اشرفیاں لٹیں کوئلوں پر مہر

December 14, 2018

تحریر: سیدمحمد علی عابد۔۔۔ برمنگھم
ہماری حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ملک سے لوٹی دولت واپس لاکر قرضے اتارنے اور میگا پروجیکٹ پر سرمایہ کاری کرنے کے بڑے زور زور سے اعلان کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کی الیکشن مہم بھی اسی اعلامیے پر انحصار کررہی تھی۔ اس مفروضے پر اس قدر قوالی ہوئی کہ عوام میں یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ ملک میں غربت اور پسماندگی کا واحد سبب یہی کرپشن اور منی لانڈرنگ ہے۔ یہ مفروضے اور تاثر بے بنیاد ہیں، یہ لوٹی دولت ملک میں لائی جانا نہایت اہم اور ضروری عمل ہے، سرکاری تحویل میں چلنے والے کاروباری ادارے اس سے کئی گنا زیادہ ملکی معیشت پر بوجھ ہیں یہ بوجھ ہمارے قرضوں میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہیں یہ ادارے سات یا آٹھ سو ارب روپے سالانہ خسارے میں چل رہے ہیں جو ملک کو سالانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان اداروں میں ملازموں کی غیر ضروری بھرمار، جاری اخراجات میں اضافہ ہی نہیں کررہے بلکہ یہ خسارے ملازمین کو پنشن اور علاج وغیرہ کے اخراجات مستقل بنیادوں پر معیشت پر بےجا بوجھ ہیں اور رہیں گے ان اداروں کو اگر جنگی بنیادوں پر نجی تحویل میں دے دیا جائے تو ان کے نقصانات سے گلو خلاصی ہو جائے گی اور کمپنیاں اپنے وسائل مہیا کرکے بہتری لائیں گی، جب نئی سرمایہ کاری ہوگی تو اس سے صنعت میں نئی نئی ایجادات ہوں گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ آزمودہ نسخہ ہے، مسلم لیگ نے اپنے پہلے دو ادوار میں نج کاری شروع کی، بیسیوں چھوٹے یونٹ نجی تحویل میں دیئے لیکن یہ حکومت صرف سوا دو سال کے بعد گھر بھجوادی گئی دوسری بار ڈھائی سال بعد پرویز مشرف نے نواز شریف کو اپنے ملک کے طیارے کو کراچی کی بجائے نواب شاہ میں لینڈ کرنے کے دہشت گردی کے جرم میں قید کرلیا۔ یہ ایک بھونڈا مذاق تھا جو قوم کی معیشت کو تباہ کرگیا۔ نجکاری سے قبل ٹیلی فون، بینک کے ادارے، کرپشن اور رشوت ستانی کے گڑھ تھے، ٹیلی فون آپریٹر کو سو دو سو روپے رشوت دے کر ایک ماہ تک مفت کالیں کی جاسکتی تھیں۔ ٹیلی فون کی تاریں سڑکوں پر گری پڑی ہوتی تھیں اور آپ کا ٹیلی فون کام کرنا بند کئے ہوئے ہوتا تھا۔ نج کاری کے بعد فون کی تاریں آپٹیکل اور زیر زمین لگائی گئیں جس کی وجہ سے ہمارا یہ نظام دنیا کے ہر نظام سے موازنہ کرسکتا ہے۔بینکوں کا یہ حال تھا کہ اکثر برانچوں میں بیٹھنے کے لئے بینچ تک میسر نہیں تھے آپ کو پیتل کا ایک گول سکہ نما ٹوکن دے دیا جاتا تھا آپ چیک کے کیش ہونے کا گھنٹوں تک انتظار کرتے تھے، اندر بابو لوگ چائے پینے اور گپیں لگانے میں مصروف رہتے تھے، وزیراعظم، ممبران اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے کے لئے ہر ممبر کو چار قرضے، چار نوکریاں، چار ٹیلی فون کنکشن، چار بجلی کنکشن، چار نوکریاں میرٹ کے بغیر ہی عطا فرما دیتا تھا جو قرض لیتا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ یہ قرض واپس کرنے کے لئے نہیں لے رہا اور بینک منیجر کو یقین ہوتا تھا کہ یہ رقم واپس ملنے والی نہیں۔ نج کاری کے طفیل کرپشن اور رشوت 99 فیصد ختم ہوگئی۔ سیمنٹ کی بوری خریدنے کے لئے پرمٹ لینا پڑتا تھا جو نہایت ناخوشگوار تجربہ ہوتا تھا، آپ کو محلے کے ممبر سے تصدیق کروانی پڑتی تھی کہ آپ کو واقعی ضرورت ہے اس کے بعد آپ کا واسطہ افسر شاہی سے پڑتا تھا جہاں آپ کی عزت نفس مجروح کی جاتی تھی آج متعلقہ کلرک چھٹی پر ہے، کل بڑے صاحب دورے پر ہیں، ان تمام مشکلات کا سامنا کرکے سیمنٹ حاصل ہوتا تھا۔ آج یہ حال ہے کہ محلے کی دکان پر سیمنٹ فروخت ہوتا ہے جو آپ کے ٹیلی فون کی کال پر سیمنٹ گھر چھوڑ کر جاتے ہیں، اگر بجلی و گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے تو یہاں میگا کرپشن اور میگا رشوت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز راجہ پورس کا ہاتھی بنی ہوئی ہے جو اپنے ملک کو لوٹ رہی ہے۔ میاں نواز شریفMEPCOکی نجکاری کررہے تھے لیکن مخالفت برائے مخالفت پر عمل کرتے ہوئے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی بھی پی پی پی کے ساتھ مل کر احتجاج پر اتر آئیں، میاں نواز شریف سی پیک کے معاملات اور پی ٹی آئی کے رویئے، اپنے ذاتی مقدمات میں الجھے ہونے کے سبب یہ کام نہ کرسکے۔ پی ٹی ائٓی اگر معیشت کی بہتری کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو فوری طور پر اس طرف توجہ دے کر اپنا لائحہ عمل عوام تک پہنچائے۔ یہ فیصلہ ترقی اور کرپشن و رشوت ستانی سےنجات کا 60سے 70 فیصد پروگرام ثابت ہوگا۔ ان اداروں کی نجکاری ضلعی عدالتوں پر10 فیصد بوجھ کم کردے گی۔