دو تقریریں دو وزیر

October 03, 2018

دو وزیروں کی تقریروں کے بڑے چرچے ہیں۔ ان تقریروں پر تبصرے سے پہلے مجھے وزیراعظم عمران خان کی دو باتیں یاد آ رہی ہیں۔ ایک دن اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک ایسا سیمینار ہو رہا تھا جس میں غیر ملکیوں کی تعداد زیادہ تھی، جب تقریر کا مرحلہ آیا تو مہمان خصوصی عمران خان نے پہلے دو جملے انگریزی میں ادا کئے اور پھر کہا کہ میں اپنی قومی زبان میں بات کروں گا۔ لوگوں نے ان کی اس بات کو بہت سراہا۔ دوسرا واقعہ بنی گالہ کا ہے۔ ایک سہ پہر میں عمران خان سے ملنے گیا تو وہ انتظار میں تھے، دعا سلام کے بعد کہنے لگے کہ ۔۔۔ ’’یار! میں نماز پڑھ لوں پھر ہم دونوں لان میں بیٹھتے ہیں (پھر ملازم سے مخاطب ہوئے اور کہا) تم دو کرسیاں لگائو اور کوئی اور اس طرف نہ آئے۔۔۔‘‘ نماز پڑھنے کے بعد عمران خان واپس آئے تو کہنے لگے کہ صبح سے فلاں سیاستدان مجھے کوئی دس مرتبہ فون کر چکا ہے مگر میں نے اس سے بات نہیں کی، تم بتائو کیا کرنا چاہئے؟ میں نے کہا کہ بات نہ کرنا ہی بہتر ہے ورنہ آپ کا سارا ایجنڈا برباد ہو جائے گا۔ میرے اس جملے کے بعد عمران خان ہنسے اور پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ ’’ہاں یار! اس ڈاکو سے بات کرنے کا کیا فائدہ‘‘ یہی وہ مرحلہ تھا جب عمران خان نے مجھ سے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں انہیں چور اور ڈاکو نہ کہوں، آپ مجھے بتائیں کہ اگر ڈاکو کو ڈاکو نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے، کیا چور کو حاجی صاحب کہہ کر بلانا چاہئے۔

اب آتے ہیں دو تقریروں کی طرف۔ ایک تقریر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی، ان کی تقریر نے بھارت کا مکروہ ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کر دیا دنیا کو اس کا اصل چہرہ دکھا دیا، انہوں نے وہ سارے قصے جو دنیا بھول گئی تھی، تقریر میں شامل کر دیئے، ان کی تقریر سے پاکستانی خوش ہوئے، خوشی کی دو وجوہات تھیں پہلی وجہ کہ شاہ محمود قریشی نے اردو میں تقریر کی، ان کی اس بات کو بہت سراہا گیا، دوسری وجہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ہر پہلو اجاگر کیا۔ شاہ محمود قریشی نے پورا مقدمہ اپنی شستہ اردو میں پیش کیا۔

صاحبو! اب آتے ہیں دوسری تقریر کی طرف، یہ تقریر اطلاعات کے وفاقی وزیر فواد چوہدری کی تھی۔ شاہ محمود قریشی کی تقریر سے صرف بھارت پریشان ہوا تھا مگر فواد چوہدری کی تقریر سے اندر باہر پریشانیوں کے سائے پھیل گئے۔ بھارت سمیت کئی ایسے ملک پریشان ہو گئے جو پاکستان میں لوٹ مار کا بازار گرم دیکھنا چاہتے ہیں۔ چوہدری فواد حسین نے پاکستان کے اندر سیاستدانوں، افسروں اور سرمایہ داروں کی اس پوری کھیپ کو پریشان کر دیا جو ملک کو لوٹنے والوں میں شامل ہے۔ فواد چوہدری کی تقریر سے تین طرح کے پاکستانی بہت خوش ہوئے جبکہ تین طرح کے پاکستانی ناخوش ہوئے، ناراض ہوئے۔ خوش ہونے والوں میں پاکستانیوں کی اکثریت شامل ہے، اس میں پسے ہوئے طبقات بھی شامل ہیں، اس میں وہ طبقہ بھی شامل ہے جس کے معاشی حالات اچھے ہیں، اس میں پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے۔ خوش ہونے والوں میں پہلا نمبر محب وطن پاکستانیوں کا ہے جو پاکستان کے اندر رہتے ہیں اور لوٹ مار کے خلاف ہیں۔ خوش ہونے والوں میں دوسرا طبقہ وہ ہے جو پاکستان میں اصول پرستی دیکھنا چاہتا ہے، جو حرام حلال میں تمیز دیکھنا چاہتا ہے، جو ملکی ترقی کا خواہاں ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو پاکستان سے باہر رہتا ہے مگر پاکستان پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لئے تیار ہے یہ محب وطن اوورسیز پاکستانی خوش ہیں کہ چلو کسی وزیر نے ڈاکوئوں کو ڈاکو تو کہا، چوروں کو چور تو کہا۔ پی ٹی آئی کا نظریاتی ورکر بھی خوش ہوا۔ تین طرح کے ناراض یا ناخوش ہونے والے پاکستانیوں میں پہلا طبقہ وہ ہے جو خود ڈاکو یا چور ہے، ان ڈاکوئوں اور چوروں کو فواد چوہدری کی تقریر نے بہت پریشان کیا، اسی لئے تو انہوں نے بولنا شروع کر دیا، واک آئوٹ کر دیا، بائیکاٹ کی دھمکی لگا دی، دوسرا ناخوش طبقہ وہ ہے جو چوروں اور ڈاکوئوں کا حواری ہے، جو پاکستان میں ترقی نہیں دیکھنا چاہتا، وہ جمہوریت کی چھتری کا نام لے کر لوٹ مار کا کھیل جاری رکھنا چاہتا ہے۔ ناخوش ہونے والا تیسرا طبقہ پی ٹی آئی کے اندر وہ چند لوگ ہیں جن کا نام مشکوک افراد میں آتا ہے، ان کے بارے میں شک پڑتا ہے کہ انہوں نے یا تو کرپشن کر رکھی ہے یا کرپشن کا ارادہ ہے، پی ٹی آئی میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے وزیر کی جاندار اور دھواں دھار تقریر سے خائف ہیں کہ ہمارے وزیر نے کیسی جاندار تقریر کر ڈالی ہے کہ ہر طرف اس کے چرچے ہیں، اس پر ٹی وی ٹاک شوز ہو رہے ہیں، کالم لکھے جا رہے ہیں، اپوزیشن پہلی مرتبہ خوف زدہ ہوئی ہے ورنہ یہ وہی اپوزیشن تھی جو وزیراعظم کو تقریر نہیں کرنے دے رہی تھی، یہ ہمارا کیسا وزیر ہے کہ اس نے اپوزیشن ہی کو بھگا دیا ہے،فواد چوہدری کی دشمنی میں کچھ لوگ وزیراعظم کے پاس گئے بھی کہ اس سے پارلیمنٹ کا ماحول خراب ہوتا ہے مگر عمران خان نے ایسے لوگوں کی ایک نہ سنی بلکہ فواد چوہدری کی تقریر کو سراہا۔ آخر میں قیوم طاہر کے دو اشعار۔

سامنے والے کی اوقات بھی دیکھی ہوتی

تم نے جو کہنی تھی وہ بات بھی دیکھی ہوتی

پوچھ لیتے کبھی دیوار و در و بام کا حال

شہر کی صورتِ حالات بھی دیکھی ہوتی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)