چین پاکستان سے الگ نہیں

October 19, 2018

کچھ دنوں سے میں بیجنگ میں ہوں ۔یہاں انٹرنیشنل کارپوریشن ڈپارٹمنٹ کےڈائریکٹر جنرل ’’پو چھینک ‘‘ سے ملاقات ہوئی ۔جنہوں نے ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والاپاور پلانٹ لگایا ہے ۔ایک دن چائنیز فارن آفس کے ترجمان کی بریفینگ میں شریک ہوا۔پریس انفارمیشن آفس کی ترجمان ’’مادام شی یان چھن ‘‘ سے تفصیلی میٹنگ ہوئی۔ چائنیز ریلوے کنسٹرکشن کارپوریشن کے وائس پریذیڈنٹ مسٹر فنگ لائے کانگ کے ساتھ تقریباً آدھا دن گزرااور بھی بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور مجھ پرکچھ عجیب و غریب انکشاف ہوئے کہ پاکستان کےا سٹیٹ بینک کے پاس اس وقت تقریباً 8.4بلین ڈالر کے ریزو ہیں جن میں 7.5 بلین ڈالر حکومتِ چین اور اُس کے مالیاتی اداروں کے ہیں ایک اور انکشاف اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہواکہ چین کی اپنی بیس سے زائد بندر گاہیں ہیں ۔اسے گرم پانیوں تک پہنچنے کےلئے گوادر یا کراچی کی بندرگاہ کی کوئی ضرورت نہیں ۔روس کے پاس بھی گرم پانی کی بندر گاہ موجود ہے جہاں سے روسی سامان ترکی پہنچتا ہے اور پھر وہاںسے پورے یورپ میں پھیل جاتا ہے۔یعنی اسے بھی گرم پانی کے سمندر کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ بندر گاہیں شنگھائی میں ہیں جو چین کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہےجب کہ شنگھائی سے گوادر بہت دور ہےکم از کم تین چار ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔جب سوویت یونین نےافغانستان میں اپنی فوجین داخل کی تھیں تو ہمیں ہر طرف سے یہی سنائی دیتا تھاکہ وہ گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے اسے اگر افغانستان میں نہ روکا گیا تو وہ کسی وقت بھی پاکستان پر قبضہ کر سکتا ہے۔ سی پیک شروع ہوا تو نون لیگ کی حکومت نے یہی کہا کہ چین کا اب سارا مال گوادر سے دنیا میں جائےگاکیونکہ یہ اسے بہت زیادہ سستا پڑے گا ۔ پہلےخشکی کے ذریعے سے چین اپنا مال یورپ بھیجتا تھا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب چین کااپنا کوئی بڑا فائدہ نہیں تو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک میں بدلنے کےلئے کیوں کوشاں ہے۔گوادر کی بندرگاہ کیوں بنارہا ہے موٹر ویز ،ریلوے لائنز کیوں بچھا رہا ہے ،بجلی پیدا کرنے والے کار خانے کیوں لگارہا ہے ۔اس سوال کا جواب بھی عجیب و غریب ملا مجھے ۔بتایا گیا کہ چینی نائب وزیر اعظم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 80کی دہائی میں پاکستان چین سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا ایک پاکستانی اکنامکس کے ماہرراحت العین خان نے چینی کابینہ کو بریفنگ دی کہ پاکستان نے کیسے ترقی کی اور چین کو کیسے ترقی کرنی ہے اس کے فارمولے پر عمل کرکے آج چین دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے مگر پاکستان ؟۔پروفیسر تھانگ منگ شن نے بتایا کہ’’ انیس سو چھیاسی ،ستاسی میں جب ہم پاکستان جاتے تھے تو وہاں سے گھڑیاں ریڈیو ،ٹیپ ریکارڈ اور دوسری الیکڑانک کی اشیا خرید کر لایا کرتے تھے ۔‘‘ چین چاہتا ہے کہ پاکستان بھی اُسی طرح ترقی کرے جیسے چین نے کی ہے۔ چین پر پاکستان کے بے شمار احسانات ہیں امریکہ سے چین کے روابط میں پاکستان نے کلیدی رول ادا کیا۔ایران اور سعودی عرب سے چین کے مراسم بھی پاکستان کے مرہون ِ منت ہیں ۔تمام اسلامی دنیا سے چین کے اچھے تعلقات میں پاکستان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔چینی صدر نے پاکستانی پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’چین پاکستان کی مدد کرنے کو اپنے آپ کی مدد کرنا سمجھتا ہے ۔‘‘ بے شک جب چین نے سی پیک شروع کیا اور چینی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری شروع کی ۔اُس وقت صورت حال یہ تھی کہ دہشت گردی کی وجہ سے دنیا کا کوئی ملک بھی پاکستان میں سر مایہ کاری کرنے پر تیار نہیں تھا ۔چینی حکومت نے اپنی کمپنیوں کو قائل کیا کہ پاکستان ہمارا دوست ملک ہے اور اسےاس وقت ہماری مدد کی ضرورت ہے ،اِس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک سے چین کے اُن علاقوں کی بھی ترقی ہو گی جو پاکستان کے ساتھ ملتے ہیں ۔وہاں بھی چینی حکومت انڈسٹری لگائے گی جس میں تیار ہونے والا سامان گوادر کی بندرگاہ سے دنیا تک پہنچے گا مگرچینی حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان میں بھی بے شمار صنعتی شہر آباد کئے جائیں ۔خاص طور پرنئے موٹرویز کے اردگرد صنعتی شہر بنائے جائیں ۔سی پیک میں گرانٹ سب سے زیادہ شامل ہے۔گوادر ایئرپورٹ بھی چینی فنڈنگ سے بنایا جارہا ہے اور بھی بہت سے پروجیکٹ چینی فنڈنگ سے مکمل کئے جارہے ہیں چین کے جو حکومتی قرضے ہیں ان کی مالیت پانچ بلین ڈالر سے بھی کم ہے ۔بجلی پیدا کرنے کےجتنے کار خانے لگائے گئے ہیں وہ ساری چینی سرمایہ کاری ہے پاکستانی حکومت صرف بجلی خریدنے کی پابند ہے۔

