ٹراٹسکی اسٹالن دنگل اور امریکہ

October 25, 2018

میرا نیویارک یونیورسٹی لائبریری میں دن کا دوسرا اور تیسرا پہر صوفیوں کے سنگ گزرا۔ کبھی ابن العربی سے تو کبھی بایزید بسطامی سے کبھی رومی سے کبھی بلھے شاہ سے تو کبھی عہد جدید کے صوفیا ادریس شاہ، بابا محی الدین اور حضرت عنایت شاہ کے درباروں میں اسطرح حاضری لگی کہ لائبریری کی چوتھی منزل کا پورا حصہ صوفیوں اور مسٹزم سے متعلق کتب کی محض ورق گردانی میں گزرا۔ کئی کتابوں میں امیر خسرو کی یہ سطر مشترک نظر آئی جسکی نقل کئی صوفیا پر کام کرنے والے مصنفوں اور محققوں نے کی ہے پھر وہ بھارتی نژاد آسٹریلوی اسکالر سید اطہر رضوی ہوں کہ دہلی میں نظام الدین اولیا سے پاکپتن سے لیکر ملتان اور سیہون تک صوفیوں پر کام کرنے والی روسی عالمہ اینا سووروا ہوں کہ سرائیکی زبان بھی جاننے والے مشرقی علوم کے برطانوی پروفیسرکرسٹوفر شیکل ہوں:

’’گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈالے کھیس‘‘

لیکن جب میں صوفیوں کی ایسی سنگت سے باہر نکلا تو بقول صوفی سرمد شر کی رات ابھی باقی تھی لیکن شام یونیورسٹی کی دس منزلہ عمارت کے باہر کچھ امریکی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ’سائیڈ واک‘( کہ امریکہ میں فٹ پاتھ کو سائیڈ واک کہیں، لفٹ کو ایلی ویٹر، بسکٹ کو ککی اور ایسے کئی الفاظ۔ اگر بھگت کبیر آئے امریکہ تو حیران رہ جائے جس نے کہا تھا ’’رنگی کو نارنگی کہیں کھیر پڑے کو کھویا۔‘‘ کبیرے کو بھی رونے کو بہت مل جائے گا اور کھونے کو کچھ نہیں)۔

تو یہ یونہی سر راہ مل جانے والے نوجوان خود کو ٹراٹسکائیٹ کہلاتےجو اپنا تعلق انٹرنیشنل یوتھ فار سوشل جسٹس نامی تنظیم سے بتلاتے تھے۔ دوسرا تعارف وہ اپنا انٹرنیشنلسٹ سوشلسٹ آرگنائزیشن سے بتلاتے تھے۔

’’تم کون ہو۔ یہ بدھوں والا تم نے کلائی میں بریسلٹ بھی باندھ رکھا ہے، ستائیس صندل کے دانوں والا ہندو دھاگہ بھی اور یہ اسلامی کیلیگرافی بھی۔‘‘ شمالی ہندوستان کے بابے نے پوچھا۔ ’میں سب ہوں‘ میں نے کہا:

کبیرا بیچ بازار کھڑے سب کی مانگے خیر

نہ کاہو سے دوستی۔ نہ کاہو سے بیر

میں ان نوجوانوں کو کیا نام دوں امریکہ کے صوفی یا سوشلسٹ۔ سرد جنگ تو کب کی ختم ہوچکی۔ لیکن یہ نوجوان کیوں اب بھی لیون ٹراٹسکی اور اسٹالن کو دنگل میں اتارے ہوئے ہیں۔ اسٹالن کمیونسٹوں کا ضیا الحق تھا۔

یہ نوجوان ٹراٹسکی کی اسٹالنزم کے مخالف جنگ پر اس شام کلاس لگا رہے تھے جس کی وہ راہگیروں کو دعوت دے رہے تھے۔ مجھے ان نوجوانوں کے بارے میں تجسس تھا۔ میں قریب سے دیکھنے اور سننے کو ان کی ٹراٹسکی کی اسٹالنزم کے خلاف جنگوں پر کلاس میں چلا گیا جو نیویارک یونیورسٹی کی نویں منزل پر تھی۔

ساری دنیا کے کامریڈوں کی طرح یہاں بھی انقلاب کا یہ ہراول دستہ بمشکل کوئی درجن بھر لوگوں پر مشتمل تھا۔ کھاتے پیتے مڈل کلاس، یہاں امریکی مڈل کلاس معنی کلفٹن و ڈیفنس کے پوش علاقوں میں رہنے والی سفید فام امریکی بچیاں ۔ کچھ نے توجان بوجھ کرا پنے کپڑوں پر چشتیاں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ پرولتاری لگیں۔ ایسا لگا کہ میں کراچی میں جریدے ارتقا والوں میں آکر بیٹھا ہوں یا پھر لاہور میں کل کے کامریڈ لخ پاشی کے انقلابیوں کے اڈے پر۔ ان میں ایک گُرو لگتا مصدق سانول جیسا کردار بھی تھا۔ جو کہ ایسی انقلابیوں کی چوکڑیوں کے پیچھے اصل دماغ ہوتا ہے۔

