گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ

September 09, 2018

صوبہ سندھ میں سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کے 52گھوسٹ اسکولوں کا حیرتناک انکشاف ہوا ہے ایک طرف ان فرضی اسکولوں پر کروڑوں روپے کا بجٹ جھونکا جار ہا ہے اور دوسری طرف جن بچوں کے نام پر یہ اسکول قائم کئے گئے تھے وہ تعلیم سے محروم ہیں یہ رجحان دوسرے صوبوں میں بھی پایا جاتا ہے، گزشتہ دہائی سے اب تک گھوسٹ اسکولوں کے بارے میں کئی رپورٹیں منظر عام آچکی ہیں لیکن اصلاح احوال کے لئے کوئی قدم نہ اٹھانا بہت بڑا قومی المیہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کے جن52اسکولوں کا انکشاف ہوا ہے ان کیلئے پانچ کروڑ روپے کا بجٹ بھی جاری ہو چکا ہے۔ سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن سرکاری اور نجی پارٹنر شپ کے تحت چلنے والا ایک ادارہ ہے جو ان غریب علاقوں میں نجی اسکولوں کو فنڈز فراہم کرتا ہے جہاں سرکاری اسکول نہیں ہوتے۔ اگرچہ متعلقہ حکام اس امر کی نفی کر رہے ہیں تاہم اصل صورتحال منظر عام پر لا کر آئندہ کے لئے موثرلائحہ عمل طے کرنا ناگزیر ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق سندھ میں48ہزار 677سرکاری اسکول ایسے ہیں جن میں سے12ہزار600بند پڑے ہیں لیکن ان کے دو ہزار اساتذہ حکومت سے تنخواہیں لے رہے ہیں پنجاب میں 58ہزار سرکاری اسکولوں میں سے266تعلیم کی بجائے دوسرے مقاصد کے لئے استعمال میں لائے جا رہے ہیں اور ایسے بہت سے اسکولوں کی عمارتوں میں وڈیروں کے مویشی باندھے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں قائم 12388میں سے 36گھوسٹ اسکول پائے گئے اور خیبر پختونخوا میں 28ہزار 510میں سے تین ہزار اسکول 2001کے بعد سے دہشت گردی یا قدرتی آفات کے باعث تباہ یا بند ہوئے۔ کل بجٹ کے محض دو فیصد پر چلنے والا تعلیمی شعبہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اور اس دو فیصد کا ایک حصہ گھوسٹ اسکولوں جیسی بدعنوانی کی نذر ہو جانے کا یہ منطقی نتیجہ ہے کہ ملک کے اڑھائی کروڑ بچے آج اسکول جانے سے محروم ہیں، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے حکام کو بلاتاخیر اس بے قاعدگی کا نوٹس لے کر ضروری کارروائی کرنی چاہئے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998