پاکستان، کرتارپور اور عثمان بزدار

December 04, 2018

بھشن سنگھ ڈیرہ بابانانک میں مارا گیا۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کاواقعہ ہے۔ایک دن سردارمولا سنگھ کا بھتیجا بھشن سنگھ اور میرے دادا ڈیرہ بابانانک میلےپر گئے۔ علاقے کا بڑا بدمعاش سردار بڈھا سنگھ اپنے بیس بائیس ساتھیوں سمیت ان دو نوجوانوں پر حملہ آور ہوا۔ اس حملے میں بھشن سنگھ ماراگیا جبکہ میرے داداشدید زخمی ہوئے۔ سارے زخم ان کے سرپر تھے۔ ان کے جسم پرزخم نہیں تھے۔ جسم پرکلہاڑیوں سےوار ہوئے مگر جسم کی سختی نے جسم زخمی نہ ہونے دیا۔ حملہ آوروں نے بالآخرسر پر وارکئے جس سے وہ شدید زخمی ہوئے۔ ڈیرہ بابا نانک سے ایک لاش اور ایک زخمی گائوں واپس آئے۔ لاش بھشن سنگھ کی تھی جبکہ زخمی میرا دادا تھا۔ بھشن سنگھ دنیا سے چلا گیا اور زخمی دادا بستر پرپڑا ٹھیک ہونے کا انتظارکرنے لگا۔ ایک دن میری پردادی نےاپنے زخمی بیٹے سے کہا.... ’’بھشن سنگھ تمہارا جگری دوست تھا۔ تمہارے پاس ایک سال ہے اگر تو نے ایک سال میں اپنے دوست کا بدلا نہ لیاتو پھر ہمارا تمہاراکوئی تعلق نہیں۔‘‘ زخمی نے ماں کی بات سن لی، چند مہینوں بعدٹھیک ہوا تو پھرایک رات ایک عیسائی نوجوان کو ساتھ لےکر سردار بڈھا سنگھ کے گائوں چلا گیا۔علاقےکے بڑے بدمعاش سرداربڈھا سنگھ کو اٹھا کر اپنے گائوں لے آیا۔ اپنے گائوں لا کر بڈھا سنگھ کےٹکڑے کردیئے اور پھر اپنی والدہ سے کہنے لگا ’’یہ ہیں بڈھا سنگھ کے جسم کے ٹکڑے۔ میرے جگری دوست بھشن سنگھ کے دشمن کے ٹکڑے۔ یہی تھا نا علاقے کا بڑا بدمعاش‘‘ ماں سےشاباش وصول کرکے جوان سکون سے سو گیا۔ اس طرح کی دوستیاں ہوتی تھیں اور ایسے دشمنیاں نبھائی جاتی تھیں۔

اگرعام انسانوں کے جسموں پر کڑوا (تارے میرے کا) تیل لگایا جائے تو وہ ایک منٹ برداشت نہیں کرتے مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے دادا ہم سب بھائیوں کو اس کڑوے تیل کی مالش کروا کر دھوپ میں گھنٹوں کھڑا رکھتے تھے۔ سورج یہ چبھن اور بڑھا دیتا تھا۔ خیر میں تو سال میں دوتین مرتبہ یہ عمل اب بھی کرتا ہوں۔ اب بھی دھوپ میں کھڑا ہوتاہوں۔ شہر والے ہمیں سادہ مزاج سمجھتے ہیں۔ انہیں شاید فوک وزڈم کا اندازہ ہی نہیں کہ یہ فوک وزڈم ہی دنیا میں اہم ترین ہے۔

