تحریکِ پاکستان اور ملی نغمے، ترانے، نظمیں

August 12, 2018

برصغیر کی تاریخ میں تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کا دورانیہ ایک ایسی ولولہ انگیز داستان سے عبارت ہے، جس کا ایک ایک لمحہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے، بالخصوص 1940ء سے 1947ء تک کا دور، جس میں ایک علیٰحدہ خطّے کے مطالبے نے شدت اختیار کی اور جس کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک پاکستان کی شکل میںمعرضِ وجود میںآیا۔ پاکستان، جو 1930ء میں محض ایک تصوّر اور خواب تھا۔ 1940ء میں مسلمانانِ ہند کا مطمحِ نظر بن گیا۔ اور1947ء میں حقیقت کا روپ دھار لیا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد، پاکستان دنیا میں سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے طور پر وجود میں آیا۔ اس دور میں پاکستان کے حصول کی جدوجہد کرنے والوں کو انگریزوں، ہندوئوں اور خود مسلمانوں کی کچھ چھوٹی ٹولیوں کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا تھا، لیکن تمام تر شدید مخالفت کے باوجود، پاکستان، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قائداعظم اور دوسرے لیگی زعماء کی بے لوث قیادت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران، مسلمانوں کے دل میں آزادی کی جوت جگانے میں اخبارات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

ان اخبارات نے نہ صرف اپنے اداریوں، خبروں اور مضامین سے لوگوں میںبے داری کی لہر پیدا کی بلکہ آزادی کی روح پھونکنے کے لیے ان ترانوں، نظموں اور گیتوں کو بھی شایع کیا، جو تحریکِ پاکستان کے دوران جلسے جلوسوں میں پڑھے گئے یا قائداعظم کے حضور نذرانہ ہائے عقیدت کے طور پر پیش کیے گئے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران بالخصوص 1940ء سے 1947ء تک منعقد ہونے والے جلسوں، جلوسوں میں اس طرح کی بے شمار نظمیں پڑھی گئیں، لیکن بدقسمتی سے ان کا مکمل ریکارڈ کہیںدستیاب ہے۔ تاہم، اس حوالے سے قومی ادارہ برائے تحفظِ دستاویزات، حکومت پاکستان (اسلام آباد) نے اگست 1986ء میں تحقیق اورچھان بین کے بعد کچھ ایسی نظموں، ترانوں اور نغموں پر مشتمل ایک کتابچہ ’’منتخبہ نظمیں‘‘ کے عنوان سے شایع کیا۔

قومی ادارہ برائے تحفظِ دستاویزات کے اس وقت کے ڈائریکٹر، عتیق ظفر شیخ مذکورہ کتابچے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتابچہ تحریکِ پاکستان اور قائداعظم سے متعلق ’’منتخبہ نظموں‘‘ پر مشتمل ہے۔ کتابچے میں ایسی نظموں اور ترانوں کا انتخاب کیا گیا ہے، جو جدوجہد آزادی کا ایک حصّہ ہیں۔ یہ نظمیں ترانے یا تو مسلم لیگ کے جلسوں میں پڑھے گئے یا پھر نذرانہ ہائے عقیدت کے طور پر قائداعظم محمد علی جناح کو مختلف مواقع پر پیش کیے گئے۔ اکثر نظمیں ’’قائداعظم پیپرز‘‘ سے منتخب کی گئی ہیں۔ یا پھر آزادی کی ان نایاب کتب سے استفادہ کیا گیا ہے، جو قومی ادارہ برائے تحفظِ دستاویزات نے محفوظ کر رکھی ہیں۔‘‘

