چشمِ بَددُور، دُلہن بَن کے شباب آتا ہے.....

October 21, 2018


ایک بہت خُوب صُورت سی نظم ’’بیٹیاں‘‘ پڑھی۔ ؎ ’’مہتاب ہیں، گلاب ہیں، صندل ہیں بیٹیاں.....بادِ صبا ہیں، خُوشبو ہیں، بادل ہیںبیٹیاں.....اس منصبِ جلیل پہ فائز ازل سے ہیں......رحمت خدا کی، پیار کا آنچل ہیں بیٹیاں.....ہر تشنگی کا ایک مکمل جواب ہیں.....ممتا، خلوص، پیار کی چھاگل ہیںبیٹیاں.....ہیں جستجو، تلاش، امانت سماج کی......پلکوں پہ ان کو لیجیے، کاجل ہیںبیٹیاں......جنّت ہے ان کے زیرپا، دنیا کا ذکر کیا.....دونوں جہاں کا حُسنِ مکمل ہیں بیٹیاں.....مہتاب ہیں، گلاب ہیں، صندل ہیںبیٹیاں.....بادِ صبا ہیں، خوشبو ہیں، بادل ہیں بیٹیاں‘‘۔ پھر ایک اور نثری نظم ’’بیٹیاں وفائوں جیسی ہوتی ہیں‘‘ نگاہ سے گزری۔ ؎ ’’تپتی زمین پر آنسوئوں کے پیار کی صُورت ہوتی ہیں.....چاہتوں کی صُورت ہوتی ہیں.....بیٹیاں خُوب صُورت ہوتی ہیں......دل کے زخم مٹانے کو.....آنگن میںاتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں.....بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں..... نامہرباں دھوپ میںسایا دیتی..... نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں.....بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں.....چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں.....تنہا اداس سفر میںرنگ بھرتی..... رَدائوں جیسی ہوتی ہیں......بیٹیاں چھائوں جیسی ہوتی ہیں.....کبھی بُلاسکیں، کبھی چُھپا سکیں.....بیٹیاں اَن کہی صدائوں جیسی ہوتی ہیں.....کبھی جُھکا سکیں، کبھی مِٹاسکیں.....بیٹیاں انائوں جیسی ہوتی ہیں.....کبھی ہنسا سکیں، کبھی رُلا سکیں.....بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دُعائوں جیسی ہوتی ہیں.....حد سے مہرباں، بیاں سے اچھی.....بیٹیاں وفائوں جیسی ہوتی ہیں‘‘۔

بلاشبہ، جس طرح کبھی کبھی ایک تصویر، ایک مکمل کہانی ہوتی ہے۔ اِسی طرح بعض اوقات ایک شعر یا چند اشعار ہمارے خیالات، جذبات و احساسات کی ایسی عُمدہ ترجمانی کردیتے ہیںکہ بقول غالب ؎ میںنے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میںہے۔ اولاد کِسے پیاری نہیںہوتی۔ اولاد کی خاطر تو ہرنی، شیر سے بِھڑ جاتی ہے، چڑیا، سانپ سے لڑ جاتی ہے۔ وہ ہے ناں ؎ پہلے ڈرتی تھی، اِک پتنگے سے.....ماں ہوں، اب سانپ مار سکتی ہوں۔ تو اولاد تو والدین کی ایک ایسی کم زوری، دُکھتی رگ ہے کہ اس کی خاطر مضبوط سے مضبوط، بہادر سے بہادر باپ کو ریزہ ریزہ ہوتے پَل بھر نہیں لگتا، تو کم زور سے کم زور، ناتواں سے ناتواں ماں کو پہاڑ، چٹان بنتے بھی دیر نہیںلگتی۔ یوں ہی تو اولاد کو ’’آزمایش‘‘ نہیں کہا گیا اور بہ خدا، کوئی والدین کے درجے پر فائز ہوکے، ماں، باپ بننے کا درد سہہ کے تو دیکھے، بے شک اس سےبڑی آزمایش کوئی ہو ہی نہیںسکتی۔ زندگی کے سارے فلسفے، کُلیے، فارمولے، حقائق، فسانے، باتیں، حکایتیں، اصول، ضوابط، دعوے، وعدے اِک اولاد کی خوشی کے آگے مٹّی کا ڈھیر ہیں۔ سب اِک طاق میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ کوئی کتنا بڑا پہلوان ہو، عقاب کی نگاہ، شیر کا جگرا رکھتا ہو، بات اولاد کی آجائے، تو دل ایسے پگھلتا، نگاہ ایسے نیچی ہوتی ہے، جیسے کوئی کٹھ پُتلی، مٹّی، موم کا باوا ہو۔ اور اولاد میںبھی اگر بات بیٹی کی ہو، تو مائیں تو ویسے ہی اُن کی سکھیاں، سہیلیاں ہوتی ہیں۔ باپوں کے لیے بھی ان کے ہونٹوں سے نکلی اِک اِک خواہش، فرمایش کی تکمیل گویا مقصدِ حیات کا درجہ رکھتی ہے۔

