کرتار پور راہ داری منصوبہ، قیامِ امن کی خواہش یا کچھ اور....؟؟

December 02, 2018

گزشتہ ماہ کے آخری عشرے میں بھارتی کابینہ نے اپنی سرحد کے قریب پاکستان کی سر زمین پر واقع سِکھ مذہب کے بانی، بابا گرو نانک دیوجی کی جائے سکونت اور آخری آرام گاہ، گوردوارہ دربار صاحب تک بھارت کے سِکھ یاتریوں کو رسائی دینے کے لیے کرتارپور سرحد کھولنے اورخصوصی راہ داری کی تعمیر کی منظوری دی، تو پاکستان نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اسے دونوں ممالک کے درمیان امن کے قیام اور کشیدگی میں کمی کی خواہش مند لابی کی فتح قرار دیا۔اس موقعے پر پاکستان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ درست سمت کی جانب اٹھایا جانے والا یہ قدم اہم ہے اور ایسے اقدامات سے سرحد کی دونوں جانب امن اور دانائی کی باتیں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی، لیکن اس اہم فیصلے اور فریقین کی جانب سے خوش کُن جذبات کے اظہار کے باوجود بھی کئی خدشات بہ دستور موجود ہیں اور یہ بلاوجہ نہیں، بلکہ ٹھوس شواہد اور زمینی حقائق کے پیشِ نظر ظاہر کیے جا رہے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی مسلسل پیش کش کے باوجود بھارت نے ابھی تک اس حوالے سے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ دونوں ممالک کی جانب سے فارن سیکریٹریز کی سطح کے مذاکرات پر آمادہ ہونے کے باوجود یہ سلسلہ اچانک ہی بھارت کی جانب سے ترک کر دیا گیا تھا، جو کئی سال گزرنے کے باوجود بھی تاحال بحال نہیں ہو سکا۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ، مخدوم شاہ محمود قریشی اور سُشما سوراج کے درمیان ملاقات طے ہو چُکی تھی، لیکن بھارت کی جانب سے اُسے بھی عین موقعے پر منسوخ کر دیا گیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے رُکن ممالک پر دبائو ڈال کر انہیں علاقائی ممالک کی تنظیم، ’’سارک‘‘ کےاسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا اوراس کے ساتھ ہی بھارت نے خود بھی اجلاس کا بائیکاٹ کر کے سارک کے ایجنڈے کو سبوتاژ کیا۔ نیز، سربراہی اجلاس کے مقاصد کو زبردست نقصان پہنچایا۔ بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کی بحالی کے لیے ہمیشہ دہشت گردی کا موضوع پیشگی شرط کے طور پر رکھا اور پاکستان نے آخر میں اس پر بھی آمادگی ظاہر کر دی، لیکن بھارت اپنی شرائط پر بھی مذاکرات پہ آمادہ نہیں ۔سو، ایسے میں ذہنوں میں ان خدشات و سوالات کا پیدا ہونا فطری سی بات ہے کہ آخر بھارتی کابینہ نے سِکھ یاتریوں کے لیے گوردوارہ دربار صاحب تک خصوصی راہ داری کی تعمیر کی منظوری کیوں دی؟ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارت کی حُکم راں جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی سِکھ مذہب کے پیروکاروں میں کچھ زیادہ مقبول نہیں اور بھارتی پنجاب میں صرف دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، کانگریس اور اکالی دَل۔ بھارتیہ جتنا پارٹی ہمیشہ اکالی دَل کے ساتھ اتحاد کرتی ہے اور اس کی حکومت میں جونیئر پارٹنر کے طور پر شامل ہوتی ہے۔ اس لیے محض دکھاوے اور سِکّھوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے بی جے پی کے لیے یہ فیصلہ کسی بڑی سیاسی منفعت کی حیثیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا، مودی سرکار کی جانب سے اس فیصلے کے پیچھے کچھ ، بلکہ بہت کچھ دکھائی دیتا ہے اور اسی طرح جس انداز سے پاکستان کی قیادت نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، اس کے پیچھے بھی کچھ ایسا ہی ممکن ہے۔

