انتخابی معاملات پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی

September 21, 2018

2018کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے اور قومی اسمبلی میں خصوصی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کے حق میں حکومتی تحریک کی متفقہ منظوری ایک خوش آئند پیش رفت ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ نیت درست اور سوچ اجتماعی قومی مفاد پر مبنی ہو تو متنازع معاملات کے قابل قبول حل بھی خوش اسلوبی سے نکل سکتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد نہ صرف ہارنے والی پارٹیوں بلکہ برسر اقتدار آنے والی جماعت کی طرف سے بھی بے قاعدگیوں کے الزامات سامنے آئے تھے، اپوزیشن نے انتخابی معاملات کی تحقیقات کیلئے قومی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ دھاندلی کے الزامات 2018کے انتخابات ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے ہونے والے قومی انتخابات کے حوالے سے بھی لگائے جاتے رہے۔2013 کے انتخابات میں بے قاعدگیوں کے الزامات پر جولائی 2014 میں انتخابی اصلاحات کی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی، جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور حالیہ انتخابات میں بھی صورتحال مکدر رہی اس پس منظر میں قومی اسمبلی کی جانب سے خصوصی تحقیقاتی کمیٹی کی منظوری جہاں اپوزیشن کی فہم و فراست کی مظہر ہے وہاں اس میں حکومت کی جمہوری سوچ اور فراخ دلی کا بھی بنیادی عمل دخل ہے۔ حکومت نے اس معاملے کو انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اپوزیشن کی تجویز قبول کی اور یوں یہ مسئلہ کسی بدمزگی کے بغیر حل ہو گیا۔ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی مساوی نمائندگی بھی ایک اچھا فیصلہ ہے۔تاہم سینٹ میں اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ آیا ہے کہ تحقیقات کیلئے کمیٹی نہیں کمیشن بنایا جائے اور اس میں ایوان بالا کو قومی اسمبلی کے مساوی نمائندگی دینی چاہئے جو سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف حالیہ انتخابات کے بعد سامنے آنے والی شکایات پر ہی نہیں بلکہ پورے انتخابی عمل پر غور کیا جائے اور ایسی انتخابی اصلاحات تجویز کی جائیں جن کے نتیجے میں انتخابات کو متنازع بنانے کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے مستقبل میں تنازعات کے حل کا خود کار نظام تیار کر لیا جائے اور احتجاجی جلسے جلوسوں اور شور شرابے کی گنجائش نہ رہے۔