پاکستانی ادب کے خدوخال

August 29, 2018

قیصر عالم

’’پاکستانی ادب‘‘ کی پہچان کیا ہے؟ کیا وہ ادب جو پاکستان کی مختلف تہذیبی اکائیاں لکھ رہی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہم اپنے ہزار سالہ تہذیبی ورثے سے دستبردار ہوجائیں؟عسکری صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’وہ پاکستانی ادیبوںسے سخت مایوس ہیں۔‘‘بہ قول ان کے دہلی کی بربادی پوری ایک تہذیب کی بربادی ہے اور ہمارے ادیب اس بربادی پر خاموش رہے۔ یہ بات انہوں نے 1948 میں لکھی۔ یعنی تقسیم کے صرف ایک سال بعد۔ وہ تقسیم کے بعد کا ایک واقعہ بھی بیان کرتے ہیں، جہاںدو افراد یہ بات کہہ رہے ہیں کہ تقسیم ہند سے مسلمانوںکو کیا ملا؟ برابر ہی میںکھڑی ہوئی ایک بڑھیانے کہا ’’چلو مسلمانوں کو ایک کچاگھر تو مل گیا‘‘ اس جملے کو عسکری صاحب نے شدت احساس کے تحت بہت مبالغہ آمیز طریقے سے پیش کیا اور لکھا کہ ابھی تک تو صرف ایک یہی جملہ آیا ہے اور لکھاکہ کیا یہ میر نہیںبول رہا؟ پاکستانی ادیبوںسے مایوسی، جہاںانہیںادب کی موت کے اعلان کی طرف لے گئی، وہاں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی ادیبوں کی یہی بے حسی رہی تو اس سے بہتر ہے کہ آدمی مہا بھارت ہی کو دوبارہ پڑھ لے، کیونکہ بہ قول عسکری صاحب، مہا بھارت کے ایک واقعے کو بہرحال ایک ’’قصہ‘‘ تو بنادیا گیا۔

یہاںمیں عسکری صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ انہوںنے تقسیم کے صرف ایک سال بعد ہی ادب کی موت کا اعلان کردیا۔ پاکستانی مصنفوں کو کم از کم پانچ سال تو دیتے کہ دہلی کی بربادی پر کچھ لکھ پاتے۔ شاعری میں تو کچھ شاعروںنے تقسیمِ ہند اور ہجرت کو ایک استعارہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ناصر کاظمی اس میںسرفہرست ہیں۔ بعد میں انتظارحسین نے ’’بستی‘‘ لکھ کر کچھ حق ادا کیا، لیکن اس سب کے باوجود مسئلہ ایک دو شاعروںاور نثر نگاروںکا نہیںہے۔ آج 2018 میں ہم نے کسی طور خود سے یہ سوال کرنا ہے کہ ’’پاکستانی ادب‘‘ کا اثاثہ کیا ہے اور اس کےخدوخال کیا ہیں؟