عام تاثر تو یہی ہے اور پاکستانی تجزیہ کار بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں پارلیمانی انتخابات محض 5،6ماہ کی دُوری پر ہیں اور اس عرصے میں مودی سرکار اس فیصلے کو سیاسی طور پر کیش کروانا چاہے گی، کیوں کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے گوردوارہ دربار صاحب تک راہ داری کی تعمیر کی منظوری کی گیند بھارت کے کورٹ میں پھینک دی تھی۔ اگر بھارت اس سلسلے میں پیش رفت نہ کرتا، تو پاکستان کے پاس یہ واضح مؤقف تھا کہ ’’ہم نے تو نہ صرف پہل کی تھی، بلکہ اسلام آباد میں بھارتی پنجاب کے وزیر اور سابق کرکٹر، نوجوت سدھو کو ہمارے فوجی سربراہ نے گلے لگا کر کرتار پور بارڈر کھولنے کی یقین دہائی بھی کروائی تھی ، جب کہ آپ نے سدھو کو قوم مخالف اور غدّار سمیت نہ جانے کیا کیا کہا تھا۔‘‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب چند دنوں میں نہیں ہوا، بلکہ اس کے پس منظر میں ’’بیک چینل ڈپلومیسی‘‘ کی کاوشیں تھیں، جو رنگ لائیں اور اسے ابتدائی پیش رفت بھی کہا جا سکتا ہے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان روابط کی بحالی کے لیے ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کی بہ جائے ’’مذہبی سفارت کاری‘‘ سے آغاز کیا گیا ،تو شاید اس میں کچھ برکت پڑ جائے۔

عمران خان کی بہ طور وزیرِاعظم حلف برداری کے موقعے پر نوجوت سنگھ سدھو، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے معانقہ کرتے ہوئے

مذہبی حوالے سے مقدّس مقامات تک رسائی اور وہاں اپنے عقیدے کے مطابق رسوم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دعائیں اور مَنّتیں مانگنا، تمام مذاہب کے پیروکاروں کی خواہش ہوتی ہے اور دُنیا کے مختلف مذاہب میں اس حوالے سے دِل چسپ اور عجیب و غریب واقعات بھی عام ہیں۔تاہم، ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں اور قیام کے بعد پاکستان کے حصّے میں آنے والے ہندو اور سِکھ مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں سے کوئی قابلِ رشک سلوک اختیار نہیں کیا گیا ،بلکہ مذہبی منافرت کی آڑ میں ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کے تقدّس کو بھی پامال کیا گیا۔ تاریخی بابری مسجد کے انہدام کا معاملہ ہو یا پاکستان میں مندروں کی ویرانی اور خستہ حالی کی شکایتیں، ایسے تمام واقعات کا پس منظر انسانوں کی باہمی نفرت کا اظہار بھی ہے۔ نفرت اور مذہبی منافرت کی اس فضا میں گزشتہ دنوں بھارت نے اپنی ریاست، پنجاب کی سرحد کے قریب پاکستان کے علاقے میں واقع گوردوارہ صاحب تک سِکھ یاتریوں کو رسائی دینے کے لیے ایک خصوصی راہ داری کے قیام کی منظوری دی، تو یہ معاملہ ہندوئوں اور سِکّھوں کے درمیان تھا۔ اس راہ داری کی تعمیر سے بھارتی سِکّھوں کو سہولت فراہم کرنا مقصود تھا، جو پاکستانی علاقے میں واقع ہے۔ کرتار پور میں واقع گوردوارہ دربار صاحب بھارتی سرحد سے محض چند کلومیٹر کی مسافت پر ہے اور سیال کوٹ کے ضلع، نارووال کی حدود میں واقع اس گوردوارے تک پہنچنے کے لیے لاہور سے تقریباً تین گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور ایک دوسرے کے بارے میں پائے جانے والے خدشات نے اس سفر کو طویل بنا رکھا ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے یہ صورتِ حال برقرار ہے۔ کرتار پور میں واقع گوردوارہ دربار صاحب پاکستان میں سِکّھوں کے دیگر مقدّس مقامات، پنجہ صاحب، حسن ابدال اور جنم استھان، ننکانہ صاحب کے برعکس دونوں ممالک کی سرحد کے قریب ترین مقام پر واقع ہے اور بھارت میں مقیم ڈیرہ دربار صاحب کے درشن کے خواہش مند دُوربین کے ذریعے سرحد پر کھڑے ہو کر ہی اس کی دید کی خواہش پوری کر لیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انڈین بارڈر فورس نے سرحد پران کے لیے ایک طاقت وَر دُور بین بھی نصب کی ہے، جہاں سے دیدار کرنے والے عبادات بھی کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصّے میں آیا، لیکن حالات کے پیشِ نظر درشن کرنے کے خواہش مندوں کی یہاں تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ اس لیے کئی سال تک یہ گوردوارہ بالکل ویران رہا اور اس کی حالت مخدوش ہو گئی ، لیکن تقریباً 20سال قبل گوردوارے کو کھول کر اس کی صفائی اور تزئین و آرایش کی گئی، تو اس کے باوجود بھی بھارت میں سکونت پزیر 2کروڑ کے لگ بھگ سِکھ زائرین کو یہاں کا ویزا نہیں ملتا ، البتہ دیگر ممالک سے، جن میں کینیڈا سرِ فہرست ہے، سِکھ زائرین یہاں آ کر عبادت کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی موزوں ہو گا کہ جہاں کرتار پور کا گوردوارہ سِکھوں کے لیے انتہائی مقدّس مقام ہے، وہیں مسلمان بھی سِکھ مذہب کے بانی، بابا گرونانک کی اس رہایش گاہ اور جائے وفات کو ان کی انسان دوست تعلیمات کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔بابا گرونانک نے اپنی70برس پر محیط زندگی کو دُنیا بَھر میں گھوم کر گزارا۔ تاہم، اپنی زندگی کا طویل قیام انہوں نے کرتار پور ہی میں کیا، جو 18سال پرمحیط ہے اور پھر یہیں پر سورگ باش ہوئے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ہر سال بابا گرونانک کی جائے پیدائش، ننکانہ صاحب کی زیارت کے لیے پاکستان آنے والے سِکھ زائرین کی محدود تعداد کو کرتار پور کا ویزا دیا جاتا ہے۔

