بھیک مانگنا ہماری فطرت!

October 22, 2018

minhajur.rabjanggroup.com.pk

صحیح کہاجاتا ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران! ہمیشہ حکمرانوں کو برابھلا کہاجاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ان کے بھیک مانگنے کی وجہ سے ہمارا ایک ایک بچہ لاکھوں کا مقروض ہوچکا ہے۔ اور روپے کی قدر گرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقدار میں اضافہ ہوتاچلاجارہا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ بھیگ صرف ہمارے حکمراں ہی مانگتے ہیں یا ہم بحیثیت قوم اس بری عادت میں مبتلا ہیں؟ پہلے ہمارے حکمراں امداد لیا کرتے تھے کہ نومولود ملک ہے خارجی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ دوسپرپاور کی موجودگی میں ایک کی حمایت کرنے کے عوض امداد لیا کرتے تھے اور بڑے مطمئن رہتے تھے پھر افغان جنگ کے بعد صرف ایک سپرپاور رہ جانے کے بعد یہی امداد قرضوں میں بدل گئی۔ امداد(گرانٹ) وہ کل رقم ہوتی ہے جسے واپس نہیں کرنا ہوتا۔ لیکن قرضے (Aid,Loan,Assistance)کسی بھی شکل میں ہوں یہ سود سمیت واپس کرنے پڑے ہیں۔ جس میں زیادہ تر سود کی رقم اصل رقم سے تجاوز کرجاتی ہے یوں ہم قرضے کے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ جس سے بظاہر نکلنے کے امکان نظر نہیں آرہے۔ مزید کیا ہوگا وہ تو آنے والا کل ہی بتائے گا؟ لیکن اس دفعہ عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی زیارت نصیب ہوئی ،جس کے لیے رب کریم کا جتنا شکرادا کیا جائے اتنا کم ہے۔ ان مبارک مقامات پہ تقریباً ہر ملک سے مسلمان آئے ہوئے تھے ۔لیکن اس میں سب سے نمایاں پاکستانی تھے۔ جسے دیکھ کر واقعی دل خوش ہوا۔ لیکن پھر ایک چیز ایسی دیکھی کہ اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آیااور دل خون کےآنسو روپڑا۔ بحیثیت قوم کیا ہماری یہی پہچان ہے؟۔۔۔۔۔۔۔مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے نزدیک دوکانوں پہ لکھا ہوا تھا " سبیل" اتنے ریال کی۔ اس وقت ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا ۔پھرسوچا ہوگا کچھ یا لوگ " سبیل" کرواتے ہوں گے۔ مکہ معظمہ پہنچے عمرہ کی ادائیگی اور نمازسے فارغ ہوکر کھانے کے لیے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ ٹاور کے نیچے دوکانوں کے سامنے لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ بڑی حیرت ہوئی کہ ابھی تو حج کا موقع بھی نہیں ناہی زیادہ رش ہے، پھر کھانے کے لیے اتنی لمبی لائن کیوں؟جب دوکانوں کے قریب پہنچے تو پتاچلا کہ " سبیل" اس کو کہتے ہیں کہ کوئی متمول غیرملکی دوکان والے کو پیسے دے جاتا ہے اور وہ لوگوں کو ایک رول اور ایک جوس کاڈبہ بانٹتے ہیں۔ جس کو لینے کے لیے لمبی لمبی لائنیں ہر دوکان کے باہر لگی ہوئی ہیں۔ ان لائنوں کو جب غور سے دیکھا تو اس میں بڑے ہی افسوس کے ساتھ ہمارے ملک کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی اور جھنڈے کی بدولت یہ پہچان اور نمایاں ہورہی تھی ۔ شرم سے میرا براحال تھا کہ دیکھا ایک لائن سے جب مل جائے تو وہ ہی لوگ دوسری دوکان کی لائن میں لگ جاتے ہیں، جہاں جہاں سبیل بٹ رہی ہے ہر جگہ سے وصول کرتے ہیں۔ ایک جگہ لائن ختم ہوگئی اوردوکان دارنے منع کردیا کہ سبیل ختم ہوگئی تو اس سے زبردستی مانگنے لگے تو وہاںموجودعربی خاتون نے ان کے لیے پیسے دوکان دار کو دیئے کہ ان کو دے دو۔۔۔۔۔ یہ موقع تھا جب غم اور غصے سے میرا براحال تھا کہ جب آ پ لاکھوں روپے خرچ کرکے عمرہ کرنے آرہے ہیں تو چند سوروپے کا کھانا نہیں لے سکتے۔ یہ کون سی جگہ ہے بھیک مانگنے کی؟کیا حس وانا ہمارے اندر سے بالکل ختم ہوچکی ہے؟غریب اور مسکین ان کواس لیے نہیں کہاجاسکتا تھا کیونکہ ٹریول ایجنٹ کا بیگ قومی پرچم کے ساتھ لیے یہ لوگ گھوم رہے تھے ۔یعنی باقاعدہ خرچہ کرکے وہ یہاں آئے تھے تو پھر کھانے کے لیے بھیک مانگنا کیا مقصد رکھتا تھا؟ میرے بچوں نے بڑی مشکل سے میرے غصے کو قابو میں کروایا کہ یہاں غصہ نہیں کیا جاتا چھوڑ دیں ان لوگوں کو۔ لیکن میں مسلسل یہی سوچ رہا تھا کہ جب بحیثیت قوم ہی ہمارا مزاج بھیک مانگنا یا مفت خوری ہے تو حکمرانوںسے کیا شکوہ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بحیثیت قوم انا، خوداری، خودی اور عزت وناموس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں۔مطلب ہے تو صرف بھیک یا مفت خوری سے ۔۔۔۔یقیناً بڑا لمحہ فکریہ ہے ہمارے لیے۔