کرو فر والا جن کمزور ہوگیا

October 20, 2018

فبیہ رفیع، کراچی

الہٰ دین کا چراغ نسل در نسل ہوتا ہوا جب الہٰ دین ہفتم کے ہاتھ آیا (جو ایک سیدھا سادہ انسان تھا) تو اس نے باپ کی وفات کے اگلے ہی روز چراغ زمین پر رگڑا، جس سے فضا میں دھواں پھیل گیا اور پھر اس دھویں میں سے ان کا خاندانی جن خوف ناک قہقہے لگاتا ہوا نمودار ہوا۔ اس کے بازو مشرق و مغرب کی سمت پھیلے ہوئے تھے، جب کہ قد آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ جب دھواں چھٹااس قوی ہیکل جن کی دہلا دینے والی آواز فضا میں گونجی ، ’’کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘

الہٰ دین ہفتم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کہا، ’’ذرا دوڑ کر نکڑ والی دکان سے میرے لیے ایک سانچی پان لاؤ‘‘۔

جن، کو اپنے نئے آقا کے حکم کی تعمیل میں بڑی شرم محسوس ہوئی، مگر اس نے تعمیل کی اور دوبارہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

الہ دین نے اسے حکم کا منتظر پایا تو کہا، ’’ نہانا چاہتا ہوں، بالٹی اٹھاؤ اور سرکاری نلکے سے پانی بھر کر اسے صحن میں رکھ دو‘‘۔

جن کو ،اگر چہ ایک بار پھر بڑی سبکی محسوس ہوئی ، مگر اس نے ’’جو حکم میرے آقا‘‘ کہا اور غائب ہو گیا۔

نہانے سے فراغت پا کر الہ دین نے ایک بار پھر چراغ رگڑا، جس پر ایک گڑگڑاہٹ سنائی دی اور خوف ناک قہقہے لگاتا ہوا جن نمودار ہوا۔

اس نے جھُک کر کہا, ’’کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘

الہٰ دین نے کہا، ’’ بازار سے سبزی وغیرہ لے کر آؤ اور میرے لیے جلدی سے کھانا تیار کرو، مجھے بڑی بھوک لگی ہے‘‘۔

یہ سن کر جن بہت شرمسار ہوا اور گردن جھکا کر بازار کی طرف چل پڑا۔ کھانا وغیرہ کھا کر الہٰ دین نے ایک بار پھر چراغ رگڑا، جس پر جن ایک کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا نمودار ہوا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔

الہٰ دین نے حکم دیا کہ ہمسایوں سے تھوڑی سی پتّی مانگ کر لاؤ اور چائے بناؤ۔“

یہ سن کر پسینے کے قطرے جن کی پیشانی ،پر نمودار ہوئے ، جو اس نے فوراََ ہاتھ سے پونچھے اور بادل نخواستہ حکم کی تعمیل میں مشغول ہوگیا۔ پھر یوں ہوا کہ دن مہینے اور سال گر تے گئے اور وہ اپنے آقا کی خدمت میں اسی طرح مشغول رہا۔

اس کے کپڑے دھوتا، استری کرتا، جوتے پالش کرتا، برتن مانجھتا اور نکڑ کی دکان سے اس کے لیے پان اور سگریٹ خرید کر لاتا اور پھر اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔ اس دوران جن میں ایک تبدیلی رونما ہوئی، اس کی جسامت پہلے سے بہت کم ہوگئی۔اس کا قد بھی گھٹتاچلا گیا اور اس کے قہقہوں کی گونج بھی مدھم پڑگئی۔ ایک اورتبدیلی اس میں یہ ہوئی کہ الہٰ دین کے چراغ رگڑنے پر وہ کاندھے پر رومال رکھے نمودار ہوتا اور ” کیا حکم ہے میرے آقا“ کے بجائے ”کیا حکم ہے صاحب جی“ کہتا ۔

اب جن آہستہ آہستہ اپنی پہچان بھولتا جا رہا تھا،اس کی نقاہت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ اس کا قد گھٹتے گھٹتے اپنے آقا کے قد کے برابر ہو گیا۔ اس کے بازو اب مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے نہیں تھے، بلکہ سکڑ کر اپنے آقا جتنےہی گئے تھے۔

رفتہ رفتہ اس کی کمر میں درد ہونے لگاپٹھّے درد کرنے لگے، جس کے لیے وہ باقاعدگی سے طاقت کی دوائیں کھانے لگا، تاہم وہ اب بھی اپنے ” صاحب جی“ کی خدمت میں ہمہ تن مشغول رہتا ۔ اب وہ پہلے جیسا کرّ و فر والا جن نہیں تھا، بلکہ وہ اپنی شناخت تک بھُول گیا تھا۔ اب اسے بلانے کے لیے چراغ رگڑنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ کاندھے پر رومال رکھے، دھوتی اور بنیان پہنے ایسے ہی سب کی نظروں کے سامنے پڑا رہتا ۔قد الہٰ دین کے قد سے بھی چھوٹا ہو گیا تھا۔ چناچہ اب الہٰ دین نے اسے بلانا ہوتا تو وہ اسے” اوئے چھوٹے! ادھر آؤ“ کہہ کر آواز دیتا۔

ایک دن اس نے الہٰ دین سے کہا، ” صاحب جی ! اگر آپ اجازت دیںتو میں کہیں اور کام تلاش کر لوں۔ آپ کو جو تنخواہ ملتی ہے، اس میں آپ کا اپنا گزارا بھی نہیں ہوتا۔“ الہٰ دین یہ سن کے جھینپ گیا اور پھر اس نے رضا مندی کے اظہار کے لیے ہولے سے اپنی گردن ہلائی۔

آج کل یہ جن بابو ہوٹل میں ملازم ہے اور ”چھوٹے اوئے“ کی آواز سن کر تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ایک میز سے دوسری میز کی طرف جاتا ہے ،کبھی کبھی اسے اپنا ماضی یاد آتا ہے تو اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے بازواور آسمان سے باتیں کرتا ہوا قد بڑے بڑے بادشاہوں کے محلّات کو اپنی ہتھیلی پر اُٹھا لینے والا جن ، دوبارہ جن کے روپ میں آنے کے لیے اپنی تمام قوتیں مجتمع کرتا ہے، مگر اپنی تمام تر کوشش کے نتیجے میں وہ سگریٹ کے دھویں جتنے مرغولے میں سے اپنی دکھتی کمر پر ہاتھ رکھے نمودار ہوتا ہے۔ اس پر وہ مارے ندامت کے سر جھکا لیتا ہے اور ہولے سے کہتا ہے، ” میں بڑے کرّوفر والا جن تھا، مگر میرے آقاؤں نے مجھے کم زور کر دیا۔“ پھر ایک دم سے خوف زدہ ہو کر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے کہ کہیں کسی نے یہ سن تو نہیں لیا کہ وہ کبھی بڑے کرّوفر والا جن تھا۔