لیے گئے قرضے واپس کرنے کیلئے بیرونی قرضے لینے پڑینگے،شبلی فراز

August 11, 2018

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں میزبان طلعت حسین نے پروگرام میں اہم نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو کافر یاغدار بنانے کی اتھارٹی دید ی تو کسی کی گردن اور عزت محفوظ نہیں رہے گی جبکہ سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کا مسئلہ الگ الگ نوعیت میں شدید طورپر پھیلا ہوا ہے، اس کی جدید شکل الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے۔تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے کہا کہ پی ٹی آئی کے معیشت اور ملکی ترقی کیلئے اہداف واضح ہیں، پچھلی حکومت ملکی معیشت کے صحیح حالات نہیں بتارہی تھی، پردہ ہٹنے کے بعد پتا چلا کہ معیشت کو بہت سنگین چیلنجز درپیش ہیں، بے تحاشا قرضوں اور روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا ہے، دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حق میں نہیں ہے، آئی ایم ایف وہ ڈاکٹر ہے جسے اپنی دوائیاں بیچنی ہوتی ہیں اسے سائیڈ ایفیکٹس کی پرواہ نہیں ہوتی ہے، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک اور دوست ممالک ہماری مدد کیلئے آرہے ہیں ، تحریک انصاف دورِ حکومت میں معاشی استحکام لے کر آئے گی۔شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اگلے پانچ سال میں سسٹم میں بہت زیادہ بجلی آجائے گی، پچھلی حکومت نے بجلی کی ترسیل کے نظام کیلئے کچھ نہیں کیا، اس وقت گرشی قرضے 1.2 ٹریلین کے قریب پہنچ گئے ہیں، ن لیگ کی حکومت نے مزید قرضے لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں چھوڑا ہے، ماضی میں لیے گئے قرضے واپس کرنے کیلئے بیرونی قرضے لینے پڑیں گے، برائی قرضہ لینے میں نہیں بلکہ اسے بجٹ کی سپورٹ میں لگانے میں ہے، پچھلی حکومت نے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کیا، ہمارا پہلا کام ایف بی آر میں اصلاحات لانا ہے، پیسوں کے معاملہ میں لوگ عمران خان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں، تمام پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کا خسارہ ایک طرف اور گردشی قرضہ دوسری طرف ہے، اگر پبلک سیکٹر ادارے بیچنا پڑے تو انہیں ٹھیک کر کے بیچیں گے۔شبلی فراز نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پارلیمان میں بہت کم اکثریت ہے، تمام سیاسی قیادت کو مل کر ملک کو آگے لے کر جانا ہوگا ۔ ن لیگ کے رہنما محمد زبیر کی گفتگو ن لیگ کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ 2013ء میں جب ن لیگ کی حکومت آئی تو ملک معاشی بدحالی کا شکار تھا، ملک میں بم دھماکے ہورہے تھے اور توانائی کا بحران تھا، ن لیگ کی حکومت نے معیشت کی حالت بہتر ی کیلئے کامیاب اقدامات کیے، پچھلے پانچ سال میں ٹیکس ریونیو دوگنا ہوا، جی ڈی پی گروتھ 5.8فیصد تک پہنچ گئی ہے، ہم نے پی ٹی آئی کو اس سے بہت بہتر حالت میں معیشت دی جس میں ہمیں ملی تھی، پی ٹی آئی قرضوں کے علاوہ کوئی بات نہیں کررہی ہے، پیپلز پارٹی کے دور کا ساڑھے پانچ بلین ڈالر کا قرضہ واپس کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے قرض لیا۔محمد زبیر کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی صورتحال میں بیرونی قرضے لینے کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے، نئی حکومت کے آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پاکستانی معیشت کو درست سمت میں چلانے کیلئے ہوں گی، ہم سمجھتے تھے پی ٹی آئی کے پاس معاشی بحران کا حل ہوگا لیکن ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے، نقصان میں جانے والے کچھ اداروں کی تنظیم نو جبکہ کچھ کی فوری نجکاری کی ضرورت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے اور نومنتخب رکن قومی اسمبلی مخدوم زین حسین قریشی نے کہا کہ میں نے پہلی دفعہ الیکشن میں حصہ لیا ہے، جس حلقہ میں جیتا وہاں ہماری غوثیہ جماعت کا ایک بھی شخص نہیں تھا، میرے مدمقابل گیلانی صاحب کے یہاں اچھے خاصے مرید ہیں، دوران تعلیم ہی اندازہ تھا کہ سیاست میں آنا ہوگا لیکن اتنی جلدی آجاؤں گا یہ نہیں پتا تھا، والد کے وزیرخارجہ بننے کے بعد مجھے حلقے میں لوگوں کو دیکھنا پڑا، کارساز بم دھماکے میں ٹرک پر میں بھی تھا، مجھے آٹھ لاشوں کے نیچے سے نکالا گیا تھا لوگ حیران تھے یہ کیسے بچ گیا، اسی دن فیصلہ کیا کہ اسمبلی کی نشست کیلئے نہیں کسی مقصد کی سیاست کروں گا ، میں نوجوانوں کے ساتھ مل کر انرجی سیکٹر میں کام کرنا چاہوں گا۔ میزبان طلعت حسین نے پروگرام میں اہم نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اہم نکتہ کا تعلق آج سپریم کورٹ کے اندر منافرت اور نفرت پھیلانے والے اس کیس سے ہے جس کے اندر جیو نیوز کی انتظامیہ نے عامر لیاقت کو نوٹس دیا، چیف جسٹس آف پاکستان نے اس کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس کی اس میں آبزرویشنز بہت اہم ہیں، عدالت میں جب نفرت انگیز مواد کے کلپس چلوائے گئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے یہ باتیں کس سے متعلق کیں تو اس پر چونکہ جواب درست نہیں تھا اس لئے چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ عدالت میں جھوٹ بول رہے ہیں یہ ڈرامہ یہاں پر نہیں چلے گا، جھوٹ بولنے پر ہم آپ کو ابھی نوٹس جاری کرتے ہیں، پھر پوچھا گیا آپ کس چینل پر آتے ہیں پھر چینل کے نمائندگان کوبلایا گیا، چینل کے نمائندگان نے اس کے اوپر شرمندگی کا اظہار کیا، پھر چیف جسٹس نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا ایسے لوگ جن کو اپنی زبان پر کنٹرول نہیں ہے ان کو پارلیمان میں بیٹھنا چاہئے کیوں نہ ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا جائے، یہ بھی کہا گیا کہ پروگرام کی ریٹنگز بڑھانے کیلئے کس قسم کی زبان استعمال ہوتی ہے، وہ چینل جس کے اندر آپ بیٹھ کر کسی زمانے میں قسمیں کھایا کرتے تھے اس کے بارے میں آپ مہم چلاتے ہیں، یہاں وہ جیو نیوز کی بات کررہے تھے۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ یہاں بنیادی معاملہ نفرت انگیز باتوں کا ہے، یہ رویہ اور انداز بن گیا ہے کہ آپ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر کسی بھی وجہ سے کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی بول دیں، اسے کافر کہہ دیں، جذبہ حب الوطنی سے عاری قرار دیدیں، قابل گردن زنی قرار دیدیں، اس کے بارے میں جھوٹ اور مغلظات بکیں، فی الوقت تو اس کا یہی حل ہے کہ دیکھنے والے خود فیصلہ کرلیں کہ کس چیز کو دیکھنا ہے اور کس چیز کونہیں دیکھنا، جو زبان اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ ٹھٹھے کی بات نہیں ہے لوگوں کی زندگیاں اس سے خطرے میں پڑجاتی ہیں، اگر ہم نے ماس میڈیا کو کسی کی گردن زنی، اسلام سے خارج کرنے اور کسی پر گند اچھالنے کی اتھارٹی دیدی تو پھر عزت اور گردن کسی کی بھی محفوظ نہیں رہے گی، کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ماس میڈیا موجود ہوگا جو کام کرے گا تو اس کو حتمی طور پر ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کا مسئلہ الگ الگ نوعیت میں شدید طورپر پھیلا ہوا ہے، اس کی جدید شکل الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے، یہاں لوگ ایک دوسرے کو دلیل سے قائل کرنے کے بجائے دوسرے کے خلاف منفی جذبات ابھارتے ہیں اور اس کی حب الوطنی یا عقیدے پر سوال اٹھاتے ہیں، اس کیلئے کبھی سیاسی جماعتیں، کبھی کالعدم جماعتیں اور کبھی عبادت گاہیں استعمال ہوئی ہیں، عوام معاشرے کا حصہ ہوتے ہی اس لئے یہ سب سوشل میڈیاپر بھی نظر آتا ہے، اخبارات اور ٹیلیویژن چینلز پر پیمرا کی صورت ریگولیٹری باڈی ہے اس کے باوجود یہاں سے نفرت انگیز تقاریر ہونا تکلیف کا باعث ہے۔ جبران ناصر کا کہنا تھا کہ ہم نے ان اداروں کو بھی متنازع بنایا جو ریگولیٹری اتھارٹیز ہیں، ان اتھارٹیز کے جو عہدیدار آتے رہے اگر ان کی بھی متنازع شخصیت ہو اور ان سے جانبداری کا رویہ جوڑا جائے تو آپ کسی بھی چینل پر پابندی لگانے کیلئے جاتے ہیں کہ یہ نفرت انگیز تقاریر کررہے ہیں تو وہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تو ادارہ ہی متنازع ہے اور حکمراں جماعت کی طرفداری کررہا ہے اور خودمختارانہ طور پر اپنے فیصلے نہیں کررہا ، ہماری عدالتوں میں بھی پروسیڈنگز تھوڑی آہستہ چلتی ہیں کیونکہ وہاں کیس بہت زیادہ ہوتے ہیں، جس کیس کی آپ نے بات کی وہ ایک ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے، اگر ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جائے اور کوئی انسان ٹیلیویژن استعمال کر کے کسی دوسرے اینکر یا مخالف چینل یا کسی سیاسی شخصیت یا انسان پر الزام لگائے ہوں، ان پانچ مہینوں کے دوران وہ پروگرام لاکھوں کروڑو ں لوگوں نے دیکھا ہوگا، اگر ڈیڑھ سال بعد اس پر آرڈر آتا ہے توا س کی اطلاع کتنے لوگوں تک پہنچے گی، ہم نے جس انسان کو بتادیا کہ فلاں انسان غدار یا کافر تھا تو کیا ہم یہ لوگوں تک پہنچاسکیں گے کہ ڈیڑھ سال بعد فیصلہ ہوا کہ یہ سب جھوٹ تھا اور عدالت نے کہہ دیا یہ سب ایک سازش تھی، اس کے ذہن میں تو بغض رہ جائے گا۔