وزیراعظم خود کچی آبادیوں کا دورہ کریں، 50 لاکھ مکان بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، یہ صرف اعلان سے نہیں بن جائیں گے، چیف جسٹس

October 11, 2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ سیل، صباح نیوز )چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ آج کل حالات خراب، لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں، ڈالر کا ریٹ دیکھیں کہاں پہنچ گیا،50 لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، یہ صرف اعلان سے نہیں بن جائینگے،پہلے کچی آبادیوں کیلئے کچھ کرنا ہوگا ، کچی آبادی والے کیا کیڑے مکوڑے ہیں،وزیراعظم خود کچی آبادیوں کا دورہ کریں، کچی آبادی کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قانون بنا تھا دیکھیں گے سندھ حکومت نے اس پر کتنا عمل کیا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حکومت کو ہی کنٹرول کرنی ہیں، کیا ایم ڈی پی ایس او اتنےلاڈلے تھے 37 لاکھ تنخواہ دی گئی؟ سپریم کورٹ نے پی ایس او میں غیر قانونی تعیناتیوں کی تحقیقات نیب کے سپرد کر دی۔چیف جسٹس نے یہ ریمارکس اور ہدایت ملک بھر میں کچی آبادیوں اور تیل، گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے متعلق الگ الگ مقدمات کی سماعت کے موقع دیئے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ملک بھر کی کچی آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کی جس دوران بلوچستان میں کچی آبادیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کچی آبادیوں میں سہولتیں دینا حکومت کا کام ہے، سہولیات فراہم نہیں کر سکتے تو ان کا متبادل نظام کریں اور اگر انتظامیہ یہ کام نہیں کرتی تو پھر عدالت معاملے کو دیکھے گی، اسلام آباد اور چاروں صوبے اس معاملے میں شراکت دار ہیں، ہمیں اس حوالے سے کوئی قانون یا پالیسی موجود ہے تو بتایا جائے، کچی آبادیوں میں بہت نقص ہے،کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اسلام آباد سے کچی آبادیاں ہٹانے پر تجاویز دیں، کچی آبادیوں کیلئے سی ڈی اے نے جگہ مخصوص کر رکھی ہے، ہمیں بتائیں انہیں متبادل جگہ فراہم کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔ جسٹس ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ وزیراعظم سے کہیں کہ ٹائم رکھیں کچی بستیاں دیکھنے چلتے ہیں، دیکھیں کہ وہاں کیا حالت زار ہے، وزیراعظم اس ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور بنیادی حقوق کی حفاظت انکے ذمے ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ کچی آبا دیو ں کا مسئلہ جلد حل ہو جائیگا۔ وزیراعظم نے 50لاکھ گھروں کا اعلان کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 50لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں، اس میں وقت لگے گا، کبوتروں کا پنجرہ بنایا جائے تو بھی دیکھا جاتا ہے کتنے کبوتر آئینگے، کمیشن مقرر کر دیتا ہوں وہ جا کے دیکھ لے گا، 1996سے لیکر ابتک کیا کیا ہے؟ کہتے ہیں تبدیلی آگئی ہے، یہاں سرکاری گھروں کا بہت غلط استعمال ہوتا ہے، ریٹائر لوگ سرکاری گھروں پر قابض ہیں۔ عدالتی معاون بلال منٹو نے کہا کہ پوش علاقوں میں دیواروں پر لکھا ہے کہ یہاں ملازمین کا داخلہ منع ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بھی ایسی آبادیوں سے متعلق کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