فی الوقت، کتابچے کی تمام نظموں اور ترانوں کا احاطہ اور تذکرہ ممکن نہیں۔ 70صفحات پر مشتمل کتابچے میں کل 52نظمیں شامل ہیں اور لکھنے والوں میں میاں بشیر احمد سید مظہر گیلانی، مسّرت جہاں صدیقی، عبدالرحمٰن طارق، رعنا اکبر آبادی، قاضی جلال الدین،انجم، ماہر القادری، عزیز احمد عرف اجی میاں الٰہ آبادی، فاطمہ بیگم، حسن عبداللہ حسن، پرسی وکیل، خواجہ محمد امین چشتی، محمد فاروق، یوسف اثربدنیروی، انور حارث، سائل ابنٹوی، شریف احمد شریف، عبدالحفیظ سہروردی، توصیف اختر (آگرہ) شکیل، مولوی محمد امین، شفیق میرٹھی، رسا (بیگم نواب محمد اسماعیل خان)، حسن احمد نابینا، نصرت قریشی سہارن پوری، سخا شاہ جہان پوری، احمد خان احمد بنگلور، شفق مضطر گلاوٹھی، خنداں، اسلم، محمد ادریس، سراج احمد سراج، صوفی انصاری اور محمد عبدالباری، یہ وہ گم نام مجاہد ہیں، جنہوں نے تحریک پاکستان کے دوران اپنے قلم سے مسلمانوں کا خون گرمایا اور ان میں جوش و ولولہ پیدا کیا۔

ان کے علاوہ اور نہ جانے کتنے گم نام مجاہد ہوں گے جنہوں نے کسی صلے، ستائش و تمنّا کے بغیر، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم جدوجہد میں اپنا حصّہ ڈالا اور جس کے ثمر سے آج ہم سب فیض یاب ہورہے ہیں۔ کتابچے میں بعض نایاب نظمیں اور ترانے بھی شامل ہیں اور ایسی نظمیں بھی ہیں، جو تحریکِ پاکستان کے دوران زبان زدِ عام تھیں اور مسلمانوں کا جوش و ولولہ بڑھارہی تھیں۔ اس نادر و نایاب کتاب سے چند مشہور نظمیں پیشِ خدمت ہیں۔

کتابچے کی ابتدا میں بشیر احمد کی 5نظمیں شامل ہیں، جو جدوجہدِ پاکستان کے دوران بچّے بچّے کی زبان پر تھیں۔ ان میں سے ایک نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

ملّت کا پاسباں ہے، محمد علی جناح

ملّت ہے جسم، جاں ہے، محمد علی جناح

صد شُکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں

اور میرِ کارواں ہے، محمد علی جناح

بے دار مغز ناظمِ اسلامیانِ ہند

ہے کون؟ بے گماں ہے، محمد علی جناح

رکھتا ہے دل میں تاب و تواں نو کروڑ کی

کہنے کو ناتواں ہے، محمد علی جناح

رگ رگ میں اس کی ولولہ ہے حُبِ قوم کا

پیری میں بھی جواں ہے، محمد علی جناح

لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ جس کا تِیر

ایسی کڑی کماں ہے، محمد علی جناح

ملّت ہوئی ہے زندہ پھر اس کی پکار سے

تقدیر کی اذاں ہے، محمد علی جناح

عمرِ دراز پائے مسلماں کی ہے د ُ عا

ملّت کا ترجماں ہے، محمد علی جناح

…………………

میاں بشیر احمد نے اپنی یہ مشہورِ زمانہ نظم آل انڈیا مسلم لیگ کے 27ویں اجلاس، منعقدہ لاہور میں 22مارچ 1940ء کو پڑھی تھی۔انہوں نے ایک اورنظم، آل انڈیا مسلم لیگ کے 30ویں سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں 24اپریل 1943ء میں بھی پڑھی، جس کے چند بول یہ ہیں۔

