انسانی حقوق کی مثالی اور اولین دستاویز

August 18, 2018

صدائے تکبیر … پروفیسر مسعود اخترہزاروی
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی مکرمﷺ نے میدان عرفات کی وادی نمرہ میں بروز جمعۃالمبارک، 9 ذوالحج، 10 ہجری بمطابق 632 عیسوی کو اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر جو خطبہ ارشاد فرمایا اسے ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ کہا جا تا ہے۔ آپؐ کے سامنے کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار فرزندان اسلام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جو اس خطبہ کو پورے انہماک کے ساتھ سماعت کر رہا تھا۔ یہ خطبہ انسانی حقوق کی پاسداری کی عملی دستاویز ہے آج دنیا میں انسانی حقوق کے نام پر ہر طرف شور مچا ہوا ہے۔ اُن ہی حکومتوں اور افراد کو مہذب اور باشعور ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے جو حقوق انسانی کے پاسدار ہیں۔بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اقوام عالم کو ہوش آیا کہ ’’Human Rights‘‘ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے10 دسمبر 1948 کوقرار داد (111) 217 A کے ذریعے تیس دفعات پر مشتمل انسانی حقوق کا ایک مسودہ منظور ہوا تاکہ جملہ رکن ممالک اس پر عمل کر کے باہمی انسانی حقوق ادا کر سکیں۔ دیر سے ہی سہی لیکن یقینا بیسویں صدی کی ایک اچھی پیش رفت تھی۔ اگر ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 14 صدیاں پہلے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کئی درجہ بہتر انداز میں انسانی حقوق کا یہ چارٹر نوع انسانی کو عطا فرما دیا تھا۔ حدیث اور سیرت کی مختلف کتب میں اس تاریخی خطبہ کے اقتباسات موجود ہیں۔(1) خطبہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ سال اس جگہ تم مجھے نہ دیکھ سکو (گویا اپنے وصال مبارک کی پیشن گوئی فرما دی)۔ ایک صحابیؓ نے جب پوچھا کہ پھر ہم کیا کریں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کی ادا ئیگی کرتے رہنا اللہ تعالیٰ تمہیں جنت الفردوس عطا فرمائیں گے۔ (مسند امام احمد جلد 5 صفحہ نمبر 262) (2) زمانہ جاہلیت کی تمام رسموں کو میں نے اپنے پاؤں تلےرونددیا ہے۔ اب ناحق قتل و غارت نہیں ہوگی۔ بنو ھذیل قبیلے نے میرے خاندان کے ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بچے کو قتل کردیا تھا میں اس قتل کی معافی کا اعلان کرتا ہوں۔ اسی طرح سود حرام ہے زمانہ جاہلیت کا سود معاف کیا جاتا ہے۔ میرے چچا عباس بن عبد المطلب کا سود جن کے ذمے ہے میں اسے معاف کرتا ہوں۔ (مسلم شریف، کتاب الحج حدیث نمبر 1218) (3) غور سے سن لو! بے شک تم سب حضرت آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ کسی گورے کو کالے پر اور اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے وہی عزت والا ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔ (مسند امام احمد)(4) آپﷺ نے فرمایا کہ آج کا دن (جمعۃ المبارک، 9 ذوالحج)، یہ شہر (مکۃ المکرمہ) اور یہ مہینہ (ذوالحج) جس طرح محترم ہیں اسی طرح تمہاری جان، مال اور عزت و آبرو بھی ایک دوسرے کیلئے قابل احترام ہیں۔ (مسلم شریف حدیث نمبر1679کتاب القسامہ)(5) اے لوگو غور سے سن لو! کبھی کسی پر ظلم نہیں کرناکبھی کسی پر ظلم نہیں کرناکبھی کسی پر ظلم نہیں کرنا۔ جب تکباہمی رضا مندی نہ ہو اس وقت تک کسی کا مال استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ ورثاء میں سے ہر ایک کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے لہٰذااب کوئی شخص کسی وارث کیلئے وصیت نہیں کر سکتا۔ (6) غور سے سنو! ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں باہمی رشتہ اخوت میں منسلک ہیں۔ اسی طرح اپنے غلاموں کے حقوق ادا کرو جو تم خود کھاتے ہو وہی انہیں بھی کھلاؤ جو تم خود پہنتے ہو انہیں بھی پہناؤ اگر ان سے کوئی غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو اللہ کیلئے معاف کردیا کرو۔ اگر معافی کی گنجائش نہ ہو تو بجائے سزا دینے کے انہیں آزاد یا فروخت کردو۔ مزید برآں آپﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ازدواجی زندگی میں بھی باہمی حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں ان کی پاسداری کرتے رہنا۔ عورتوں سے حسن سلوک رکھنا اللہ کے نام پر بطور امانت یہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں اور تمہارا حق یہ ہے کہ تمہاری عورتیں کسی ایسے شخص کو گھر میں نہ داخل ہونے دیں جسے آپ نہیں چاہتے۔ (مسلم شریف کتاب الحج، باب 19 حدیث نمبر /1218تاریخ ابن ہشام جلد 4)(7) پڑوسیوں کے بارے میں فرمایا کہ ان حقوق کا خیال رکھو۔ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ پڑوسیوں کے متعلق آپؐ نے اس قدر تاکید فرمائی کہ ہمیں احساس ہونے لگا کہ پڑوسی کو جائیداد میں وارث بنا دیا جائے گا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ دین کے معاملات میں غلو اور انتہا پسندی سے بچنا کیونکہ تم سے پہلے کئی قومیں اسی غلو اور انتہا پسندی کی وجہ سے ہلاکت تک پہنچ گئیں۔ اگر کوئی ارتکابِ جرم کرے گا تو خود ہی اس کی سزا بھگتے گا۔ باپ کے بدلے بیٹے یا بیٹے کے بدلے باپ سے انتقام نہیں لیا جائے گا۔ (ابن ماجہ شریف، کتاب المناسک، حدیث نمبر 3029)(8)میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) اور رسول اللہ کی سنت ہے۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ قرآن مجید اور آپؐ کی آل بیت اطہار ہیں۔ خطبہ کے اختتامی حصہ میں آپﷺ نے فرمایا کہ یاد رکھو وہ وقت قریب ہے جب تم اپنے رب کریم سے ملو گے۔ وہاں تمہیں اپنے اعمال پر جوابدہ ہو نا ہو گا۔ میرے بعد ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ کافر یا گمراہ ہر گز نہ ہونا۔(9) غور سے سن لو! جو لوگ یہاں موجود ہیں میرا یہ پیغام ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جس تک یہ پیغام پہنچے وہ تم سے بھی زیادہ میرے پیغام کو سمجھے اور یاد رکھے۔ آخر میں آپؐ نے حاضرین سے استفسار فریا کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا تو جملہ نفوس قدسیہ نے یک زبان ہو کر جواب دیا کہ آپﷺ نے پیغام الہٰیہم تک پہنچانے کا حق ادا کر دیا ہے۔ آپؐ نے شہادت کی انگلی سے تین دفعہ آسمان کی طرف اشارہ کیا اور بارگاہ رب العزت میں عرض کی کہ اے اللہ تو بھی گواہ ہو جا۔ (مسلم شریف کتاب القسامہ) آج مسلمان معاشرے توڑ پھوڑ اور تباہی کا شکار ہیں۔ اخلاقی برائیاں عروج پر ہیں اور بد عنوانیوں کے بازار گرم ہیں۔ یہ سب کچھ خدا نخواستہ اس لئے نہیں کہ ہم مسلمان ہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے مسلمان ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ کی طرف سے عطا کردہ ان سنہرے اور حسین اصولوں کو چھوڑ دیا ہے جو ہماری میراث ہیں۔اللہ کریم توفیق عمل سے نوازے ( آمین)