سدا بہار ’’اینگری ینگ مین‘‘، توقیر ناصر کی وارڈروب

September 30, 2018

بات چیت: نرجس ملک

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

پاکستان کی شوبز انڈسٹری کے ’’سدابہار فن کاروں‘‘ کی اگر ایک فہرست مرتّب ہو، تو چند نمایاں ترین ناموں میں ’’توقیرناصر‘‘ کا نام بھی ضرور شامل ہوگا۔ لگ بھگ 40برس ہوگئے، انڈسٹری سے وابستگی اختیار کیے، مگر اُن کا ’’اینگری ینگ مین‘‘ کا لُک(وہی برسوں پہلے جیسی دبنگ شخصیت، رُعب دار آواز، لیے دیئے رہنے والا انداز) ہنوز برقرار ہے۔ ستمبر 1954ء میںڈیرہ غازی خان میں جنم لینے والے توقیر ناصر نے پنجاب یونی ورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میںماسٹرز کیا۔ ابتداً ڈراموں میںشوقیہ کردار نگاری کی، مگر بعدازاں یہ شوق، جنون کی شکل اختیار کرگیا۔

تب ہی پی ٹی وی کے گولڈن پیریڈ، 1975ء تا 1990ء کے عرصے میںبے شمار یادگار ڈراموں(راہیں، پناہ، ایک حقیقت، ایک افسانہ، سمندر، دہلیز، ریزہ ریزہ، کشکول، درد اور درماں، فشار اور پرواز) میں شان دار پرفارمینس کا مظاہرہ کرکے ناظرین کے دِلوں میں ایسا گھر کیا، ذہنوں میں ایسی دھاک بٹھائی کہ پھر وقتاً فوقتاً اداکاری سے بریک بھی لیتے رہے، مگر اُن کا نام، شخصیت لوگوں کے دل ودماغ سے کبھی محو نہ ہوسکی۔ خصوصاً پانچ سال پاکستان نیشنل کائونسل آف آرٹس (PNCA)سے بہ طور ڈائریکٹر جنرل وابستگی کے عرصے میںتو پی ٹی وی سے تقریباً کنارہ کشی ہی اختیار کرلی، لیکن اپنے چاہنے والوں کے دِلوں سے نہ نکل سکے۔ اِن دنوں الحمرا آرٹس کائونسل، لاہور کے چیئرمین کے حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور عزم یہی ہے کہ جس طرح پی این سی اے کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا میںپاکستان کی تہذیب و ثقافت کے فروغ میں نمایاںکردار ادا کیا۔ سال کے 365 دنوں میں 300 سے زیادہ پروگرامز کرکے ایک تاریخ رقم کی، اسی طرح الحمرا آرٹس کائونسل جیسے عالمی ثقافتی ادارے میںبھی اک نئی روح پھونک کر دَم لیںگے۔

توقیر ناصر نے ایک بار پھر سلیکٹڈ ڈراموں میں کام کا بھی آغاز کردیا ہے۔ گرچہ اُن جیسے سینئر، منجھے ہوئے، ہر فن مولا اداکار کے لیے اب اداکاری تو گویا ’’گھر کی لونڈی‘‘ ہے، لیکن اِس کے باوجود اُن کا کہنا ہے کہ ’’مَیں آج بھی ہر کردار، اپنے پہلے کردار ہی کی طرح ادا کرتا ہوں کہ اداکاری اگر شوق کی حدوں سے نکل کرعشق کی وسعتوں میںداخل ہوجائے، تو پھر سرسری کردار نگاری سے بات نہیں بنتی۔ جیسا کہ آج کل کے بیش تر فن کاروں کا وتیرہ ہے۔ مَیں تو اب بھی اپنے کردار میںڈوب کر، ڈھل کر پرفارم کرنے ہی پر یقین رکھتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، بیش تر فن کار، مختلف کرداروں کی ادائیگی کے لیے گیٹ اپس تبدیل کرتے رہتے ہیں، لیکن میںگیٹ اپ کے بجائے، اپنی پرفارمینس سے مختلف النّوع کردار ادا کرکے ثابت کرتا ہوں کہ محض حلیہ تبدیل کرلینا کوئی کمال کی بات نہیں، مَیں چوہدری کا کردار ادا کروں یا آفیسر کا، قُلی کا رول نبھائوں یا وکیل، استاد کا، توقیر ناصر بہرحال ہر کردار میںموجود نظر آتا ہے۔ مَیںنے اپنے 40سالہ طویل کیریئر میں 400-500مختلف کردار ادا کیے، جن میں سے زیادہ تر میںسنجیدگی کا عُنصر غالب رہا، لیکن آپ کو میرے کسی ایک بھی کردار پر، دوسرے کی چھاپ ہرگز محسوس نہیںہوگی۔‘‘