اور خدا نہ خواستہ جو کبھی کسی بات پر اُن کی آنکھ بھر آئے، کوئی آنسو چھلک جائے (حالاں کہ لڑکیوں کے آنسو تو جیسے اُن کی پلکوں پہ دھرے ہوتے ہیں۔ گڑیا کا بازو ٹوٹ گیا، کلائی میںپہنی چُوڑی چٹخ گئی، دوپٹا صحیح رنگا نہ گیا، جوتے کا اسٹریپ نکل گیا، بھائی نے پونی کھینچ لی، ہاتھ سے گر کےکوئی برتن ٹوٹ گیا یا کچھ بھی نہ ہوا ہو، بھل بھل رونا تو جیسے ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے) تو بس پھر تو جیسے قیامت آگئی۔ ماں باپ کا بس نہیں چلتا کہ ’’لاڈو پَری‘‘ کے آنسو، اپنی پلکوں سے چُن لیں۔ شاید اس لیے کہ ؎ بیٹیاں زخم سہہ نہیںپاتیں.....بیٹیاں درد کہہ نہیںپاتیں.....بیٹیاں آنکھ کا ستارہ ہیں.....بیٹیاں درد میں سہارا ہیں.....بیٹیوں کا بدل نہیںہوتا.....بیٹیوں سا کنول نہیںہوتا.....خواب ہیں بیٹیوں کے صندل سے.....اُن کے جذبات بھی ہیںمخمل سے۔

تو جناب، آج ہم نے اپنی بزم، بابل کے آنگن کی ان ہی چہچہاتی چڑیوں، منمناتی بکریوں، مُسکاتی، مُسکراتی کلیوں، ننّھی پریوں، امن کی فاختائوں، چھوئی موئی سی بیٹیوں کے لیے، خاص طور پر بابل کی گلیوں سے پیا دیس سدھارنے کے سفر کی شروعات ’’عروسی ملبوسات‘‘ کے کچھ حسین و دل کش رنگ و انداز سے مرصّع کی ہے۔ ذرا دیکھیے تو، سلور، ٹی پنک، گہرے سبز، آسمانی اور خالص روایتی اور سدابہار گہرے سُرخ رنگ کے عروسی پہناووں نے پوری بزم میںکیسی آگ سی دہکا رکھی ہے۔ اوپر سے تمام تر عروسی کیل کانٹوں سے (بھاری بھرکم زیورات، سولہ سنگھار) آراستگی و پیراستگی کے سبب تو ان ’’دُلہن رانیوں‘‘ پر گویا نگاہ ٹھہرنا مشکل ہے۔ وہ ہے ناں ؎ اب انہیں اپنی ادائوںسے حجاب آتا ہے.....چشم بد دُور، دلہن بن کے شباب آتا ہے۔

والدین تو ویسے ہی اپنی شہزادیوں، مَن آنگن کی پریوں کی اِک اِک ادا پر فدا ہی رہتے ہیں اور پھر بات ہو، اُن کی زندگی کے سب سے خُوب صورت، حسین و یادگار دن، موقعے کی، تو پھر تو جو کچھ اُن کے اختیار میں نہیں ہوتا، وہ بھی کرگزرتے ہیں۔ سو، اب آپ کی نازوں پَلی، اپنے خاص الخاص دن کے لیے، اِن میں سے، جس بھی پہناوے پر ہاتھ رکھ دے، لے کر تو دینا ہی پڑے گا۔ تاکہ آپ کی بٹیا رانی آئینہ دیکھ کے خود شرما جائے۔ مہندی رَچی ہتھیلیوں سے چہرہ چُھپائے اور گُنگنائے ؎ زندگی خوابوں کی چلمن میں یوں اِٹھلاتی ہے.....جیسے سَکھیوں میںگِھری ہو، کوئی شرمیلی دُلہن۔