حق ہے ہمارا پاکستان

حق پہ ہمارا ہے ایمان

آؤ کریں آج اعلان

چاہے اپنی جائے جان

لے کے رہیں گے پاکستان

لے کے رہیں گے پاکستان

ہم نہ کریں گے کوئی گِلہ

اپنے دل کو دیں گے جِلا

صبر کا اپنے ہے یہ صلہ

قائداعظم ہم کو ملا

ہم کو بہت کچھ کرنا ہے

کرنا ہے، دکھ بھرنا ہے

طوفانوں سے گزرنا ہے

جینا ہے اور مرنا ہے

…………………

اسی کتاب میں ایک نامعلوم شاعر کی بھی نظم درج ہے۔ معلوم نہیں پاکستان کا یہ دیوانہ کون تھا، لیکن نظم کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ جو بھی تھا، سرتاپا پاکستان کی محبت سے سرشار تھا۔ ان کی نظم کے چند اشعارملاحظہ فرمائیں۔

ہاتھ میں لے کر سبز نشان

بچّے بوڑھے اور جوان

اٹھے ہیں کرنے یہ اعلان

بٹ کے رہے گا ہندوستان

لے کے رہیں گے پاکستان

ہو کے رہیں گے ہم آزاد

شام و سحر ہے ہم کو یاد

قائداعظم کا ارشاد

اپنا آئین ہے قرآن

لے کے رہیں گے پاکستان

لیگ کے حق میں دیں گے ووٹ

اور الیکشن فنڈ میں نوٹ

دشمن خود کھائے گا چوٹ

ہوں گے اہلِ جہاں حیران

لے کے رہیں گے پاکستان

ہم قائداعظم کا کہنا

اسلام کے خادم کا کہنا

سب پورا کر دکھلائیں گے

ہم پاکستان بنائیں گے

ہم پاکستان بنائیں گے

اسلام کی شان بڑھائیں گے

…………………

تحریکِ پاکستان کے دوران میاں بشیر احمد کے بعد ایک خاتون مسّرت جہاں صدیقی نے سب سے زیادہ نظمیں کہیں۔ انہوں نے ’’نذرِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے کراچی میں 14صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ بھی مرتّب کیا، جس کی ابتدا میںحمدِ باری تعالیٰ اور آخری نظم ’’دعائے حصولِ پاکستان‘‘ ہے۔ اس نظم کے چند اشعار دیکھیے۔

کر مسلم تو وردِ زباں

ہم لے کے رہیں گے پاکستان

ہم لے کے رہیں گے پاکستان

ہم لے کے رہیں گے پاکستان

اے پیاری بہن اب بہرِ خدا

بے دار ہو، غفلت کر نہ ذرا

ہے قوم پہ تیری وقت کڑا

ہر سمت بپا ہے اِک طوفان

مرکز ہو ہمارا پاکستان

اور گھر ہو ہمارا پاکستان

ہو جان سے پیارا پاکستان

حاصل ہو خدارا پاکستان

حاصل ہو خدارا پاکستان

ہم لے کے رہیں گے پاکستان

اغیار بھی اب اس سوچ پر ہے

اب قومِ مسلماں اوج پر ہے

اسلام کا دریا موج پر ہے

ہے قائداعظم کشتی بان

ہے قائداعظم کشتی بان

ہم لے کے رہیں گے پاکستان

…………………

آغا سیّد مظہر گیلانی نے سرحد (موجودہ خیبرپختون خوا) میں درجِ ذیل نظم قائداعظم کی آمد کے موقعے پر پڑھی تھی۔ کتاب ’’قائداعظم اور سرحد‘‘ کے مصنّف عزیز جاوید کے بقول تحریکِ پاکستان کے دوران یہ نظم، اس قدر مقبول ہوئی کہ بچّے بچّے کی زبان پر تھی اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہ جب کسی جلوس میں کوئی پُرجوش نوجوان اس نظم کو پڑھتا، تو غیر مسلم دکانیں بند کرکے گھروں کو چلے جاتے تاکہ نوجوانوں کے جوش کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کی نظم کے چند اشعارملاحظہ فرمائیں:

