دبئی کی 25 فیصد عمارتوں پر تھری ڈی پرنٹنگ کا منصوبہ

October 14, 2018

انسانی جسم کے عضو پرنٹ کرنے سے لے کر مریخ پر انسانی سفر کے دوران یا پھر کسی بھی نقصان کی صورت میں ہر قسم کی پرنٹنگ کرنے تک، تھری ڈی پرنٹنگ سے متعلق ایسی کئی پیش گوئیاںکی جارہی ہیں، جو انسانی زندگی میں کئی سہولیات پیدا کرنے کا مؤجب بنیںگی۔

اب دبئی نے اسی لائحہ عمل کے تحت ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ تعمیرات میں تھری ڈی صنعت کو فروغ دینے کے لیے 2025ء تک وہاں بننے والی کم از کم 25فیصد عمارتوں کو تھری ڈی پرنٹ کردیا جائے گا۔

درحقیقت، اس لائحہ عمل کا اعلان آج سے دو سال قبل 2016ء میںمتحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے وزیراعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم نے کیا تھا، جس پر اب باقاعدگی سے عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔

دبئی فیوچر فاؤنڈیشن کے مطابق، تھری ڈی پرنٹنگ سے تعمیراتی صنعت میں کام کرنے والی افراد قوت کی ضرورت 70فیصد تک کم ہوجائے گی جبکہ تعمیرات سے وابستہ تمام صنعتوں کو ملا کر مجموعی تعمیراتی لاگت میں 90فیصد تک کمی آئے گی۔

شاید، تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تعمیراتی لاگت میں کمی لانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے ذریعے بے گھر خاندانوں کی بڑھتی تعداد کو کم لاگت گھر فراہم کیے جاسکتے ہیں، جو تیزی سے گاؤں، دیہات چھوڑ کر شہروںکی طرف آرہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک دنیا میں کم از کم 41ایسے بڑے شہر ہوں گے، جن کی آبادی ایک کروڑ یا اس سے زائد ہوگی۔

مستقبل کا لائحہ عمل

دبئی فیوچر فاؤنڈیشن ، دبئی کی حکومت کے لیے ایک لائحہ عمل پر کام کررہی ہے، جس کے تحت اس بات کا اندازہ کرنا ہے کہ ٹیکنالوجی مستقبل کی صنعتوں کو کس طرح بدل کر رکھ دے گی؟ اسی لائحہ عمل کے تحت، یہ ادارہ، 2030ء تک دبئی کو تھری ڈی پرنٹنگ کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔

دبئی میں پہلی تھری ڈی پرنٹڈ عمارت کا افتتاح 2016ء میں کیا گیا تھا۔ عمارت جسے ’آفس آف دا فیوچر‘ کا نام دیا گیا ہے، 6میٹر اونچے اور 12میٹر چوڑے روبوٹک بازو والے تھری ڈی کنکریٹ پرنٹر سے تیار کی گئی تھی۔ اس عمارت کی تھری ڈی پرنٹنگ میں پرنٹر کو مانیٹر کرنے کے لیے ایک ٹیکنیشن، عمارت کو سائٹپر کھڑا کرنے کے لیے7مزدور جبکہ مکینیکل اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے امور انجام دینے کے لیے 10الیکٹریشن اور ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

افرادی قوت اور توانائی کی بچت

فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ دبئی کی اس پہلی تھری ڈی پرنٹڈ عمارت کی تعمیر میں، اسی نوعیت کی روایتی تعمیر کے مقابلے میں 50فیصد کم لاگت آئی۔ عمارت کی پرنٹنگ 17دنوں میں کی گئی، جبکہ مرکزی دبئی میں ایمریٹس ٹاور کے ساتھ سائٹ پر اسے کھڑا کرنے میں دو دن لگے۔ اس کے بعد عمارت میں دیگر خدمات کی فراہمی، انٹیریئر اور لینڈ اسکیپ کی تیاری میں تین ماہ لگے۔

’آفس آف دا فیوچر‘ کو انتہائی کم توانائی خرچ کرنے والی عمارت کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ 250میٹر پر تعمیر شدہ اس عمارت میں قدرتی روشنی کی کمی نہیں، تاہم اندرونی حصوں کو براہِراست سورج کی تپش سے محفوظ رکھنے کے لیے کھڑکیوں کے اوپر ’ڈیجیٹل اوور ہینگز‘ نصب کیے گئے ہیں۔ ’ اس سے سورج کی دھوپ براہِ راست عمارت کے اندر داخل نہیںہوتی اور عمارت تپش سے محفوظ رہتی ہے۔ اس سے ایک تو عمارت کے اندر قدرتی روشنی وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے، ساتھ ہی ایئر کنڈیشننگ کے کم استعمال کے باعثتوانائی کی بچت ہوتی ہے۔100فیصد ایل ای ڈی لائٹنگ، متحرک بلڈنگ سسٹم، گرین لینڈاسکیپنگ اور کم خرچ ایئر کنڈیشننگ اور کولنگ سسٹم اس عمارت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

گھروں کے بحران کا حل

صرف دبئی ہی نہیں، دنیا کے دیگر کئی ممالک بھی تھری ڈی تعمیرات کے فروغ پر کام کررہے ہیں۔ فرانس نے دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹڈ گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 95مربع میٹر رقبے پر تعمیر کیے گئے اس گھر کو حکومت نے ایک ضرورت مند خاندان کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ حکام کے مطابق، حکومت اس طرح کے گھروں کا ایک پورا ڈسٹرکٹ تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کررہی ہے۔

ورلڈ ریسورس رپورٹ 2017ء کے مطابق، دنیا بھر میں کم لاگت گھروں کی شدید قلت ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ دنیا کو 33کروڑ کم لاگت گھروںکی فوری ضرورت ہے۔ 2025ء تک یہ ضرورت 30فیصد اضافے کے ساتھ 44کروڑ ہوجائے گی۔

سائنس فکشن فلموں میں دِکھایا جاتا ہے کہ مستقبل کے شہر کافی ڈراؤنے ہونگے۔ Ready Player One اور Soylent Green جیسی فلموں میں مستقبل کے گھر اور گاڑیوں کو دِکھایا گیا ہے، جو ایک دوسرے کے اوپر رکھی ہوئی ہیں۔ البتہ، تھری ڈی پرنٹنگ دنیا کو مستقبل کی اس متوقع صورتحال سے بچاسکتی ہے۔

اندازہ ہے کہ 2023ء تک ہر طرح کی صنعت میں استعمال ہونے والی تھری ڈی پرنٹنگ کی مالیت 32ارب 78کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ ایک بہت بڑی ہائی ٹیک صنعت میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے کیا تیاری کررہی ہیں؟