ایک ہفتہ آذر بائیجان کی سیر

October 07, 2018

پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے چھٹیوں کی یلغار ہے پہلے عید کی چھٹیاں ہوئیں پھر الیکشن میں یار لوگ لگ گئے۔ الیکشن سے نجات ملی تو محرم کی چھٹیاں ہوگئیں۔ گزشتہ ایک سال سے سیرو تفریخ کے لئے آذربائیجان کے شہر باکو کانام سامنے آرہا تھا۔بتایا جارہا تھا کہ بہت خوبصورت شہر ،خوبصورت مر دوخواتین ،سستا اور رنگ برنگا ملک ہے۔بہترین تفریح گاہیں ،آبشار اور باغات کی بھرمار کا ذکر دوستوں سے سُنا تھا جو باکو کئی بار گھوم آئے تھے ۔سوچا کہ فیملی کے ساتھ گھوم لیا جائے اور ایک نئے ملک کی سیر بھی ہوجائے گی اور پاکستانی عوام کو بھی اس ملک کا تعارف کروادیا جائے گا ۔کراچی سے تو براہ راست کوئی فلائٹ نہیں جاتی البتہ اس کے لئے دبئی سے ٹرانزٹ فلائٹ لی۔ تقریباً 4گھنٹے کی پرواز سے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے حیدرعلی ائر پورٹ پہنچے۔ بہت خوبصورت ڈیزائن سے بھر پور ہمارے کراچی ائر پورٹ کے برابر تھا ۔آذربائیجان کے لئے پاکستانی بہ آسانی ویزہ لے سکتے ہیں ۔جوآن لائن 40ڈالر فی کس فیس ادا کرکے لیا جاسکتا ہے۔ ٹریول ایجنٹس حضرات کی معرفت حاصل کرکے جانا ضروری ہے۔ البتہ جن پاکستانی پاسپورٹ پر دبئی یواے ای، سعودی اقامہ لگا ہوان کو باکو پہنچنے پر آن آرائیول ویزہ مل جاتا ہے ۔مگر اُس میں گھنٹہ بھر کارروائی میں لگ جاتا ہے ۔بہتر یہی ہے کہ ایڈوانس آن لائن الیکٹرونک ویزہ لے کرجایاجائے ۔ائر پورٹ کے امیگریشن کائونٹر پر خواتین کی تعداد زیادہ تھی ۔ہمارے پاس آن لائن ویزے تھے اُس کے لئے الگ کائونٹر تھا چند منٹوں میں فارغ ہوکر گرین چینل سے باکو شہر میں ائر پورٹ سے باہر آئے۔ہم نے دو الگ الگ رینٹ اے کار بُک کروائی تھیں جو باہر نکلتے ہی مل گئیں۔ہمارا ہوٹل اندرون شہر سے چند میل کے فاصلے پر تھا خوبصورت اپارٹمنٹ / ہوٹل جس میں 4کمرے تھے ٹی وی لائونج،کچن،فریج کٹلری سب دھلے دھلائےرکھے تھے ۔ ہوٹل کا واک وے درختوں ،باغات سے بھراتھا ۔پورے اپارٹمنٹ کا کرایہ 225ڈالر یومیہ تھا وہ بھی آن لائن بکنگ کروائی تھی ۔ائر پورٹ سے تقریباً 40منٹ میں ہوٹل پہنچ گئے ۔راستے میں ہم ڈائون ٹائون (اندرون شہر ) سے گزرے ۔خوبصورت ہوٹلوں کی بھرمار ،شاپنگ مال ،سپر مارکیٹس ،اور لاتعدار ریسٹورنٹس تھے ۔جن میں عربی ،ترکی ،لبنانی کھانوں کی بھرمار تھی ۔باربی کیو اور تندوری روٹیاں ،پنیر ،زیتون لازمی ڈشز تھیں۔ سیاحوں کے لئے مساج پارلر اور ڈانسنگ ہال جگہ جگہ ہیں۔جو رات رات بھر کھلے ہوتے ہیں ۔98فیصد پڑھے لکھے آذربائیجان کے عوام مسلمان ہیں ۔