اب آئی بایونک چپ

October 08, 2018

صادقہ خان

ہمارے ذہن میں دن رات لا تعداد خیالات آتے رہتے ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کتنے خیالات جو آج ہمیں بے سروپا یا دیوانے کی طرح معلوم ہوتے ہیں آنے والے دنوں میں ہم انہیں حقیقت کے روپ میں ڈھلتا دیکھ سکیں گے۔ اسی لیےآئن سٹائن نے کہا تھا ۔ ’’اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول معلوم ہو تو اس سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی ‘‘۔آج ہم جس دور میں جی رہیں ہیں وہ بلاشبہ ٹیکنالوجی کے عروج کا دور ہے ، آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور نا نو ٹیکنالوجی نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں کر دیا ہے۔ نصف یا ایک صدی پہلے تک جو سائنس فکشن کے تصورات تھے وہ آج سائنسی حقیقت بنےہماری آنکھوں کے سامنے ہیںاور جو آج ہمیں نا ممکن دکھائی دیتے ہیں ، بعید نہیں کے اگلے چند برس میں وہ ’’ کرشماتی سائنس ‘‘ کا حصہ بن چکے ہوں ۔ یہ انسان کا ناممکنات پر غور و فکر ہی ہے ،جس نے اس پر کلی طور پر ناقابل ِ توقع اور گہرے سا ئنسی میدان کے دروازے واکیےہیں۔مصنوعی ذہانت یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس 1960 ءکے عشرے سے سائنس دانوں کا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے ، تحقیق و جستجو کے جتنے دروازے انسان پر وا کیئے ہیں وہ اس سے پہلے کسی اور سائنس کے حصے میں نہیں آسکے، جیسے کے نام ہی سے ظاہر ہےیہ مصنوعی طریقے سے انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور مشین سے دماغ کی طرح کام لینے کی ایک کاوش ہے،جس کا تمام تر انحصار دماغ کے میکینزم کو سمجھنے پر ہے۔ سو یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ ہم اس میکینزم یا طریقۂ کار کو مکمل طور پر سمجھ سکیں ،جس پر دماغ کام کرتا ہے ۔

مگر برس ہا برس کی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بہت سے عقدے وا کیئے ہیں ۔ ایک عام اندازے کے مطابق دماغی خلیات کو کام کرنے کے لیے اتنی مقدار میں انرجی درکار ہوتی ہے ،جس میں ایک ایئر بس امریکا سے لندن تک با ٓسانی سفر کر سکتی ہے۔ جسم کے حسی اعضاء جیسے ناک، کان اور آنکھوں سے خام مواد سگنلز کی صورت میں دماغ تک بھیجا جاتا ہے ، دماغی خلیات جنہیں’’ نیوران‘‘ کہا جاتا ہے اس موادکو پراسس کرتے ہوئے اس پیغام کو دی کوڈ کر تے ہیں ۔اس سلسلے میں برسوں سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ مشین یعنی کمپیوٹر انسانی دماغ کو کلی یا جزوی طور پر پڑھنے کے قابل ہو جائے اور 1995 ءسے ’’ہیو منائڈ روبوٹس ‘‘یعنی انسانوں کی طرح سوچنے ،سمجھنے اور جذبات رکھنے والے روبوٹ پر کام جاری ہے اور سائنس داں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہیں ۔

چند برس قبل ایک ایسی سیلیکون چپ بنائی گئی تھی جو بارہ نیوران کی میموری ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی یا بارہ دماغی خلیات سے رابط کی حامل تھی ،مگر دماغ ایک پیچیدہ ترین عضو ہے ، چھینک مارنے سے لیکر فالج ، ایڈکشن (نشہ) اور کئی مہلک ترین امراض کے تانے بانے اسی سے جاکر ملتے ہیں سو بارہ نیوران کی چپ بلاشبہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی ایک سعیِ لاحاصل کے مصدا ق تھی ۔ اس سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت سا منے آئی ہےاورپاکستان کےلیےیہ یقیناًباعث فخر ہے کہ انسانی دماغ کو ایک سلیکون چپ پر گروکرنے کا کارہائے نمایاں ایک پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر نوید نے انجام دیاہے ، جو نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے فارغ التحصیل ہیں اور فی الوقت کینیڈا میں کیلگری یو نیو ر سٹی کے برین انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں ۔ ڈاکٹر نوید نے اپنی ٹیم کے ساتھ جو ’’بایونک چپ ‘‘ تیار کی ہے وہ ہزار کے قریب نیورانز یا برین سیلز کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، چوں کہ انسانی دماغ الیکٹریکل سگنلز کے ذریعے کام کرتا ہے اور یہ سگنلز اس قدر طاقت ور ہیں کہ ا ن سے پچیس وولٹ کے کئی بلب روشن کیے جاسکتے ہیں ، لیکن جب یہ الیکٹریکل سگنلز یا نیورانز کا تسلسل گوشت یا جسم کے پٹھوں ( مسلز ) تک منتقل ہوتاہےتو یہ الیکٹریکل سے کیمیکل سگنلز میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اب تک ایسی کوئی چپ دریافت نہیں ہوئی جو دماغی خلیات سے مکمل طور پر رابطہ کرتے ہوئے باتیں کر سکےیا ان کی ترتیب کو سمجھ سکے، ڈاکٹر نوید کی تیار کردہ ہزار نیو رانز والی چپ کسی حد تک اس صلاحیت کی حامل ہے ،جس میں متعدد ٹرانزسٹرز اور کیپی سیٹرز سیریز میں لگائے گئے ہیں ،کیپی سیٹر ان خلیات میں تحریک پیدا کرتا ہے جو ایک دوسرے سے رابطے میں ہوتے ہیں ۔ یہ تحریک آگے بڑھتی جاتی ہے اور خلیات کے نیچے لگے ٹرازسٹرز سگنلز کو ریسوکرکے چپ تک بھیجتے ہیں جہاں وہ میموری کی صورت میں جمع ہوکر ایک دائری لوپ مکمل کرتے ہیں ۔یعنی بایو نک چپ وہ الیکٹر یکل آلہ ہے ،جس پر گرو کیے گئے نیورانز دماغی خلیات سے باتیں یا الیکٹر انک ڈیوائس سےرابط کر سکتے ہیں ۔