جیسا میں نے اوپر بیان کیا کہ ایک نظریاتی اور اسلامی ملک میں فنون لطیفہ کا کردارکیا ہے اور اس کی حدیں کہاںجاکر ختم ہوتی ہیں۔کیا ہم میر و غالب کی پیروی کرتے ہوئے شاعری کرتے رہیںیا اقبال کی طرح فارسی زبان میں مثنویاںلکھنے کی کوشش کریں۔ اسلام میں چونکہ مغربی تہذیب کے برعکس زندگی کا ’’الم انگیز تصور‘‘اور ’’عظیم ناکامی‘‘ کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لیے ہمارے ہاںڈرامہ نہیں لکھا جاسکتا۔ پھر اسلام میں وقت کو ابدیت کے معنوںمیں تسلیم کیا جاتاہے، جہاں وقت ترقی پذیر اور حرکی نہیں ہے۔ اس کی سند ایک حدیثِقدسی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنےبارے میں کہتے ہیں کہ ’’زمانے (عصر) کو برا مت کہو، زمانہ تو میں خود ہوں‘‘۔اب ظاہر ہے اللہ تعالیٰکی ذات میںکسی طرح کا ارتقا تصور نہیںکیا جاسکتا، اس لیے ہمارے ہاںرقص اور تھیٹر کی کوئی گنجائش نہیںہے۔موسیقی، سماع یا مصوری پر خاصی بحثہوچکی ہے ، اب یہ تقریباً طے ہے کہ سماع بغیر مزامیر کے جائز ہے، ورنہ حرام ہے۔ اس صورتِ حال میں راگ، ٹھمری وغیرہ کی بھی گنجائش نظر نہیں آتی، البتہ قرآنی آیات کی خطاطی آپ کو پوری مسلم تہذیبوں میں فنِ تعمیر کے ساتھ جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک نظریاتی ملک میں کیا اسی مخصوصنظریے کے تحت ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بالشویک انقلاب کے بعد روس میںحکومت کی تمام تر کوششوںکے باوجود اشتراکی فلسفہ یا نظریے کے تحت ادب تخلیق نہیںہوسکا۔ زیادہ تر ادیبوں نے جلاوطنی اختیار کی۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی اساس ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر رکھی گئی جو الوہی تھا یعنی مذہبی۔ اب ادب ایک انسانی سرگرمی ہے۔ کیا قرآن و حدیث پر مبنی کسی ریاست میں انسانی سرگرمی کی بنیاد پر ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ مغرب نے تو 1610 میںبائبل کو ایک ’’ادبی شاہکار‘‘ قرار دےکر مذہبی ذہن اور انسانی ذہن کا فرق مٹادیا۔ لیکن اس کا ہولناک نتیجہ یہ نکلا کہ 19 ویںصدی تک مغرب سے مذہب کا جنازہ ہی اٹھ گیا اور مغرب نےادب کو اعلیٰترین انسانی سرگرمی قرار دے دیا۔ ایک نظریاتی ملک ہونے کی وجہ سے ہم ایسا نہیںکرسکتے۔تو پھر کیا کریں؟ کیا خالصجمالیات کا دامن تھام لیں اور اقرار کریںکہ ہم ہیںتو الحمدللہ مسلمان، لیکن دیگر انسانوںکی طرحہمارے بھی کچھ جمالیاتی تقاضے ہیں۔ہم ان جمالیاتی تقاضوں کو مذہب کے متوازی معاشرےمیں فروغدے سکتے ہیں اور اس طرحاپنی نظریاتی اساس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیںکریں گے۔ غزل، نظم، مصوری، موسیقی وغیرہ ہمارے وجود کے جمالیاتی خلا کو پُر کرتے ہیں اور مذہب ہمارےنفس کو گمراہ ہونے سے بچاسکتا ہے! نفس کے حوالے سے یہ بات محلِ نظر رہے کہ اسلام میں وجود کے بجائے، نفس کی تین اقسام گنوائی گئی ہیں یعنی نفس امارہ، نفسِ لوامہ اور نفس مطمئنہ، یہی وجہ ہے کہ صوفیا کے تقریباً تمام سلاسل نفس کی تربیت ہی پر زور دیتے ہیں۔ وجود کی بحث اسلامی مابعد الطبیعات کا موضوع ہے، لیکن جمالیات کا قصہ بھی عجیب ہے۔ فلسفۂ زیست کے بانی کیر کے گارد نے اس سلسلے میں بڑے کام کی بات کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی زندگی میں تین ادوار آتے ہیں۔ پہلا جمالیاتی دوسرا اخلاقی اور تیسرا مذہبی بقول کیرکے گارد ایک دور میں کئے گئے فیصلے، دوسرے دور میں فیصلہ کن نہیںہوتے۔ وہ قصہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ گیرکے گارد نے کوپن ہیگن کی مشہور ماڈل گرل ریجنا اولسن سے جب منگنی کی تھی تو اُس وقت وہ جمالیاتی دور سے گزررہا تھا، لیکن جب اُس نے محسوس کیا کہ اب وہ اخلاقی دور میں داخل ہوچکا ہے تو اُس نے فوراً ہی یہ منگنی توڑدی۔

قصہ مختصر، کیا ہم برصغیر میں ابھرنے والی تہذیبی اکائی کو اردو زبان کے ذریعے پاکستان میں منتقل کرپائے ہیں اور کیا ہم اس تہذیبی ورثے کو علاقائی تہذیبی ورثے میںمنتقل کرپائے ہیں؟ اگر کرپائے ہیںتو پاکستانی ادب کی اصطلاحٹھیک ہے، اگر ہم ہزار سالہ تہذیبی ورثے سے کٹکر شاعری اور نثر لکھ رہے ہیںتو ہم بھی اردو میں ایک اور علاقائی ادبی ورثہ تخلیق کررہے ہیں۔ پاکستانی ادب کے خدوخال کیا ہیں، یہ میںیقین کے ساتھ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ ہم اپنے ہزار سالہ تہذیبی اکائی اور اس کے ورثے کو پاکستان کی علاقائی تہذیبی ورثے میں نہ تو منتقل کرپائے ہیںاور نہ اردو زبان میں 1947 کے بعد مجھے کوئی ایسے شواہد ملتے ہیں، جوپاکستانی ادب کو تاریخی اور تہذیبی سطح پر برصغیر کے ہزار سالہ تہذیبی ورثےسے جوڑے رکھتے ہیں۔

یہ وہ مسئلہ ہے،جس نے میری روحمیں اضطراب پیدا کررکھا ہے اور اس اضطراب کے بطن سے وہ سوالات جنم لیتے ہیں، جنہیںمیں نے اس مضمون میں بیان کرنےکی کوشش کی ہے۔جس مسئلے نے 48 میں عسکری صاحب کے ذہن میں ایک تلاطم پیدا کیا تھا،وہ آج 71 سال بعد اپنی تپش سے میری روح کو جھلسائے دے رہا ہے اور قریب ہے کہ میری اور میرے بعد آنے والی نسل کی تہذیبی شخصیت پارہ پارہ ہوجائے، ہمیںمل جل کر اس مسئلے کو سلجھانے کا جتن کرنا چاہیے۔