ان انقلابی نوجوانوں کی آنکھوں میں وہی چمک ہاتھوں کا وہی تھیٹریکل انداز اور چہرے کا وہی لا ابالی پن۔ وہی اصطلاحات، الفاظ و بیانیہ۔ ٹراٹسکی کے بقول انکے فورتھ انٹرنیشنلسٹ کو اب اسی سال ہونے کو آئے۔ بات یورپ میں انقلاب فرانس سے شروع ہوتی جرمنی، ہالینڈ، فن لینڈ، روس، منگولیا پھر چین کیوبا کے انقلابات تک آکر اس کلاس لینے والی لڑکی کے لیکچر پر پہنچی۔ پھر نیو میکسیکو میں روس سے جلاوطنی میں آکر رہنے والے ٹراٹسکی کا اسٹالن کے ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل۔ ہتھوڑے سے۔ جس کی آواز سندھ کے انقلابیوں کے دل پر بھی چوٹ کی طرح لگی۔

میکسیکو میں ٹراٹسکی

ماتھا

ہتھوڑا۔

شیخ ایاز نے ایک ہائیکو لکھا تھا۔ نیویارک کے یہ نوجوان بھلا روزا لکسمبرگ کا ذکر کیسے بھول سکتے تھے۔ مجھے میکسیکو کی پوری دنیا میں آئیکونک بنی مصورہ فریدہ کاہلو یاد آئی جسکا معاشقہ ٹراٹسکی سے چلا تھا۔ شاید انکی آپس میں شادی بھی ہوئی تھی جو پھر نہ چل سکی۔

یہ نو جوان بار بار مزدور طبقے کے عالمی اتحاد کی بات کررہے تھے۔ اور لینن ٹراٹسکی بھائی بھائی کہہ رہے تھے۔ لینن کی وہی کتاب ’کیا کیا جائے‘ کوپاور پوائنٹ پر دکھایا جانا۔ میں نے ان سے پوچھا کیا تم ہمارے طرف کے ٹراٹسکائیٹ دانشور طارق علی اور اسکی تصنیفات سے واقف ہو؟ کیونکہ بچپن سے ہم تو دو ٹراٹسکائیٹ سنتے آئے تھے ایک طارق علی اور دوسرا لال خان۔

’ہاں طارق علی سے واقف ہیں لیکن ان سے ہمیں بڑے اختلافات ہیں‘ ان امریکی نوجوان انقلابیوں کے گرونے کہا۔ مجھے رسول بخش پلیجو کی بات یاد آئی کہ بقول انکے انہوں نے ٹراٹسکی پر ایک کتاب پڑھی تھی جن میں ایسی دستاویزات دی گئی تھیں کہ اصل میں ٹراٹسکی برطانیہ کے جاسوسی ادارے ایم آئی فائیو کا تنخواہ دار تھا۔ پلیجو خود مائو نواز اسٹالنسٹ تھا، اتنا راسخ کہ بستر مرگ پر بھی اسٹالن پر ساحر لدھیانوی اور مخدوم محی الدین کی شاعری پڑھتے اور گنگناتے رہے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ اپنے ہی ملک کے تیس لاکھ لوگوں کو فاقے سےمارنے والا کسی کا ہیرو کیسے بن سکتا ہے۔ دنیا بھر کے انقلابیوں کی طرح ان امریکی نوجوان انقلابیوں میں بھی انکی ناپسند کے سوال کرنے پر انکو غصہ نہیں تو ذرا چڑ ضرور لگتی تھی۔

پھر انہوں نے شاید ٹھیک کہا کہ دنیا بھر میں شدت پسند پارٹیاں جیت کر آ رہی ہیں۔ جرمنی میں ایف ڈی اے جو کہ نازیوں کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ۔ میں نے سوچا بھارت میں نریندر مودی اور پیارے پڑھنے والو تمہارے ہاں؟

ٹراٹسکی اور اسٹالن کے دنگل سے باہر آیا تو بارش تھم چکی تھی۔ لیکن اب تک اندر وہی بارش برس رہی تھی جو بس خسرو کی دو سطروں نے بادل بن کر برسائی تھی۔

گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈالے کھیس

چل خسرو گھر اپنے رین بھئی چھا دیس

میں گھر لوٹ رہا تھا۔ اس ٹرین پر سیاہ فام عورت اپنےبچے کو پنوڑے میں لیکر بھیک مانگ رہی تھی۔ ایک وہیل چیئر پر ہسپانوی شخص بھی جو ایک ٹانگ سے معذور تھا جسکی گردن کے ایک طرف ٹیٹو بنے تھے اور میری منزل پر چھوٹی ریڑھی پر فروٹ بیچنے والی لاطینی عورت پولیس والوں کو آتا دیکھ کر تیزی سے ریڑھی سمیت بھاگ کر نکل رہی تھی۔ اور ایک پاکستانی لاوارث بزرگ اسی اسٹیشن کے ایک سے دوسرے کونے پر بھیک مانگ رہا تھا۔ مجھے یاد آیا نوجوان انقلابی اپنی کلاس میں کہہ رہے تھے کہ انتظامیہ اور محنت کش طبقہ حالت جنگ میں ہے۔ اور ہاں اسی ٹرین پر میرے ساتھ بیٹھا ہوا ایک امریکی اپنے لیپ ٹاپ پر فلم دیکھ رہا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)