توقیر ناصر کی ذمّے داریاں، مصروفیات بہت زیادہ ہیں، مگر اس کے باوجود انہوںنے اپنے سخت شیڈول میںسے کچھ وقت ہمارے لیے نکالا اور اپنی وارڈ روب سے چند پسندیدہ ڈریسز منتخب کرکے نہ صرف ایک خُوب صُورت شوٹ کروایا بلکہ بہت شُستہ و شائستہ انداز میں دھیمے دھیمے، ہنستے مُسکراتے اپنی پسند، ناپسند سے متعلق بھی آگاہ کرتے رہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’اکثر مَردوں کی طرح میرے بھی پسندیدہ ترین رنگ وائٹ اینڈ بلیک ہی ہیں، لیکن موسم، موقعے اور ماحول کی مناسبت سے رنگ و انداز تبدیل بھی کرتا رہتا ہوں۔ جینز میں خود کو بہت کمفرٹ ایبل محسوس کرتا ہوں، لیکن کُرتا شلوار بھی شوق سے پہنتا ہوں۔ اپنے ملبوسات کے انتخاب کے معاملے میںآج سے نہیں، کالج، یونی ورسٹی کے دَور ہی سے بہت محتاط ہوں۔ مَیں شاید زندگی کے کسی بھی دَور میں رَف اینڈ ٹف نہیں رہا۔ ہمیشہ سے خوش پوشاک ہوں۔ اپنی زیادہ تر شاپنگ لندن سے کرتا ہوں اور خود ہی کرتا ہوں۔ اس معاملے میںکوئی کمپرومائز نہیں۔ بیگم، بیٹیاں تحائف وغیرہ لے آئیں، تو ظاہر ہے، پسند آہی جاتے ہیں کہ اب وہ بھی میری پسند، ناپسند سے اچھی طرح واقف ہوچکی ہیں، لیکن شاپنگ کے لیے پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ خود خریدوں۔‘‘

64-65 برس کی عُمر میںبھی ’’اینگری ینگ مین‘‘ نظر آنے کے حوالے سے بات کرتےہوئے توقیر ناصر نے کہا کہ ’’سنجیدگی و متانت تو شروع ہی سے میرے مزاج کا حصّہ ہےاور اب تو ویسے ہی بہت میچور ہو چکا ہوں۔ غصّہ آتا ضرور ہے، مگر ایسا بھی نہیں کہ کسی کے لیے باعثِ آزار ہو۔ عموماً ایسے ہی دھیمے انداز سے بات کرنا پسند کرتا ہوں، جیسے اِس وقت آپ سے کررہا ہوں۔ البتہ اپنے اس ’’ینگ لُک‘‘ کے لیے مَیں اپنی خوراک کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ سبزیاں، دالیں شوق سے کھاتا ہوں۔ ایکسرسائز مَیںنے زندگی کے کسی دَور میں نہیںچھوڑی۔ جِم بھی جاتا ہوں اور باقاعدہ ورزش میرے معمولات کا ایسے ہی حصّہ ہے، جیسے دو وقت کا کھانا۔ متحرک، مصروف رہنا پسند ہے۔ وقت نہیں ضایع کرتا۔ سُست نہیں ہوں، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘

تحائف دینے، لینے دونوں صورتوں میں توقیر ناصر کو پھول اور خوشبوئیں بے حد پسند ہیں۔ ملبوسات کی خریداری کے ضمن میں برانڈز سے زیادہ اِس بات پر فوکس رکھتے ہیں کہ پہناوا آرام دہ اور شخصیت سے میل کھاتا ہو۔ اسی طرح ایکسیسریز کے انتخاب میںبھی یہی کلیہ پیشِ نظر رہتا ہے۔ گھڑیوں کے کچھ زیادہ شوقین نہیں۔ جوتے، چشمے فیشن سے ہم آہنگ تو ہوتے ہیں، لیکن اُن کا نفیس و آرام دہ ہونا اور پرسنلیٹی کے ساتھ جچنا زیادہ ضروری ہے۔ وارڈ روب میں کئی خاصے پرانے ڈریسز بھی موجود ہیں کہ اُن کا فیبرک، کلر، فٹنگ یا اُن سے منسوب کوئی اچھی یاد، اُنہیں ری جیکٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس حوالے سے توقیر ناصر کہتے ہیں کہ ’’امّاں زندہ تھیں، تو ہر مہینے، دو مہینے بعد پورا تھیلا بھر کر غریبوں میں بانٹدیا کرتی تھیں۔ اب بیگم بھی چھانٹی کرتی رہتی ہیں، لیکن مجھ سے اجازت لے کر۔ بہرحال، میں بھی بہت زیادہ جمع جتھا پر یقین نہیںرکھتا۔ وقتاً فوقتاً الماریاں خالی کرتا ہی رہتا ہوں۔‘‘

لیجیے، ایک اہم عُہدے پر فائز، مُلک کی ایک معزز شخصیت، لیجنڈ فن کار، سدا بہار ’’اینگری ینگ مین‘‘ توقیر ناصر کی بہترین وارڈ روب سے اُن کے چند پسندیدہ رنگ و انداز آپ کی نذر ہیں۔ ہمیںیقین ہے، روٹین سے ذرا ہٹ کر، ہمارا یہ ’’اسٹائل‘‘ آپ کو ضرور پسند آئے گا۔