اٹھ کہ پاکستان، تیرا حق، تری تقدیر ہے

اٹھ کہ پاکستان تِرے خواب کی تعبیر ہے

تو مسلماں ہے، جہانگیری تِرا کردار ہے

بازوؤں میں تیرے زورِ حیدرِ کرّار ہے

تیرے نعروں کی گرج سے گونج اٹھتا ہے جہاں

تھرتھراتا ہے تری ہیبت سے اکثر آسماں

درّہ خیبر ابھی تک لرزہ براندام ہے

ہر چٹاں پر تذکرہ اب بھی ترا ارقام ہے

کس کو جرأت ہے کہ روکے تجھ سے پاکستان کو

تو نے فتح کردیا سو بار ہندوستان کو

…………………

رعنا اکبر آبادی نے 2دسمبر 1939ء میں قائداعظم کو ایک نظم پیش کی، جس کے چند اشعار ہیں:

یہ اہلِ وطن آخر کیا اُٹھے ہیں سمجھانے

کس طرح کوئی سمجھے، کس طرح کوئی مانے

ہندو اور مسلماں میں ہم صلح کرادیں گے

کیسے یہ دماغوں میں آیا ہے خدا جانے

یہ لیگ کی خواہش ہو یا کانگریسی کوشش

بے کار یہ قصّے ہیں، بے سود یہ افسانے

منزل ہے جدا ان کی، جادہ ہے الگ ان کا

یہ دِیر کے بندے ہیں، کعبے کے وہ دیوانے

کس وہم میں ہیں لیڈر ، یہ بھی کہیں ممکن ہے

زنار کا ڈورا ہو، تسبیح کے ہوں دانے

…………………

درج ذیل نظم، رسا (بیگم نواب محمد اسماعیل خان) نے لاہور کے اجلاس میں پڑھی تھی، اس کے چند اشعارملاحظہ ہوں:

خدا کا شکر ہے اب اپنا مستقبل درخشاں ہے

چنائے لیگ سے دنیائے مسلم میں چراغاں ہے

ہمارے قائداعظم وہ دانائے سیاست ہیں

کہ جن کے سامنے گاندھی بھی اِک طفلِ دبستاں ہے

ہمارا دین خطرے میں ہو اور ہم محوِ رعنائی

ہمارے واسطے زیور نہیں، زنجیرِ زنداں ہے

رسا اِک آگ لگ جائے نہ کیوں سارے زمانے میں

کہ ہر مسلم خدا کے فضل سے شعلہ بداماں ہے

…………………

یہ نظم پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی اسپیشل پاکستان کانفرنس منعقدہ لاہور، مارچ 1941ء کے ضمن میں لکھی گئی تھی۔ اس نظم کے شاعر بھی گم نام ہیں۔

جزاک اللہ یہ جذبۂ غلامانِ محمدؐ کا

لبوں پر حق، دلوں میں پاس اعلانِ محمدؐ کا

وہ مسلم تنگ آئے ہیں، جو اہلِ جور کے ہاتھوں

کرے گا ان پر سایہ پھر سے دامانِ محمدؐ کا

…………………

یہ نظم ،عزیز محمد، عرف اجی میاں الٰہ آبادی نے قائداعظم کو خاص طور پر ان کی سال گرہ کے موقعے پر ارسال کی تھی۔اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

جناح نام ہے ترا، بڑا مقام ہے ترا

زمیں سے تابہ آسمان، شہرہ عام ہے ترا

نہ تخت ہے نہ تاج ہے، مگر دلوں پہ راج ہے

زباں پہ سب کی ذکرِ خیر صبح و شام ہے ترا

مبارک ہو خدا کرے تجھ کو بہارِ سال نو

زمانہ تِرے نام پر نکالے کوئی فالِ نو

بڑھائے اس طرح خدا یہ سال تری عمر کا

کہ جیسے عارضِ حسیں پہ رونما ہو فالِ نو

…………………

مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے حسن عبداللہ حسن نے ’’والا منزلت، قائداعظم محمد علی جناح‘‘ کے عنوان سے 50اشعار پرمبنی ایک طویل نظم 1945ء میں لکھی، جسے کتابچے کی شکل میں شایع کیا گیا۔اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اے جناحِ دیدہ ور تجھ پر خدا کی رحمتیں

