ادھوری ملاقاتیں

September 11, 2018

چند برس پہلے جنرل عامر ریاض نے ریاست پاکستان کے لئے ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ تحریر کی۔ جنرل عامر ریاض کاشمار پاک فوج کے انتہائی پڑھے لکھے اور سمجھدار جرنیلوں میں ہوتا ہے۔ جنرل عامرریاض جنگی حکمت ِ عملیوں پردسترس رکھتے ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بچپن ہی سے دشمن کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان کا گائوں نارنگ منڈی کے پاس ہے اور یہاں سے پاک بھارت سرحد بہت قریب ہے۔ نارووال اور لاہور کے اس درمیانی علاقے میںدریائے راوی کہیں پاکستان میں ملتا ہے توکہیں بھارت میں چلا جاتا ہے اور بھارت میں جا کر پھر پاکستان میں پلٹ آتا ہے۔ سو جب بھی پاک بھارت سرحدی جھڑپیں ہوتی ہیں تو اس علاقے کے لوگ سب سے پہلے نشانہ بنتے ہیں۔ مجھے یہ سب باتیں اس لئے یاد آرہی ہیں کہ 6ستمبر کو وزیراعظم عمران خان کی تقریر ’’ڈیپ اسٹیٹ تھیوری‘‘ کے مطابق تھی۔ 6ستمبر پاکستان کایوم دفاع ہے، ہر سال اس سلسلے میں جی ایچ کیو میں تقریب سجائی جاتی ہے۔ تقریب میں جنگی کارناموں کویاد کیا جاتا ہے۔ اپنے شہداکو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ خوشی کی بات یہ کہ اس مرتبہ پاکستانی قوم اور فوج نے مل کر یوم دفاع منایا۔ 6ستمبر کی شام ابتدا سے لے کر آخر تک تمام فوجی افسران بڑے تپاک سے ملے۔ میں آئی ایس پی آر کا شکرگزار ہوںکہ انہوں نے مجھ ناچیز کو خصوصی اہمیت دی۔ اس مرتبہ ماحول تھوڑا مختلف تھا کیونکہ تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو مہمان خصوصی بنایا گیا تھا۔ یہاں پوری کارروائی تحریر نہیں کررہا بس آپ کو اتنا بتا دیتاہوں کہ شہبازشریف، خواجہ آصف، رانا تنویر حسین اور احسن اقبال نے ’’بڑے آرام‘‘ کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سنی۔ یہ تمام ہستیاں سامعین میںشامل تھیں۔ تقریب میں بلاول بھٹوزرداری، راجہ پرویز اشرف، سینیٹر شیر ی رحمٰن، نوید قمر، شازیہ مری اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے علاوہ کئی اور سیاستدان بھی موجود تھے۔ چند وفاقی وزرا بھی تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کووہاں موجود لوگوںنے بہت سراہا۔ ماحول بتارہا تھا کہ عمران خان فوجی افسران اور ان کے خاندانوں میں بہت مقبول ہیں۔ تقریب کے اختتام پر پتا چلا کہ شہدا کی فیملیوں میں بلاول بھٹو زرداری بھی بہت مقبول ہیں۔ لوگ بہت دیر تک پیپلزپارٹی کے چیئرمین کے ساتھ تصاویر بنواتے رہے۔ یہاں سب سے زیادہ غیرمقبول شہباز شریف دکھائی دیئے۔

6 ستمبر کی شام وزیر اعظم عمران خان نے بالکل درست باتیں کیں۔ انہوں نے ٹھیک کہا کہ ہم سب کو مل کر پاکستان کو آگے لے جانا ہے۔ پاکستان پر اس وقت بہت اچھا وقت ہے کہ ملک کی سول قیادت، فوجی قیادت اور عدالتی قیادت صرف اورصرف پاکستان کا سوچ رہی ہے۔ یہی ڈیپ اسٹیٹ تھیوری ہے۔ پاکستانی میڈیا کو بھی اس پر آنا پڑے گا جواس پر نہیں آئے گا، قوم اسے مسترد کردے گی۔ پاکستان کے شاعروں اور لکھاریوں کو بھی یہی تھیوری اپنانا پڑے گی۔ یہ تھیوری صرف وطن سے محبت سکھاتی ہے۔ وطن سے محبت کرنا ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

