ایک اور کمسن ملازمہ پر تشدد

October 23, 2018

اسلام آباد میں کمسن طیبہ اور ملتان میں گیارہ سالہ شبانہ سمیت منظر عام پر دانستہ طور پر نہ لائے جانے والے دوسرے کم سن گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات کے بعد حال ہی میں راولپنڈی کے پوش علاقے میں چائلڈ لیبر پرعائد پابندی کے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کنزیٰ شبیر نامی گھریلو ملازمہ پر میاں بیوی ڈاکٹر محسن ریاض اور عمارہ ریاض کا تشدد انتہائی گھنائونی حرکت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس واقعہ پر قانونی کارروائی کہاں تک مؤثر ہو سکے گی کیونکہ ملزمان نے مبینہ طورپر قانون سے بچنے کے لئے اپنا ہوم ورک مکمل کر رکھا ہے اور اس کے لئے متاثرہ بچی کے باپ سے بیان حلفی میں لکھوایا گیا ہے کہ کنزیٰ ان کے گھر پڑھنے لکھنے جاتی تھی، بھاگنے کی کوشش میں گیٹ پھلانگتے ہوئے اسے چوٹ لگی جبکہ متعلقہ چائلڈ پروٹیکشن افسر کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق دونوں میاں بیوی نوکری پر جاتے وقت کنزیٰ کو کمرے میں بند کر کے باہر سے تالا لگا کر جاتے تھے، وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بیلٹ، پائپ اور چھری سے تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ سی پی او راولپنڈی نے معاملے کو درست طریقے سے ہینڈل نہ کرنے پر متعلقہ تھانے کے اے ایس آئی کو معطل کیا ہے۔ چائلڈ لیبر پر عائد پابندی کے قانون کی روشنی میں والدین پر لازم ہے کہ بچوں کو مشقت پر نہ بھیجیں لیکن یہ نہایت ستم ظریفی کی بات ہے کہ اکثر والدین خود محنت مزدوری سے بچنے کیلئے اپنے بچوں کو دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں اس لحاظ سے بچوں کو مشقت کیلئے بھیجنے والے والدین کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ بات باور کرانا ضروری ہے کہ اس غیر انسانی رویے کا تدارک آئین پاکستان کی رو سے حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے تحت سوشل سیکورٹی کفالت کا نظام موثر بنایا جائے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے متاثرہ خاندان کی قانونی ومالی معاونت فراہم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ مجرموں پر قانون کی گرفت ہر گز ڈھیلی نہیں پڑنی چاہئے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998