میرا آنچل ہے، حیا کا پرچم . . .

September 02, 2018

تحریر: نرجس ملک

مہمانانِ گرامی: مہرو، ثناء، نور

عبایا / اسکارفس: قواریر فیشن / حریراسلامک ڈریسز

آرایش: سانتے دی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

وِکی پیڈیا، آزاد دائرۃ المعارف میں ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کو سرچ کیا جائے، تو جو تعریف سامنے آتی ہے، وہ اس طرح ہے، ’’حجاب، امّتِ مسلمہ کا وہ شعار، مسلم خواتین کا وہ فخر و امتیاز ہے، جو اسلامی معاشرے کو پاکیزگی عطا کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں 4ستمبر کو حجاب کا عالمی یوم پورے تُزک و احتشام کے ساتھ منانے کااہتمام ہو رہا ہے۔‘‘ حجاب، اگر امّتِ مسلمہ کا شعار، مسلم خواتین کا فخر و امتیاز ہے، تو اس کے لیے ایک ’’عالمی یوم‘‘ منانے کیضرورت کیوں پیش آئی۔ دراصل اس کی بڑی وجہ 2004ء میںفرانس میں مسلمان خواتین کے برقع اوڑھنے پر ہونے والے تنازعات، حجاب پر لگنے والی پابندیاں اور حجاب کے خلاف منظور ہونے والے قوانین بنے، جس کے بعد عالمی اسلامی تحریکوں کے ایک اجتماع میں امّتِ مسلمہ کے جیّد عالمِ دین، علّامہ یوسف القرضاوی نے ہر سال 4ستمبر کے دن کو ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ بعدازاں، اس تحریک میںمزید شدّت کا سب وہ واقعہ بن گیا کہ جس میں ایک مِصری نژاد، جرمن مسلمان خاتون، مروہ الشربینی کو محض اس ’’گناہ‘‘ کی پاداش میں کہ وہ اپنی عصمت و عِفّت کی حفاظت کے لیے حجاب اوڑھنے کا اہتمام کرتی تھیں، اُن کے پڑوس میں رہنے والے ایک بدبخت، سفّاک، جنونی شخص، ایگزل نے یکم جولائی 2009ء کو جرمنی کے شہر، ڈریزڈن میں، بَھری عدالت اور اُن کے شوہر علوی علی عُکاظ اور ڈھائی سالہ بیٹے، مصطفیٰ کے سامنے چاقو کے اٹھارہ شدید وار کرکے شہید کردیا۔ اصل میں مروہ الشربینی نے ایگزل کی مسلسل بدتمیزیوں، بے ہودگیوں سے تنگ آکر (وہ اکثر و بیش تر اُن کے حجاب کے حوالے سے طعنہ زنی کرتا، اُن پر جملے کَستا،، اُن کاحجاب کھینچ لیتا اور حد تو یہ ہے کہ نبی اخرالزّماں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بھی کرتا) عدالت سے رجوع کیا تھا اور اس انتہا پسند، وحشی نے عدالت ہی کے سامنے ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا کہ مشرق تو مشرق، خود مغرب بھی کانپ کے رہ گیا۔ اس واقعے کے بعد مینارئہ نور، مروہ الشربینی تو تاریخ میں ’’شہید الحجاب‘‘ کے لقب سے امَر ہوگئیں، مگر تب سے تاحال صرف عالمِ اسلام ہی میں نہیں، کُل عالم میں ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ پورے جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔

تب ہی تو آج ایک مسلمان عورت پورے اعتماد، یقین اور دھڑّلے سے ساری دنیا کے سامنے کھڑے ہوکر یہ سوال کرسکتی ہے کہ ’’آخر میرا یہ حجاب، یہ گز، ڈیڑھ گز کپڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا تمہاری آنکھوں اور دِلوں میں اس قدر کھٹکتا، چُبھتا کیوں ہے۔ اگر میں ’’مستور‘‘ رہنے کی خواہش مند، تمنّائی ہوں، تو کسی کو بھی کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ مجھے میرے اس بنیادی، فطری حق سے محروم کرے۔‘‘ نہ جانے کیوں پوری مغربی دنیا اور نام نہاد روشن خیالوں کو لگتا ہے کہ یہ برقع، عبایا، حجاب، چادر، اوڑھنی، دوپٹا، آنچل، جلباب.....عورت کی ستر پوشی کا کوئی بھی رنگ، انداز درحقیقت عورت پر کسی سختی، پابندی یا روک ٹوک ہی کے زُمرے میں آتا ہے، حالاں کہ ایسا بالکل بھی نہیںہے۔ آج کی عورت عقل و فہم بھی رکھتی ہے اور شعور و ادراک بھی۔ اگروہ خود کو حیا کے رنگوں میں رنگ کے ہی محفوظ تصّور کرتی ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی، منشا اور پورے دل سے ڈھکا چُھپا، ملفوف رہنا چاہتی ہے، تو پھر کوئی بھی اسے بےحجاب ہونے پر کیوں کر مجبور کرسکتا ہے۔ وہ زمانے لَد گئے، جب عورت کو قہر وجبر کے ذریعے، اُس کی مرضی کے خلاف کاموں پر بھی مجبور کرلیا جاتا تھا۔ آج کی عورت کا تو یہ اپنا فیصلہ ہے ؎ مَیں حُکمِ رب پہ نازاں ہوں، مجھے مسرور رہنے دو.....رَدا ہے یہ تحفّظ کی مجھے مستور رہنے دو.....مثالِ سیپ میں موتی، مجھے رَب قیمتی سمجھے.....مجھے اپنی قدر افزائی پہ مغرور رہنے دو.....زمانے کی نظرگہنا نہ دے پاکیزگی میری.....حیا کے لعل و گہر سے مجھے پُرنور رہنے دو.....زمانہ خلق ہے، مَیں ذریعۂ تخلیق ٹھہری ہوں.....مجھے اس منصبِ تخلیق پہ معمور رہنے دو.....نہیںمحتاج میری ذات مصنوعی سہاروں کی.....حیا کی پاس داری سے، مثالِ حور رہنے دو.....مِرے سر پر جو چادر ہے، مِرے ایماں کا سایہ.....اِسی سائے کی ٹھنڈک سے ہرغم دُور رہنے دو۔

یاد رہے، دینِ اسلام میں حیاداری، حیامندی کا حُکم صرف عورت ہی کے لیے نہیں، مرد کے لیے بھی کم و بیش ایسے ہی احکامات ہیں۔ اللہ رب العزت نے سورئہ نور اور سورۃ الاحزاب میں مومن عورتوں کے لیے خاص ہدایت ضرور فرمائی کہ ’’اے نبی ؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت دکھاتی نہ پِھریں، بجز اِس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔‘‘ (سورئہ نور) اور ’’اے محمّد ؐ ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے، تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ (سورۃ الحزاب) لیکن حضرت سلمان فارسیؓ کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارا رب مہربان اور حیا والا ہے۔ بندہ جب دُعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، تو اُسے شرم آتی ہے کہ وہ اُنہیں خالی لوٹادے۔‘‘ (ابودائود، ترمذی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم و حیا سے متعلق تو حضرت ابوسعید خذریؓ کا بیان ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری) دینِ اسلام میںشرم و حیا سے متعلق ایک نہیں، متعدد احکامات و ارشادات ہیں، جن میں عورت و مرد کی کوئی تخصیص نہیں۔ مثلاً سورئہ نور میں جہاں مومن عورتوں کے لیے حُکم ہے، وہیں مومن مَردوں کے لیے بھی حُکم ہے کہ ’’مسلمان مَردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کریں، اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔‘‘ پھر ارشادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ’’حیا ایمان کی ایک شاخ (یا ایمان کا پھل) ہے۔ اور ایمان جنّت میںلے جائے گا۔ جب کہ بے حیائی و بے شرمی بدکاری میںسے ہے اور بَدی آگ (دوزخ) میںلے جانے والی ہے۔‘‘ (مسنداحمد و ترمذی) سیّدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بے ہودگی جس چیز میںبھی ہوگی، اُسے عیب دار اور ناقص کردے گی۔ جب کہ حیا جس شئے میںبھی ہوگی، اُسے خُوب صُورت اور کامل بنادے گی۔‘‘ (ترمذی) فرمانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’شرم و حیا اور بُری باتوں سے خاموش رہنا ایمان کی شاخیں ہیں اور بے ہودہ فضول گفتگو کرنا نفاق کی شاخیں۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح) پھر فرمایا ’’حیا جزوِ ایمان ہے۔‘‘ ، ’’مومن بے حیا نہیںہوتا۔‘‘ اور ’’حیا کی صفت صرف بہتری لاتی ہے۔‘‘ (بخاری شریف) اور یہ کہ ’’جب تم حیا نہ کرو، تو جو جی چاہے، کرو۔‘‘ (صحیح مسلم) گویا دینِ اسلام میںشرم و حیا سے متعلق اس قدر تاکید و تلقین ہے کہ سمجھنے والوں کو بہ آسانی سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے مذہب کی تو بنیاد ہی ’’حیا‘‘ پر اٹھائی گئی ہے۔ پھر بھلا ہم کیوں مغربی بے حیائی کے بدلحاظ، بے لگام گھوڑے کی سواری کو مچلے جاتے ہیں۔ ہمارا تو شعار اور فخر و امتیاز ہی ’’حیا و حجاب‘‘ ہے،تو ہمیںتو اپنے اس اعزاز و امتیاز پر فخر ہونا چاہیے، نہ کہ کسی بھی قسم کی ندامت و شرمندگی۔