زیادہ آبادی کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ محرم کے دن تھے یہاں صرف مساجد کے اندر ہی ماتم ہوتا ہے۔بہت مہذب اور مہمانوں سے خوش دلی سے پیش آتے ہیں۔ مگرانگریزی میں بہت کمزور ہیں۔ آذربائیجان کے لوگ آذری اور ترکی ملی جلی زبان بولتے ہیں ۔پاکستانیوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں ۔کل ایک کروڑ کی آبادی ہے جس کے 59صوبے ہیں۔ رشیا (USSR)سے آزاد ہوئے ہیں مگر روس کو پسند نہیں کرتے انہوں نے بہت ظلم کیا تھا ۔جنگیں بھی لڑیں، قدرتی گیس اور پیٹرول سے یہ ملک مالامال ہے ۔خود شہر کی سڑکوں کے ساتھ ساتھ پیٹرول نکالنے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں ۔جیسے ہمارے گائوں میں کنویں سے پانی نکالنے کےپمپ ہوتے ہیں ۔ایسے ہی پمپ جگہ جگہ آپ کو لگے ہوئے ملتے ہیں۔جو سب کے سب سرکاری ملکیت ہیں ۔عوام کی اکثریت شام کو سیر وتفریح کے لئے باہر نکلتی ہے ۔ہر علاقے میں تفریحی باغات ہیں ۔بچوں کے لئے جھولے اور دوسری چیزیں مفت موجود ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔ مساجد کم ہیں۔البتہ ایک بہت بڑی تاریخی مسجدبی بی حبات دیکھنے کو ملی مگر اکثر سرراہ گزرتے ہوئے دیکھا بہت کم ہی لوگ آتے جاتے نظر آئے ۔صرف 10محرم کو اُس مسجد کے باہر لاتعدادگاڑیوں کی قطاریں نظر آئیں ۔باکو شہر کی خوبصورتی میں ساحل سمندر کی تفریحی جگہیں ،کشتی رانی ،فشنگ لانچیں ٹورسٹس کے لئے باعث کشش ہیں ۔لاتعداد پاکستانی فیملیاں بھی ملیں ،ہمارے جہاز میں 90فیصد پاکستانی فیملیاں تھیں جو تفریح کے لئے باکو شہر کو آرہی تھیں ۔یہاں کی کرنسی کا نام منات(Manat)ہے۔ 100ڈالر میں 175منات ملتے ہیں ۔لوگ بتاتے ہیں کہ 2سال پہلے تک تمام اشیاء بہت سستی تھیں مگر اب سیاحوں کی آمدورفت کی وجہ سے مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے۔ جو ہوٹل 75ڈالر کا ملتا تھا اب 150سے 200ڈالر فی کمرہ ہوگیا ہے۔ مسلمان ملک ہے مگر روس کے زیراثر ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ شراب خانے ،مساج پارلرز کی کثرت ہے۔باکو شہر کے چاروں طرف سمندر اور پہاڑیاں کثرت سے ہیں۔ رات کو پورا شہر جگمگاتا نظر آتا ہے ۔ہوٹلوں سے بھی نظارہ کیاجاسکتا ہے ۔اندرون شہر میں تو پوری گلیاں کھانے پینے اور شاپنگ کی دکانوں سے بھری پڑی ہیں۔ گلیاں پیدل چلنے والوں کے لئے وقف ہیں۔ گاڑیوں کو باہر پارکنگ لاٹ میں کھڑاکرکے ہی آپ ان بازاروں میں جاسکتے ہیں۔ ایک پہاڑی پر گئے وہاں خوبصورت پارک کے ساتھ ایک قطار میں آگ لگی ہوئی تھی جس کی وجہ اندر اُس کے پٹرول اور گیس کا ذخیرہ بتا یا جاتا ہے ۔