گوردوارہ کرتارپور کی تاریخ

بھارت نے سِکھ مذہب کے بانی، بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن کی تقریبات اندرونِ مُلک کے علاوہ بیرونِ مُلک بھی دُھوم دھام سے منانے کا فیصلہ کیا ہے اوراس موقعے پر بھارت کے علاوہ دُنیا بَھر سے ان کی آخری آرام گاہ، کرتارپور آنے والے سِکھ یاتریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور خصوصی راہ داری کی تعمیر کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ۔اسلام آباد میں موجود مقامی ذرایع کے مطابق، اس بات کا فیصلہ بہت پہلے کرلیا گیا تھااور پاکستانی فوج کے سپہ سالار، جنرل قمر باجوہ سے سابق بھارتی کرکٹر اور بھارتی پنجاب کے وزیر، نوجوت سدھو کی وزیرِاعظم ،عمران خان کی تقریبِ حلف برداری میں ملاقات اور اس موقعے پر ان کی جانب سے پاکستانی آرمی چیف سے سِکھ یاتریوں کے لیے کرتارپور تک رسائی کے لیے آسانیاں فراہم کرنے کی درخواست محض ایک اتفاق تھا، جوبعدازاں دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کا سبب بن گیا ہے ۔ان ہی ذرایع کے مطابق ، باباگرونانک کی 550ویں سال گرہ کے موقعے پر منعقدکی جانے والی تقریبات میںپاکستان بھی بھرپور انداز سے شرکت کرے گا ۔ یادرہے کہ بابا گرونانک اپنی تعلیمات کے سبب مسلمانوں کے لیے بھی انتہائی قابلِ احترام ہیں اور آج بھی سِکّھوں کے ساتھ، قابلِ ذکر تعداد میں مسلمان بھی گوردوارہ کرتارپور میں ان کی آخری آرام گاہ پر جاتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بابا گرونانک کی آخری آرام گاہ کے بیرونی احاطے میںتحریر ہے کہ ’’ یہاں کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ‘‘تاریخ کے مطابق، 1539ءمیں جب بابا گرو نانک کا دیہانت ہوا، تو مقامی سِکّھوں اور مسلمانوں میں ان کی آخری رسومات کے حوالے سے تفرّقہ پڑ گیا۔ دونوں اپنی اپنی مذہبی روایات کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتے تھے۔ گرچہ اس حوالے سے کئی اور متنازع روایات بھی موجود ہیں، لیکن سِکّھوں اور مسلمانوں کی مقامی آبادی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آخری لمحات میں بابا گرونانک کا جسدِ خاکی چادر کے نیچے سے غائب ہوگیا تھا اور اس کی جگہ مقامی آبادی کو کچھ پُھول ملے تھے ۔اس کے علاوہ یہ بات بھی تاریخ میں درج ہے کہ بابا جی کی میّت کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک حصّہ مسلمانوں نے اپنے طریقۂ کار کے مطابق دفنایا، تواس کے ساتھ ہی دوسرا حصّہ سِکھوں اور ہندوئوں نے اپنے مذہبی طریقے سے ۔اور اسی مقام پرگوردوارہ کرتارپورتعمیر کیا گیا۔