6ستمبر کی شام کئی لوگوںسے ادھوری ملاقاتیں ہوئیں۔ 7ستمبر کی شام محسن بیگ کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر بھی بے شمارسیاستدانوں، صحافیوں، سول و فوجی افسران اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے مختلف افراد سے ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ ملاقاتیں بھی ادھوری تھیں۔ آصف علی زرداری نے ملتے ہی بے تکلفی سے میرے پیٹ پرمکامارتے ہوئے کہا ’’تم موٹےبہت ہوگئے ہو۔‘‘ میں نے فوراً جواب دیا کہ آپ کے غم میں موٹا ہوگیاہوں۔ پھر سندھی میں گپ شپ ہوئی۔ جنرل آصف غفور 6ستمبر کو بھی تپاک سے ملے تھے اور 7ستمبر کو شادی کی اس تقریب میں بھی بڑے پرجوش اندازمیںملے۔ جنرل آصف غفور کی طرح راجہ پرویز اشرف، نعیم الحق اورفواد چوہدری سے بھی دونوںدن ملاقات ہوئی بلکہ اطلاعات کے وزیر فواد چوہدری سے مسلسل چاردن ملاقات ہوتی رہی۔ 6ستمبر کی شام جی ایچ کیو، 7ستمبر کی شام شادی کی تقریب، 8ستمبر کی دوپہر لنچ اور 9ستمبر کی صبح ناشتے پر اور پھردوپہر ایوان صدر میں نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر۔

8ستمبر کی دوپہر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سعودی وزیر اطلاعات کے اعزاز میں ظہرانہ دے رکھا تھا۔ یہاں کچھ چنیدہ صحافیوں اور سیاستدانوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کچھ پرانے دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک کئی یادگار کتابوں کے مصنف ہونے کےعلاوہ منفرد ٹی وی اینکر بھی ہیں۔ یہیں علامہ طاہر اشرفی سے بھی ملاقات ہوئی۔

9ستمبر کی صبح مذہبی امور کے وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری نے ناشتے پر مدعو کر رکھاتھا۔ یہ ناشتہ دراصل سعودی وزیر اطلاعات کے اعزاز میں تھا۔ یہاں وفاقی وزیرفواد چوہدری، پیر صاحب آف عیدگاہ شریف، نامور قانون دان راجہ عامر، قومی اسمبلی کی رکن ساجدہ ذوالفقار کے علاوہ کشمالہ طارق سے بھی ملاقات ہوئی۔ معروف صحافی چوہدری غلام حسین بھی یہاں موجود تھے۔

9ستمبر کی دوپہر نومنتخب صدر ڈاکٹرعارف علوی کی تقریب حلف برداری تھی۔ اس تقریب میں علی رضا علوی کے ساتھ شریک ہوا۔ بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار سے کافی گپ شپ ہوئی۔ یہ تمام گپ شپ سرائیکی زبان میں ہوئی۔ فوجی قیادت سے بھی ملاقات ہوئی۔ وفاقی وزرا اور اراکین اسمبلی سے بھی میل جول رہا۔ جب نور عالم خان ہمارے ساتھ کھڑے تھے تو زرتاج گل خصوصی طورپر ملنے آئیں۔ ڈاکٹر عارف علوی صدرمملکت سے ملاقات کے بعد جونہی میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی طرف بڑھا اور انہیں اپنا نام بتایا توکہنے لگے کہ ’’میں آپ کےکالم جنگ میں پڑھتا ہوں‘‘ پھرمیں نےانہیں راوین ہونے کا بتایا تو ملاقات میں اور گرم جوشی آگئی۔

9ستمبر کی شام ممتاز کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کی ہمشیرہ کی شادی تھی۔ یٰسین ملک کو بھارتی حکومت نے پاکستان نہیں آنے دیا۔ انہیںاپنی ہمشیرہ نسبتی کی شادی میں شریک نہیں ہونے دیا۔ اسی لئے مہمانوں کو مشال ملک اور ان کی والدہ ریحانہ حسین ملک خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ یہاںپر بھی ملک کے چنیدہ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ پہلے ہم تمام لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے پھر چند سیاستدانوں اور چند صحافیوں کو ایک الگ کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ یہاں پنجاب کےگورنر چوہدری محمدسرور نے اپنی حکومت کامقدمہ خوب لڑا۔ انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کا موازنہ سابقہ حکومتوں سے کیا۔ خوب کیا کہ سابق چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کو لاجواب کردیا۔ اس بات کے گواہ رحمٰن ملک اور ظفرعلی شاہ بھی ہیں بلکہ آزاد کشمیر کے صدر سردارمسعود خان بھی ہیں۔ جب چوہدری سرور اپنے کارکنوں کی بات کررہے تھے تو ایک صحافی بولا ’’کارکن نہیں فین‘‘ اس پر وہاں موجود تحریک انصاف کے حنان نیازی نے اونچی آوازمیں کہا کہ ’’ہم کارکن ہیں،ایسا نہ کہیں کیونکہ تحریک انصاف میں بڑے دلیرکارکن ہیں‘‘ 6ستمبر سے شروع ہونے والی ان 6تقاریب میں بہت سےلوگوںسے ملاقاتیں ہوئیں مگر یہ ملاقاتیں ادھوری تھیں۔ پوری ملاقاتیں ہوں گی تو پوری ملاقاتوں کا کچھ احوال لکھوں گا۔ فی الحال احمد فرازؔ کا شعر پیش خدمت ہے کہ؎

ناداں ہیں وہ کہ جن کو ہے گم نامیوں کا رنج

ہم کو تو راس آئے نہ شہرت کے رات دن

کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)