اب بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بیدار ہوگا کہ کیا اس چپ سے انسانی افعال کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا ممکن ہوگا ؟ تو ایسا ہر گز نہیں ہے ،کیوں کہ محبت ، نفرت ، عداوت یا دشمنی و بے رخی جیسے احساسات و جذبات کس طرح دماغ میں بیدار ہوتے ہیں اور پھر انکی ٹرانسمیشن میکینزم کیونکر بنتی ہے یہ عقدہ اب تک انسان حل نہیں کر پایا تو ان کو کنٹرول کرنا ابھی اس کے بس کی بات نہیں ۔البتہ اس چپ کے ذریعے نفسیاتی عوارض ، نشہ کی لعنت اور کئی دماغی امراض کا علاج ممکن ہے ۔ اس بایونک چپ کو دماغ میں ’’ ہپو کیمپس ‘‘ کے قریب لگایا جائے گا جہاں یادداشتیں جمع ہوتی رہتی ہیں ، اس کی فنکشنل مکینزم میں ہر فعل کا اپنا متعلقہ کوڈ ہوگا ، جس کو ڈائل کرنے کی صورت میں چپ سگنل پاس کرے گی ورنہ بلاک کردے گی ۔کسی بھی بیماری کا علاج دریافت کرتے ہوئے محققین کی توجہ کا مرکز وہ جگہ یا مقام ہوتا ہے جہاں سے خرابی یا بگاڑ کا آغاز ہوا ، چوں کہ پارکنسن یا رعشے کی بیماری کا سبب بھی چند اعصابی پیچیدگیاں ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر نوید کی بنائی گئی چپ سے یہ بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون سے خلیات فعال نہیں رہے جو مرض کا سبب بنے اور پھر اس کے متعلقہ کوڈ کے ذریعے ان خلیات کو از سر ِ نو ایکٹو ( فعال ) کیا جاسکتا ہے ۔اس کا ایک اور فائدہ خلیات میں بڑ ھوتری کے عمل کی رفتار تیز کر کے مہینوں میں بھرنے والے زخموں کو اب دنوں میں ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور چندماہ قبل ہی ایک ایسی ’’ مصنوعی جھلی ‘‘ ایجاد کی گئی ہے، جس سے زخموں کا بھرنا اب گھنٹوں کا کام ہے ۔مجموعی طور پردیکھا جائے تو ڈاکٹر نوید کی تیارکردہ یہ چپ نا صرف بایو میڈیکل انجینئرنگ کے لیے ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ انسانی زندگی پر اس کے دور رس اثرات کے بارے میں اندازہ لگانا تاحال مشکل ہے ۔

اگرچہ گوگل ایکس لیب اور مارک زکر برگ کی ٹیمیں کافی عرصے سے ایک مصنوعی دماغ بنانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں یعنی ایک ایسی مشین جو مکمل طور پر دماغ کی طرح سوچنے، سمجھنے اور احساسات و جذبات کی حامل ہو، مگر ابھی تک اس سلسلے میں پیش رفت کافی سست ہے ۔بایونک چپ ہو، مصنوعی دماغ یا ’’ایم مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی ‘‘یہ تمام پراجیکٹس سپر انٹیلی جنس کا حصہ ہیں، مگر اس حقیقت سے سب ہی آگاہ ہیں کہ حد سے بڑھی ہوئی کوئی بھی چیز نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہماری زندگیوں میں بڑھتا ہوا مصنوعی ذہانت کا عمل دخل پہلے ہی انسان کی اہمیت کو گھٹا کر روبوٹ اور مشین کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ڈاکٹر کی تیار کردہ اس چپ کا مقصد ہر طر ح سے انسانوں کو مدد فراہم کرنا ہے ۔