سونا قرض پر لے کر ادا کرنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے ؟

September 07, 2018

تفہیم المسائل

سوال: مجھے رقم کی سخت ضرورت تھی، میں نے اپنے عزیز سے بات کی، اس نے اپنا سونا مجھے دیا، میں نے اسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرلی، اب میں یہ قرض لوٹانا چاہتا ہوں، معلوم یہ کرنا ہے واپسی کی صورت کیا ہوگی ؟ ،جتنا سونا لیا، اسی کی مقدار میں سونا واپس دیا جائےگا ؟یابیچتے وقت جتنے کا فروخت ہوا، وہ رقم دی جائے گی؟ (انس رضا ،کراچی )

جواب:قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی ہے ،اُس کی مثل (اس جیسی)اداکی جائے ۔قرض کی واپسی کے وقت قرض کے طورپر لی ہوئی چیز کی مثل دینی ہوگی ،نہ اُس سے بہتر اور نہ کمتر ،البتہ بہتر اداکرنے کی صورت میں پہلے سے طے نہیں کیاتھا تو جائز ہے، ورنہ نہیں ۔علامہ کمال الدین المعروف بابن ہمام لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ قرضوں کی ادائیگی ان کی مثل کے ساتھ ہوتی ہے ،پس مدیون(مقروض) پر واجب ہے کہ وہ دائن ( قرض خواہ) سے لیے ہوئے قرض کی مثل اسےلوٹائے ،(فتح القدیر ،جلد8،ص:420)‘‘۔لہٰذااگر سونا قرض لیا جائے تو جس مقدار میں قرض لیا گیا اتنی ہی مقدار واپس کرنا از روئے شریعت لازم ہے، اس میں سونے کی قیمت کے اتار چڑھاؤ کا کوئی اعتبار نہیں، سونے کی مقدار کا اعتبار ہوگا۔تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے:ترجمہ:’’ یہ ایک مخصوص عقد کا نام ہے ،خواہ قرض کے نام سے ہو یا اس کے ہم معنیٰ کسی نام سے ہو ،یہ ایسے مال پر وارد ہوتاہے جو بمنزلہ جنس کے دوسرے کو مثلی مال سپرد کرنے پر ہوتاہے ، اس سے قیمت والی چیز خارج ہوگئی ۔پس دراہم ودنانیر کا قرض کے طورپر لینا صحیح ہے اور اسی طرح ہروہ چیز جو ناپ تول یا گنتی والی ہو،(جلد15، ص: 197،دمشق)‘‘۔

واضح رہے کہ اُس دور میں درہم چاندی کا ہوتاتھا اور دینار سونے کا اور اس کا ایک مخصوص وزن ہوتاتھا ۔علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اگر کسی نے دوسرے شخص سے گندم قرض لی ،تو اس کا نرخ بدل جانے پر بھی اتنی ہی(وزن کی مقدار)دینا ہوگی اور قرض خواہ کو اس کے قبول کرنے پر مجبور کیاجائے گا ، ’’مختار الفتاویٰ ‘‘ میں اسی طرح ہے ۔اور سونے اور چاندی کا وزن کے ساتھ ادھار لین دین جائز ہے، گن کر جائز نہیں ،’’تاتارخانیہ ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد3،ص:202)‘‘۔اس میں یہ شرط ہے کہ عقد کے وقت بائع ثمن پر یامشتری مبیع پر قبضہ کرلے۔