یہ واقعات، یہ باتیں مجھے سردار عثمان بزدار کو دیکھ کر یاد آرہی ہیں۔ وہ نوجوت سنگھ سدھو اور ہرسمرت کور بادل کے درمیان کیا بیٹھے کہ سوشل میڈیا پر لوگوںنے کرتارپور کی یہ تصویر لگا کر طرح طرح کے تبصرے شروع کردیئے۔ سردارعثمان بزدار بڑا سخت جان، سادہ اور گہرا آدمی ہے۔ میری اس سے تفصیلی ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی۔ دونوں مرتبہ کھڑے کھڑے ملاقات ہوئی ہے۔ پہلی ملاقات ایوانِ صدر میں اور دوسری کنونشن سنٹر میں۔ پہلی ملاقات کا احوال کچھ اس طرح ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی صدارت کاحلف اٹھانے کے بعد مہمانوں کے ساتھ چائے کے لئے تشریف لے گئے۔ یہیں کھڑے کھڑے عثمان بزدار سے ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں مختصر سے وقت میں پورا قصہ سناڈالا کہ الیکشن جیتنے کےبعد وزیراعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب سےہونا چاہئے حالانکہ سنٹرل پنجاب اور شمالی پنجاب سے کئی لوگ کوشش کررہےتھے مگرخان صاحب کا ہمارے اوپریہی پریشر تھا کہ وزیراعلیٰ جنوبی پنجاب ہی سےلانا ہے۔ اس دوران خان صاحب مختلف لوگوں سے ملتے بھی رہے۔ میں نے ایک دن لیہ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رہنما چوہدری رضوان سےپوچھا کہ مجھے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے ولا کوئی ایساایم پی اے بتا دو جو پی ٹی آئی فیس ہو۔خیر انہوں نے دوتین نام بتائے مگر وہ تعلیمی اعتبارسے پورے نہیں تھے پھرہم نے ملتان سے ایک آدمی نوابزادہ ظہیر علیزئی ڈھونڈا مگر نوابزادہ ظہیرعلیزئی نے صاف کہا کہ بھائی جان مذاق کسی اور سےکریں۔ اسی لئے پھرظہیر علیزئی نے اپنا سی وی بھی نہ بھیجا۔ ابھی یہ باتیں جاری تھیں کہ مجھے خان صاحب کہنے لگے کہ ’’میں نے بندہ ڈھونڈ لیاہے۔ اب تم بندے ڈھونڈنا بند کردو۔ میں نے بڑا زبردست بندہ ڈھونڈ لیاہے۔ تمہیں دیکھ کر خوشی ہوگی۔ وہ بھی تمہاری طرح سادہ طبیعت کا مالک انسان ہے۔‘‘ خان صاحب نے بندے کا بتا دیا مگر نام نہ بتایا۔ اب میں اورسوچ میں پڑ گیا کہ آخر کون ہے اور پھر آپ (عثمان بزدار) کا نام سامنے آگیا۔ پورا قصہ سننے کےبعد سردار عثمان بزدار نے کہا کہ میری نامزدگی کے بعد تو اُن لوگوں کو یقین آگیا ہوگا جو مذاق سمجھتے تھے۔

اب میں تین ماہ کے بعد سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے بہترین بندے کو چنا ہے۔ سردار عثمان بزدار نے 88ہزارایکڑ سرکاری اراضی واگزار کروائی ہے۔ اس زمین پر بڑے بڑے بدمعاش قابض تھے۔ ایک پورا مافیا تھا۔ جو مافیا 70سالوں میں زیر نہ ہوسکا ، سردار عثمان بزدار نے تین مہینوں میں اسے زیر کردیا۔ ایک روز برادرم نعیم الحق کہنے لگے کہ ’’یار! اگر عثمان بزدارسادہ ہے تو کیا ہے۔ اس کےیادگار فیصلوں کی خوشبو کچھ عرصہ بعد آنا شروع ہو جائے گی۔ وہ ٹوپیاں نہیں بدلتا، ڈرامے نہیں کرتا، کام کرتا ہے۔‘‘

کرتارپور راہداری نے اپنے اثرات دکھانا شروع کردیئے ہیں۔ انہی اثرات کے باعث راجستھان اور دہلی میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے گونج رہے ہیں۔ سکھوں کو اس مرحلے پر ہوشیاررہنا چاہئے۔ انہیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خالصتان کیلئے 2020میں ریفرنڈم ہوجائے۔ انہیں سازشوں سے بچنا ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ پہلے بھی ہاتھ ہوچکا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت ہندوئوں نے ایک ہندو ماسٹر کو سکھ بنا کر سکھوں کالیڈر بنا دیا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ نے سکھوںکو بھارت کے ساتھ جوڑ دیا۔ بعد میں سکھوں کے لئے ماسٹرتارا سنگھ کا فیصلہ مستقل پچھتاوا بن گیا۔ اس فیصلے پر سکھ بہت پچھتائے تھے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ سکھوںکو دوبارہ پچھتانا پڑے۔ انہیں ہندوئوں کی چالوں سے ہوشیاررہنا ہوگاکہ؎

رستہ بدل کے چلنے کی عادت اُسے بھی تھی