کٹّے اور ککڑی کی بحث سے آگے ملک کو درپیش سنگین مسائل!

December 01, 2018

اسلام آباد :… وزیراعظم عمران خان کے کٹّے اور ککڑی (بیل اور دیسی مرغی) کی افزائش پر توجہ مرکوز کرکے ملک کے مویشیوں کے کاروبار کو فروغ دینے کے ویژن پر اگرچہ مذاق کے طور پر بحث کی جا رہی ہے لیکن سنجیدگی سے دیکھیں تو ملک کے زمینی حقائق پی ٹی آئی حکومت کے وعدوں اور پالیسیوں سے بہت دور ہیں۔ جس وقت عمران خان ملک میں سیاحت کے فروغ کے خواہشمند ہیں اس وقت اس نمائندے کے ایک غیر ملکی دوست (جو پاکستانی خاتون کے شوہر ہیں) نے اس نمائندے سے جمعہ کو رابطہ کیا اور شکایت کی کہ ماریشس سے تعلق رکھنے والے ان کے والدین سیاحت کیلئے اور لاہور میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے کیلئے پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن کچھ بے وقوفانہ وجوہات کی بنا پر انہیں ویزا نہیں دیا جا رہا۔ اس غیر ملکی دوست نے اس نمائندے کو بتایا کہ ان کے والدین کے پاس ماریشس کا پاسپورٹ ہے اور وہ لاہور میں رشتہ داروں سے ملنے اور سیاحت کیلئے ایک ہفتہ پاکستان میں گزارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دورے کیلئے آنے کی وجہ سے انہیں غیر ملکی کرنسی کی ضرورت پیش ہوگی۔ تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ماریشس میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن زندگی اجیرن بنانے پر تلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واضح کیا کہ ہائی کمیشن دعوت نامہ دینے والے شخص کی رہائش گاہ کا ثبوت ملنے تک دعوت نامہ قبول نہیں کریں گے، جو بظاہر درست شرط معلوم ہوتی ہے۔ انکساری کے اظہار کے طور پر ان کے والدین نے دعوت نامہ دینے والوں (غیر ملکی دوست کی سسرال) سے رابطہ نہ کرنے کا انتخاب کیا اور لاہور میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں قیام کا ارادہ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہوٹل کی بکنگ کی تصدیق کا خط باضابطہ طور پر ہائی کمیشن کو بھیج دیا گیا لیکن انہوں نے بتایا کہ وہ بکنگ کو قبول نہیں کر سکتے کیونکہ لاہور میں پی سی ہوٹل سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بکنگ پر صرف پہلا نام اور خاندانی نام (فرسٹ نیم اور لاسٹ نیم) درج ہے اور پاسپورٹ کے مطابق پورا نام نہیں لکھا۔ (یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تقاضہ ہوٹل والے نہیں کرتے)۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ ہم ہوٹل فون کرکے معلومات تبدیل کرا سکتے ہیں اس وقت ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ غیر ملکی کرنسی کی اشد ضرورت رکھنے والا ملک سیاحوں کیلئے معاملات اس قدر مشکل کیوں بنا رہا ہے۔ ان کا یہ سوال حکومت پاکستان سے جواب کا تقاضہ کرتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کو احساس نہیں کہ سیاح کے پاس 200؍ ملکوں میں سے کسی کا دورہ کرنے کیلئے چوائس موجود ہوتی ہے کہ اسے کس ملک کا دورہ کرنا ہے؟ پاکستان کا دورہ کرنا اتنا مشکل کیوں ہے حالانکہ دوست ممالک سیاحوں کیلئے معاملات آسان بناتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ یہ حقائق دی نیوز کو اس امید کے ساتھ بتا رہا ہے کہ اخبار میں یہ بات نمایاں ہوگی کہ افسوس ناک انداز سے ملک کے بیوروکریٹ ملک کی بہتری کی بجائے اسے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس ذریعے نے اس نمائندے کو خاندان کے ارکان اور ہائی کمیشن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت (ای میلز) بھی دکھائیں۔ حکومت کی جانب سے آمدنی جمع کرنے کے نظام میں بہتر لانے کی کوششوں کے معاملے میں دیکھیں تو ٹیکس دہندگان اور کاروباری افراد سے نمٹنے والے ٹیکس حکام ملک اور ٹیکس دینے والوں کیلئے تباہ کن کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، پنجاب حکومت کے ریونیو محکمے نے ایک کامیاب کاروباری شخص کیلئے کمرشل ویلیو میں ایک صفر کا اضافہ کرکے اس کا کاروبار خراب کر دیا ہے، وہ شخص ہر مہینے جو ٹیکس لاکھوں کی صورت میں دیتا تھا وہ اب صفر ہو چکا ہے، کئی ملازمین کو ہٹایا جا چکا ہے اور وہ شخص ہر چوکھٹ پر جا رہا ہے تاکہ غلطی سے بڑھائے گئے اس صفر کو درست کرا سکے۔ متعلقہ حکام جانتے ہیں کہ یہ سنگین غلطی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے کب اور کون درست کرے گا۔ اس کاروباری شخص نے اپنی داستان دی نیوز کو بتائی لیکن وہ اپنا نام یا شناخت ظاہر کرنے سے ہچکچا رہا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھ جائیں گے۔ اس کاروباری شخصیت کا کہنا ہے کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے اس کی تفصیلات اور کاروباری تفصیلات کو دیکھتے ہوئے میڈیا کیلئے ایک اچھی خبر بن سکتی ہے لیکن اس سے اس کے مسائل بڑھ جائیں گے کیونکہ اسے پرانی بیوروکریٹک ذہنیت سے نمٹنا پڑتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کے کاروبار کیلئے دوستانہ ماحول فراہم کرنے، ملازمتیں پیدا کرنے اور ٹیکس جمع کرنے میں بہتری لانے کے بیانیے کے برعکس کاروباری افراد کیلئے زمینی حقائق حوصلہ شکنی پر مبنی اور مایوس کن ہے۔