وزیر اعظم کا دوسرا دورئہ سعودی عرب

October 23, 2018

وزیر اعظم عمران خان شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ چکے ہیں۔ پانچ ہفتوں میں وہ دوسری مرتبہ برادر اسلامی ملک گئے ہیں جس سے پاک سعودی تعلقات کی گہرائی اور قربت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔تین روزہ سرمایہ کاری کانفرنس میں دنیا کے متعدد ملکوں سے بڑی تعداد میں مندوبین، کاروباری شخصیات اور ہائی ٹیک انڈسٹری کے نمائندے شرکت کررہے ہیں۔گزشتہ سال اس کانفرنس میں 90ملکوں سے 3800افراد شریک ہوئے تھے لہٰذا یہ دنیا کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے اور اس مقصد کے لیے بڑی کاروباری شخصیات سے رابطے قائم کرنے کا یقیناً ایک بہت اچھا موقع ہے اور امید ہے کہ وزیر اعظم اوروزیر خزانہ و وزیر تجارت سمیت پاکستانی وفد کے دوسرے ارکان اس موقع کو قومی مفاد میں بہتر سے بہتر طور پر استعمال کریں گے۔ دو دن پہلے سینئر صحافیوں سے ملاقات میں وزیر اعظم نے پاکستان سے مالی تعاون کے ضمن میں دوست ملکوں سے اچھی خبروں کی آمد کی نوید سنائی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہماری کوشش ہے کہ دوستوں سے جو تعاون ملنے کے امکانات ہیں ان کے لیے کوشش کرلی جائے تاکہ عالمی مالیاتی ادارے سے کم سے کم قرض لینا پڑے۔اس حکمت عملی کی افادیت بالکل واضح ہے اور اسی وجہ سے توقع کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں مالی تعاون کے حوالے سے بھی کوئی مثبت پیش رفت ہوسکے گی۔ تاہم وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو کسی بھی پیش رفت کے ضمن میں اس وقت تک اعلانات سے اجتناب کرنا چاہیے جب تک اس کی مکمل توثیق نہ ہوجائے۔ عجلت پسندی اکثر شرمندگی کا باعث بنتی ہے اور اس کا مظاہرہ وزیر اعظم کے پہلے دورے کے بعد سی پیک میں سعودی عرب کی اسٹرٹیجک پارٹنر کی حیثیت سے شرکت، دس ارب ڈالر کے مالی تعاون اور عمرہ فیس کے خاتمے وغیرہ کے دعووں کی شکل میں ہوچکا ہے جو بعد میںد رست ثابت نہ ہوئے لہٰذا اب ایسی کوئی غلطی دہرائی نہیں جانی چاہیے۔