4ستمبر ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ اسی فخر و امتیاز پر ایک مُہرثبت کرنے کا دن ہے۔ گرچہ یہ دن خاص طور پر خواتین کے لیے مخصوص ہے، لیکن اگر مرد بھی اِس دن کی مناسبت سے اپنے دینی و مذہبی شعار کے اختیار کا عہد کرلیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ پورا معاشرہ ’’شرم و حیا‘‘ کی عملی تصویر نہ بن جائے۔ صرف اتنا سوچ لیں کہ جب ہمارا خالق، خالقِ کائنات اس قدر حیادار، وجہِ تخلیقِ کائناتﷺ شرم و حیا کا پیکر، تو پھر بھلا رب کریم کی بہترین تخلیق ’’اشرف المخلوقات‘‘ کیسے بے حجاب، بے حیا و بے توقیر ہوسکتی ہے۔ رب کریم کُل امّتِ مسلمہ اور خاص طور پر مومنات کو(کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے، ’’بہترین اولاد باپردہ بیٹیاں ہیں‘‘ بحار الانوار، جلد104 ) با حیا، باحجاب و باکردار ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری طرف سے ’’عالمی یومِ حجاب اسپیشل‘‘ بزم کا یہ خُوب صُورت سا نذرانہ ڈاکٹر عزیزہ انجم کے اس ’’حیا کے پرچم‘‘ کے ساتھ قبول فرمائیے ؎ سر پہ رکھا ہوا پیارا آنچل.....رحمتِ رب کا اشارہ آنچل.....رشکِ مہتاب و ستارا آنچل.....موجِ ہستی میںکنارا آنچل.....میری پہچان، علامت میری.....میری تہذیب، روایت میری.....میری توقیر، شجاعت میری.....میرا ایمان، عبادت میری.....میرے شانوں سے یہ لِپٹا آنچل......نو ر و نکہت سا مہکتا آنچل......میرا زیور، میرا گہنا آنچل.....بوئے گل، بادِ صبا سا آنچل.....میرا آنچل ہے حیا کا پرچم.....رسمِ تسلیم و رضا کا پرچم.....مہر و اُلفت کا، وفاکاپرچم.....صنفِ نازک کی بقا کا پرچم.....اونچا اُڑتا ہے، حیا کا پرچم.....ہے یہ مائوں کی دُعا کا پرچم.....بنتِ مریم کی انا کا پرچم.....رب کی تعریف و ثناء کا پرچم۔