سی پیک سےمتعلق بھی ایک وضاحت ضروری ہے کہ سی پیک کسی روڈ کے پروجیکٹ کا نام نہیں ۔یعنی جو موٹروے کاشغر سے گوادر تک بنایا جارہا ہے سی پیک اُس کا نام نہیں ہے ۔نہ ہی نئے بچھائے جانے والے کسی ریلوے ٹریک کا نام ہے۔بے شک سی پیک ایک کاریڈور ہے مگر یہ پاکستان میں سر مایہ کاری کا دروازہ کھولنے کا مفہوم رکھتاہے راستے کا نہیں ۔سی پیک توسرمایہ کاری کا ایک منصوبہ ہے ۔کراچی سے خیبر تک،جس میں ہزاروں پروجیکٹ شامل ہیں اور اس کا واحد مقصد پاکستان میں غربت کا خاتمہ ہے ۔مجھے چین جاکر محسوس ہوا کہ ایک ترقی یافتہ اور معاشی طور پرمضبوط پاکستان چین کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ نیشنل پاورٹی ایویلیشن کے ڈائریکٹر جنرل سے بھی تقریباً دو گھنٹے ملاقات رہی اور یہی موضوع ِ گفتگورہا کہ چین نے اپنے غریب عوام کو کیسے غربت سے نکالااور ان کی حکومت اب لوگوں کی بھلائی کےلئے کیا کیا کررہی ہے ۔یہ بات تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ ان تمام ملاقاتوں میں میرے ساتھ ہارون الرشید ، شعیب بن عزیز ، سہیل وڑائچ ، خوشنود علی خان ، ارشاد عارف ،سلیم گیلانی ،مجاہد بریلوی ،نذیر لغاری ،حبیب اکرم ، بایزید اورظفر محمود بھی تھے۔

ظفر محمود ہمارے میر کارواں ہیں ۔ وہ چینیوں کی طرح چینی زبان بولتے ہیں ۔ان کی زندگی کا ایک طویل عرصہ چین میں گزرا ہے ۔چین میں وہ پاکستان کے قونصل جنرل بھی رہے ہیں ۔انہوں نے یہاں پاکستان کی طرف سے سی پیک کے ایمبیسڈر کے طور پر بھی کام کیا ہے ۔اس دورے کا اہتمام بھی انہی کے ادارے ’’انڈرا سٹیڈنگ چائنا ‘‘ نے کیا تھا ۔اس پانچ روزہ دور ے میں ہم نے جس طرح چین کو سمجھا شاید کئی سو کتابیں اس موضوع پر پڑھ کر اُس طرح نہیں سمجھ سکتے تھے ۔یہاں ہماری میزبان شینہ اورزوے تھیں ۔انہوں نے جس محبت اور خلوص سےپانچ دن ہر ہر قدم پر ہماری رہنمائی کی وہ ناقابل فراموش ہے ۔ خاص طور پر جس دن ہم دیوارِ چین دیکھنے گئے اُس دن اِن دونوں خواتین کی میزبانی چینیوں کی روایتی مہمان داری کےلئے بھی اعزاز ہے ۔ابھی سفر جاری ہے اس وقت ہم بذریعہ ٹرین بیجنگ سے شنگھائی جارہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)