حکومت اور مذہبی انتہاپسند

November 13, 2018

گل وخار … سیمسن جاوید
آسیہ بی بی کی رہائی سے چند ہی دن پہلے میری پاکستان میں مقیم ایک عزیزسے گفتگو ہوئی ۔اس نے اپنے کاروبار کے بارے میں بتانے کے بعد مجھے نئی لگژری کار دکھائی جو اس نے کچھ دن پہلے ہی خریدی تھی ۔میں اس کی کامیابیاں سن کر خوش ہو رہا تھااور اس کی تعریف کر رہاتھا۔وہ اپنی دلیرانہ خوبیوں اور فلاحی کاموں کی بدولت سوسائٹی میں یکساں مقبول ہے وہ بے حد افسردگی سے کہنے لگا کہ پاکستان میں سب کچھ ہونے کے باوجود کرسچن ہونے کی بنا پر ہمارے دلوں میں جو خوف وہراس بیٹھ گیا ہے اس کا کیا کریں۔کچھ توقف کے بعد میں نے گو مگو کیفیت میں اس سے پوچھا ۔کیا کہہ رہے ہو کیسا خوف و ہراس؟ وہ کہنے لگاکہ یہاں ایک نکمے سے نکمہ بندہ بھی دشمنی نبھانے یا بلیک میلنگ کی غرض سے اگر ہم پر جھوٹا الزام لگا دے کہ اس نے توہین کی ہے تو ہماری برسوں کی محنت اور وقار سب کچھ لمحوں میں برباد ہو جاتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ آپ خوش قسمت ہو جو انگلینڈ میں رہتے ہو۔ آپ کو اس قسم کا کوئی خوف و ہراس یا ٹینشن تو نہیں ۔ کوئی شخص آپ کے مذہب یا رنگ و نسل یا ملک کی بنیاد پر آپ پر اس قسم کا جھوٹا الزام لگا دے گا۔ آپ کی ذات یا املاک کو نقصان پہنچائے گا۔کم از کم آپ ان خدشات سے تو آزادہو ۔ہماراملک اور معاشرہ مذہبی شدد پسندوں کی وجہ سے اخلاقی ،معاشرتی اور سماجی طور پر زوال پزیر ہوگیا ہے ۔محبت اور اخوت تو جیسے ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو ہماری ترقی اور ہمارے وجود کیلئے خطرہ بن گئیں ہیں اور ہماری مجموعی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔عدالتوں کو اپنے تابع کرنے یا قانون میں ترمیم کیخلاف توڑ پھوڑ ،جارحانہ احتجاج اوردھرنے کی دھمکیاں دے کر زندگی کا پہیہ جام کر دینا ان شدد پسندوں کا معمول بن گیا ہے۔ حکومتِ وقت مجبوراً ان مذہبی انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبو ہو جاتی ہے۔ایسی صورت میں لوگ ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کوئی نہیں چاہتا کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر دیارِ غیر میں آباد ہو لیکن جو خوف کے سائے میں ہوگا اور جس کے سر پر ہر وقت موت کی تلوار لٹکی ہو وہ تو اپنے لئے کوئی محفوظ جائے پناہ ڈھونڈے گا۔یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک کے ستائے ہوئوں کو یہاں آ کر سکون محسوس ملتا ہے وہ اپنی زندگی کی خواہشات ، اپنے عزیز و اقارب اور وطنِ عزیر کو تیغ کر دیتے ہیں تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دے سکیں اتنا بڑا المیہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے انہیں ہلاکت خیزدہشت گردانہ اور فرقہ ورانہ حملوں میں جانی نقصان کا سامنا ہے توہین رسالت کی لٹکتی تلوار ان کی گردنوں پر رکھ دی گئی ہے۔عدلیہ کو فیصلہ کرنے دینے کی بجائے لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں خون و خشت کے علاوہ بستیوں کو جلادیا جاتا ہے تو اقلیتیں ملک سے ہجرت کرنے پرمجبور کیسے نہ ہوں۔ آسیہ بی بی جو ساڑھے آٹھ سال سے توہین رسالت کے الزام میں جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہی تھی۔ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے اسے سزائے موت سنادی تھی۔8سال کے اس لمبے عرصے میں دنیا بھر کے انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والوں نے اس کی رہائی کی کوششیں کیں۔ پاکستان میں اور پوری دنیا کے مسیحیوں نے دعائیں مانگیں اور روزے رکھے ۔ بالآخر سپریم کورٹ نے اسے بے گناہ پاتے ہوئے رہائی کا فیصلہ سنا دیا۔سپریم کورٹ کا آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ یہ ایک واحد فیصلہ ہے جسے اس پس منظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اب پاکستان میں کم از کم مذہبی انتہا پسندی کی آلودہ فضا اور خوف و ہراس میں کمی آئے گی اور بہت سے بے گناہ توہین کے جھوٹے الزامات اور اس قانون کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائیں گے، کسی کو جھوٹا الزام اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جرأت نہ ہوگی یاد رہے کہ ماضی میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی اسی قانون کے خلاف آواز بلندکرنے کی پاداش میں شہادت پا چکے ہیں ۔ لیبک یارسول اللہ پہلے ہی انتباہ کر رہی تھی کہ اگر عدالت نے آسیہ بی بی کو رہا کر دیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ خوامخواہ حفاظتی انتظامات اور کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی کوئی منصوبہ بندی نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں کتنی افراتفری اور زندگی جام ہو کر رہ گئی تھی ۔جانی نقصان بھی ہوا اور پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی الگ ہوئی بقول آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کے آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔وہ ملک دشمن نہیں اور نہ ہی اس نے کوئی مالی کرپشن کی ہے۔رہی بات مقدمے کے دوبارہ نظر ثانی کی تو جب توہین کے اس مقدمے میں جان ہی نہیں تو اس پر نظر ثانی کیسے ہو سکتی ہے۔اس کے برعکس توہین کے مجرم کے ساتھ دوسرا المیہ یہ ہے کہ چاہے عدالت اسے بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کر دیتی ہے پھر بھی وہ اپنے ہی ملک میں عزت کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس کو اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کیلئے کسی دوسرے ملک میں پناہ لینا پڑتی ہےسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک حکومت ، حکومتی ادارے اور انصاف مہیا کرنے والے مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے رہیں گےکب تک بے گناہ اس قانون کی بھینٹ چڑھتے رہیں گےکب تک اقلیتیں دوسرے ملکوں میں سیاسی پناہ ڈھونڈتی رہیں گی اور کب تک لوگ اپنے ہی ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔پچھلے بیس سال میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں پچھلے پچیس سال میں ساٹھ سے زیادہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی قرار دیا ہے کہ ذاتی رنجشوں اور حتیٰ کے جائیداد کے تنازعات میں بھی توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ توہین مذہب کا یہ قانون آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس میں بریت کے بعداب دوبارہ سرخیوں میں ہے۔