی اتنا محفوظ نہیں ہوتا ،کیوں کہ ان میں بھی پلاسٹک کی آلودگی ہوتی ہے۔پوری دنیا کسی نہ کسی شکل میں براہ راست یا بالواسطہ پلاسٹک پی رہی ہے۔ سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا تھا کہ مائیکروپلاسٹک خطرناک کیمیکل جذب کر لیتے ہیں جو پھر جانوروں کی آنتوں سے خارج ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ پہلے ہی خبردار کر چکی ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی سے سمندری زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ علاوہ ازیں گاڑیوں کے ٹائروں کے باریک ذرات سمندر میں شامل ہو کر اسے آلودہ کر رہے ہیں اور سمندر کے درجہ ٔحرارت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سیکڑوں ٹن پلاسٹک کچرے کو قرار دیا ہے۔

گریٹر پیسیفک گاربیج پیچ( جی پی جی پی) امریکی ریاستوں ہوائی اور کیلی فورنیا کے درمیان نصف مسافت پر واقع ہے جو کہ سیارہ زمین پر کچرے کا سب سے بڑا زون ہے۔ روائتی طور پر مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش میں ابتدائی طور پر تحقیقی ماہرین نے ایک خاص قسم کے جال استعمال کئے ہیں جو کہ سائز میں ایک میٹر سے بھی کم تھے۔ تاہم اس طریقے سے آلودگی کو جانچنے میں غیر یقینی پیدا ہوئی، کیوں کہ وہاں ایک چھوٹا حصہ ایسا بھی موجود تھا، جس کی سطح آلودگی کے باعث ڈھکی ہوئی تھی۔ اس علاقہ کے بارے میں نتائج اوشین کلین اپ فائونڈیشن سے الحاق یافتہ انٹرنیشنل سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے 6 یونیورسٹیز اور ایک فضائی سینسر کمپنی کے اشتراک سے تین سال تک علاقہ کی پیمائش اور سروے کے ذریعے جاری کئے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق ان نتائج کے ذریعے ہمیں اہم اعدادوشمار حاصل ہوئے جن کے ذریعےہمیں اپنی کلین اپ ٹیکنالوجی کو ترقی دینے اور ٹیسٹ کرنے کا موقع ملا۔ انہی نتائج کی روشنی میں پلا سٹک کی آلودگی کے مسئلہ کو ہنگامی نوعیت کے اقدامات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ نتائج سے یہ اشارے بھی ملے تھے کہ پلاسٹک کے خطرناک باریک ٹکڑوں کا حجم مزید 10 گنا بڑھ سکتا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اس انتباہ سے نمٹنے کے لیےہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ فرم کا کہنا ہے کہ 120میٹر والی ڈیوائس کو بتدریج مکمل سسٹم میں تبدیل کر دیا جائے گا، جس میں نئی اسکرین نصب ہو گی۔ اوشین کلین اپ نے کہا ہے کہ کلین اپ یونٹ کی واپسی کے باوجود فضلے کو جمع کرنے کا عمل جاری رہے گا۔ تاہم سسٹم میں نصف کمی کر کے پائپ کے بقیہ 480 میٹرز کو 60 میٹرز کے دو سیکشنز سے جوڑ دیا جائے گا۔ بعدازاں ماہرین بحر الکاہل میں سسٹم 001 کے ٹرائلز کریں گے جو کہ سان فرانسسکو کے ساحلوں سے 220سے240 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہوں گے اور ممکنہ طور پر دو ماہ میں تکمیل کو پہنچیں گے۔ اوشین کلین اپ فی الوقت امریکامیں پلاسٹک کی آلودگی سے متاثرہ سمندر کو صاف کرنے پر کام کر رہی ہے جب کہ دنیا بھر میں دوسرے سمندروں کو بھی اسی بحران کا سامنا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کی تو بات ہی الگ ہے ، خود یورپی ممالک بھی سمندری آلودگی کو بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ یورپی ممالک ہر سال 25 لاکھ ٹن پلاسٹک کچرا پیدا کرتے ہیں ،تاہم اس میں سے صرف 30 فی صد ری سائیکل ہوتا ہے اور بیشترکچرا سمندر کی نذر کردیا جاتا ہے۔ توقع ہے کہ پاکستانی ماہرین بھی نئی تحقیق کی روشنی میںدرپیش چیلنج سے نمٹنے کے لیے جلد از جلد موثر اقدامات کریں گے۔