کیریئر کیلئے رہنمائی مستقبل میں کامیابی کیلئے کتنی ضروری ہے؟

August 05, 2018

بچپن میں میتھس کے ہر مشکل سوال کو دیکھ کرایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ حل نہیں ہوپائے گامگر امی کہتی تھیں کہ پہلے آسان سوال حل کرو پھر مشکل پر آنا، اس طرحتم پوری مشق کرلوگی۔ ان کی رہنمائی اور مدد سے پتہ ہی نہیں چلتا تھاکہ کیسےکلاس میں سب سے زیادہ نمبرآجاتےتھے۔

رہنمائی کسی بھی شکل میں ہو، انسان کے لیے کامیابی کی وہ کنجی ثابت ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ ایک ایک کرکے سارے بند تالے کھولتا چلا جاتا ہے۔ زندگی میں’کامیابی‘ کامیاب کیریئر سے مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں کیریئر پلاننگ کی اہمیت پرکافی زور دیا جارہا ہے۔ ماہرین، طلبہ وطالبات کو پرائمری کلاس کے بعد سے ہی کیریئر کے انتخاب کے بارے میں سوچنے پر زور دیتے ہیں۔ تاہم جب صورتحال یہ ہو کہ ایک طالب علم کے سامنے تعلیمی میدان میں بہت سی ترجیحات موجود ہوں اور اسےاعلیٰ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تویہ عین ممکن ہے کہ طالبعلم درست تعلیم یاپیشے کے انتخاب کے راستے میں شش وپنج کا شکار ہوجائے۔ ثانوی اسکول کی حد تک ہمارے طالب علم یہ نہیں جانتے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کی روشنی میں اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لیے کن مضامین یا پھر کس پیشے کا انتخاب کرنا چاہیے اور کس کا نہیں۔ بعض اوقات طلباءمضامین کے انتخاب میں اپنے والدین، رشتہ داروں یا پھر اپنے آئیڈیل کی پیروی کرتے ہیں۔

یہی وہ مرحلہ ہے جہاں’کیریئر گائیڈنس‘ بہت اہمیت اختیا رکرجاتی ہے۔ مثلاً اسکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کی رہنمائی کی جائے کہ وہ اپنی صلاحیتوں، خوبیوں اور کمزوریوں کے پیش نظر کن مضامین کا انتخاب کریں، جو مستقبل میں ان کے لیے بہترپیشے کا انتخاب اور کامیاب مستقبل کی ضمانت بن سکیں۔

معاشی تعاون کی یورپی تنظیم (او ای سی ڈی)، یورپی کمیشن اور عالمی بینک بین الاقوامی سطح پر کیریئر گائیڈنس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں، ’’کیریئر گائیڈنس کا مطلب ایسی خدمات اور سرگرمیاں ہیں، جن کا مقصد کسی بھی طالب علم کو، اس کی زندگی کے پورے عرصے میں تعلیم، تربیت، پیشے کے انتخاب اور پیشے کے انتظام میں معاونت فراہم کرنا ہو، خواہ فرد کی عمر کچھ بھی ہو۔ یہ خدمات اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، تربیتی اداروں، روزگار فراہم کرنے کے سرکاری محکموں، کام کی جگہوں، رضا کار یا سماجی شعبے اور نجی شعبے میں دستیاب ہو سکتی ہیں‘‘۔

اس پورے عمل کو ’کیریئر کاؤنسلنگ‘ بھی کہا جاتا ہے، جس میں سب سے اہم کردار کاؤنسلر کا ہوتا ہے جو طلبہ و طالبات کو مضامین اور پیشے کے انتخاب سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ کاؤنسلر یا تعلیمی رہنما طالب علم کے والدین، اساتذہ یا اسکول اور کالج میں موجود کیریئر کونسلر ہوسکتے ہیں۔

٭صرف پیشے کے انتخا ب ہی نہیں بلکہ انسان کی پوری زندگی میں والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ والدین ہی ہوتے ہیں جو بچوں کی قدم قدم پر رہنمائی کرتے ہوئے بہتر کو بہترین بناتے ہیں۔ مضامین اور پیشے کے انتخاب میں بھی والدین کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے، انھیں چاہیےکہ بچے پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے اس کی پسند و ناپسند، دلچسپی اور میلانات کو دیکھتے ہوئے کیریئر کا انتخاب کرنے دیں۔ معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھا گیا ایک سوال یا د آتاہے، کسی نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ سائنسدان کے بجائے کسان ہوتے تو کیا کرتے؟ اس پرڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جواب دیا کہ پھرمیں آلو بھی سائنسی طریقے سے اُگاتا۔ اب چونکہ زمانہ بدل رہاہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں پر اپنی خواہشات مسلط نہ کریں، جو ان کے مزاج اور برداشت سےباہر ہوں۔

٭کیریئر گائیڈ یا کیریئر کاؤنسلر کے طور پر دوسرا اہم کردار اساتذہ کا ہوتا ہے، جو طالب علم کی نفسیات سمجھتے ہوئے مضامین اور پیشے کے انتخاب میں ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔

٭تیسرا اور سب سےا ہم کردار کیریئر کاؤنسلر کا ہے جو پورے کیریئر کاؤنسلنگ کے عمل میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بہترین کاؤنسلر عام طور پرنفسیاتی ماہرین ہوتے ہیںمثلاً انھیں افراد کی نفسیات، اطلاقِ نفسیات یا کاؤنسلنگ کاکم ازکم گریجویٹ ڈپلومہ حاصل ہوتا ہے۔ کاؤنسلر ہر بچے کو اس کی انفرادی حیثیت میں دیکھتا ہے اور یہ لوگ اس حد تک تربیت یافتہ ہوتے ہیں کہ کسی کے مشاغل سے ہی اس کی شخصیت بارے میںجان جاتے ہیں۔یہ طلبہ کی نفسیات اور دلچسپی کو سمجھتے ہوئے انھیں انجینئرنگ، ڈاکٹریٹ اور دوسرے اہم پیشوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس مرحلے میں مشیرمضامین یا مشیر تعلیم کی اہمیت بڑھ جاتی ہےجوان کی شخصیت، اہداف، صلاحیتوں اور پسندو ناپسندکی روشنی میں مشورہ دیتا ہے کہ کون سے تعلیمی مضامین اور کون سے پیشے ان کے لیے زیادہ موزوں رہیں گے۔

کیریئر کاؤنسلر ایسے پروگرام مرتب کرتا ہے جس میں طلباء کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے ذوق، مہارتوں اور قابلیت کے مطابق ان کی عملی زندگی کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔

اگر ہم واقعی ایک بہتر اور پرامن پاکستان کی تعمیر چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہر طالب علم کےدل میں نہ صرف علم کی شمع فروزاں کرنی ہوگی بلکہ ان کے محفوظ مستقبل کے لیے اچھی تربیت اور رہنمائی کو بھی اوّل ترجیح دینا ہو گی اورایسی فضا قائم کرنا ہوگی جس میں ڈر اور خوف کی بجائےتحفظ اور تقدس کا احساس ہو۔