اُس پر جانے کے لئے ایک ڈالر کا ٹکٹ تھا۔ حضرت آدم کے زمانے سے ہی یہاں قدرتی طور پر آگ لگی رہتی ہے حتی کہ بارش اور برف باری میں بھی اسی طرح لگی رہتی ہے ۔سرد موسم تھا تو آگ کی گرمائش بھلی لگی۔ اور بہت سی فیملیاں اس آگ کا مزا لے رہی تھیں ۔اور چند تو اردگرد چٹایاں بچھاکر کھانے اور گپیں لگانے میں مصروف تھیں ۔باکو سے تقریباً 300کلومیٹر ہائی وے سے ہم ایک تاریخی شہر گنالاتقریباً 5گھنٹوں کی مسافت طے کرکے پہنچے ۔یہاں ایک تاریخی آبشار ہے جس کو دیکھنے دُور دور سے لوگ آتے ہیں ۔ایک گائوں کے اندر کچے راستے سے پہنچے تو تقریباً 500سیڑھیاں جو بہت دشوارگزار راستے پر تھیں لہٰذا مزید اوپر جانے کی ہمت نہیں تھی آبشار کا پانی اُس پہاڑی سے نیچے تیزی سے آرہا تھا۔ رات بھی ہوچکی تھی بجلی کا بھی خاص انتظام نہیں تھا۔ صرف ایک آدھ بلب روشن تھا ۔آدھے راستے سے واپس آنے میں غنیمت جانی اور واپسی کا راستہ لیا تو رات کی وجہ سے صرف تین گھنٹوں میں واپس باکو پہنچ گئے۔ خصوصی بات اس ڈھائی 300کلومیٹر ہائی وے پر چند ایک چھوٹے چھوٹے ہی شہر نظر آئے ۔ٹریفک بھی بہت معمولی تھی۔ گاڑیوں کی حد رفتار 90کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور ہر پانچ کلومیٹر کے بعد ٹریفک چیک کرنے کے لئے میٹر لگے ہوئے تھے۔جو سولرپینل سے کام کررہے تھے اور کئی جگہ پولیس کی گاڑیاں بھی چیکنگ کرتے ملیں، کم رفتاری کی وجہ سے ہائی وے پر حادثات نہیں دیکھے اور نہ کسی کو تیز چلاتے دیکھا۔ ایک ہفتہ آذربائیجان گھومنے پھرنے کے بعد ہم خوشگوار یادیں لے کر واپس پاکستان آئے تو دوبارہ بھی جانے کی تمنا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک کا شمار بھی تفریحی ممالک میں ہوتا تھا۔کاش کوئی ہمارادوبارہ جگمگاتا پاکستان واپس لائے۔ جاتے جاتے بتاتا چلوں کہ یہاں کے عوام حیدر علی (مرحوم) کی قیادت سے اتنے خوش تھے کہ ان کے انتقال کے بعد ا ب اُن کے صاحبزادے آذربائیجان کی قیادت کررہے ہیں ۔کوئی کرپشن نہیں ہے کوئی مذہبی فسادات نہیں ہیں۔یہ ملک کسی کامقروض نہیں ہے اس کی برآمدات درآمدات سے دُگنی ہیں۔ غربت نہیں ہے فی کس آمدنی 9ہزار ڈالر ہے ۔شہر میں ایک تنکا بھی سڑک پر نظر نہیں آئے گا ۔کب یہ شہر کو صاف کرتے ہیں یہ بھی نظر نہیں آیا ۔ہر چیز لاجواب ہے جس کے لئے ایک کالم کافی نہیں ہے ۔اس میں حیدر علی سنٹر، آذربائیجان کارپٹ میوزیم ،باکو ٹی وی ٹاور ،بی بی حبات مسجد، نظامی میوزیم آف آذربائیجانی لٹریچر،نیشنل آبشارپارک اور نیشنل آرٹ میوزیم نہایت ہی قابل دید ہیں ۔