قوم کی خاطر اٹھائیں تونے کتنی زحمتیں

تونے سمجھا خُوب انگریز اور ہندو کا مزاج

تجھ کو یہ احساس تھا، خطرے میں ہے مسلم کی لاج

تُو ہی اِک آگے بڑھا قرطاسِ نہرو کے خلاف

رکھ دیئے چودہ نکات آئینِ ہندو کے خلاف

دوست اور دشمن کی پیدا ہوگئی ہم کو تمیز

ملک سے بڑھ کر ہوئی آزادئ ملّت عزیز

یہ تری بے دار مغزی اور تدبّر کی ہے حد

ہوگئی بےکار اعدا کی ہر ایک جدوجہد

…………………

لاہور میں 20جولائی 1943ء کو جب قائداعظم پر حملہ ہوا، تو انہوںنے بڑی بہادری سے حملہ آور پر قابو پا لیا۔ اس موقعے پر ایک ہندو شاعر پرسی وکیل نے انہیں عقیدت کے طور پر جان بچنے کی مبارک بادان اشعار کی صورت دی۔

آپ ہی ہیں پیشوائے بے کساں

رہبرِ آزادئ ہندوستاں

کام یابی آپ کی دلشاد ہے

جان بچنے کی مبارک باد ہے

اے امیرِ ملک، میرِ حرّیت

کیجیے قبول نذرِ تہنیت

یہ دعا کرتا ہے آخر کو وکیل

آپ کو قائم رکھے رب جلیل

…………………

بابائے قوم، قائداعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان سے قبل بلوچستان کا دو مرتبہ دور ہ کیا۔پہلا 1943ء اور دوسرا اکتوبر 1945ء میں۔ اس وقت بلوچستان کے ہفتہ وار اخبار ’’الاسلام‘‘ نے آپ کے دورے کی بھرپور کوریج اور منظر کشی کی۔ ان ہی دنوں ’’قائداعظم سے خطاب‘‘ کے عنوان سے اخبار میں رکن فاروق کی ایک نظم شایع ہوئی۔ اس کے چند اشعارپیشِ خدمت ہیں:

ہمارے قائداعظم ہمارا پاسباں تو ہے

سوادِ ہند کے اسلام کا روحِ رواں تو ہے

جمال الدین افغانی نے جس بربط کو چھیڑا تھا

اسی سازِ کہن پر طرزِ نو سے نغمہ خواں تو ہے

ہو پاکستان کے کیوں رہبروں کو خطرئہ منزل

ہمارے کارواں کا، جب کہ میرِ کارواں تو ہے

جو تِرے عزم سے ٹکرائے گا مٹ جائے گا یک سر

جہاں میں فرقِ باطل کے لیے کوہِ گراں تو ہے

…………………

درج ذیل نظم، یوسف اثر بونیروی نے تحریکِ پاکستان کے دنوں میں اشتہار کی صورت میں شایع کرکے مفت تقسیم کی۔؎

ہے پیکرِ کمال محمد علی جناح

آپ اپنی ہے مثال محمد علی جناح

تو وہ ہے آسمانِ سیاست کا آفتاب

جس کا نہیں زوال محمد علی جناح

قائم رہے جہاں میں اسی عز و شان سے

اے رب ذوالجلال محمد علی جناح

…………………

تحریک ِپاکستان کے دوران مولانا ظفر علی خان کی درج ذیل نظم بھی بہت مقبول رہی۔

جینا کی صدا اور ہے، گاندھی کی کتھا اور

بطحا کی فضا اور ہے، وردھاکی ہوا اور

بیٹا ہے وہ تلوار کا، چرخے کی یہ اولاد

کیفیتِ گنگ اور ہے زم زم کا مزا اور

اس کا ہے یہ نقشہ کہ دل اور زباں ایک

اس کی یہ علامت کہ کہا اور، کیا اور

وہ ہند میں گرجا تو یہ آفاق میں گونجا

ٹیگور کا گیت اور ہے، اور نغمہ مرا اور