طاہر داوڑ قتل کی انکوائری

November 18, 2018

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پوش علاقے سے ایس پی رورل پشاور سرکل طاہر خان داوڑ کا اغوا اور اندوہناک قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے جو آنے والے دنوں میں سیکورٹی کے حوالے سے ہر شخص کے ذہن میں ابھر سکتا ہے۔ اغوا کے تیرہ روز بعد ہمسایہ ملک افغانستان کے صوبہ ننگر ہار سے مغوی کی مسخ شدہ نعش برآمد ہونا، اس دوران اس پولیس افسر پر کیا گزری، ملزمان کون تھے اور اس اغوا اور قتل کے پیچھے کیا مقاصد تھے، یہ سوالات شہریوں اور حکام کے ذہنوں میں پیدا ہونا فطری بات ہے، جس کے پیش نظر چیف کمشنر اسلام آباد نے سات رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی ہے۔ اس میں پولیس آپریشن، سی آئی ڈی، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی کے نمائندے شامل ہیں۔ یقیناً یہ ٹیم ہر زاویہ سے تحقیقات کرکے اصل حقائق تک پہنچنے میں مدد دے گی۔ طاہر خان داوڑ ایک نڈر پولیس آفیسر تھے جنہوں نے دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشن کئے چند روز قبل ان کے ہاتھوں افغانستان سے آئے کچھ دہشت گرد پکڑے جانے کی بھی اطلاعات ہیں، جس کے بعد انہیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کی حالیہ جائے تعیناتی میں وہ تمام قبائلی علاقے شامل ہیں جو ماضی میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں رہی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعہ سے لاتعلقی ظاہر کی جبکہ افغانستان میں خراسان گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم یہاں اصل مسئلہ ایک ذمہ دار، نڈر اور ایسے پولیس افسر کا قتل ہے جس نے اب تک ملنے والے تمام اہداف بخوبی اور بڑی ذمہ داری سے پورے کئے۔ اس واقعہ کے بعد ملزموں کا بڑا مقصد سیکورٹی اداروں میں سراسیمگی پھیلانا ہی ہو سکتا ہے، جسے ہر قیمت پر ناکام بنانا ضروری ہے۔ امیدِ واثق ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں نہ صرف ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد ملے گی بلکہ سیکورٹی اہلکاروں کی حفاظت کو بھی انتہائی فول پروف بنایا جا سکے گا۔