این او سی جاری نہ ہونے پر راحیل شریف کی ملازمت ختم ہو جائیگی

December 16, 2018

اسلام آباد (طارق بٹ) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف اپنی غیر ملکی نوکری کھو بیٹھیں گے اگر وفاقی کابینہ نے انہیں ایک ماہ کے اندراین او سی جاری نہیں کرتی۔ یہ حکم ججز ، سرکاری اور عدلیہ کے افسران کی دہری شہریت سے متعلق کیس میں دیا گیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو سعودی عرب کی قیادت میں 41ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بنادیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ وزارت دفاع کے سیکریٹری اس فیصلے کے اجراء کے ایک ماہ کے اندر رپورٹ فائل کریں اور اگر اس مدت میں وفاقی حکومت کی جانب سے مطلوبہ این او سی جاری نہیں کیا جاتا ، جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی غیر ملکی ملازمت فوری طور پر ختم ہو جائیگی۔ فیصلے میں 7اگست 2018کے حکم کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق عدالت نے اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکریٹری کو مہلت دی تھی کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کیلئے وفاقی حکومت سے این او سی حاصل کریں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سابقہ جنرل کے حوالے سے جو دستاویزات جمع کرائی گئیں ان کے مطابق جی ایچ کیو اور وزارت دفاع نے این او سی جاری کیا لیکن سابقہ حکومتی ملازمین کی غیر ملکی ملازمتوں کے حوالے سے ایکٹ 1966کے سیکشن 3کے مطابق وفاقی حکومت یا وہ فرد جسے حکومت اختیار دے، سابقہ حکومتی ملازم کو غیر ملک میں ملازمت کی اجازت دے سکتا ہے، اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کے مطابق جو میسرز مصطفی امپیکس کراچی بنام حکومت پاکستان و دیگر (پی ایل ڈی 2016ایس سی 808)میں کی گئی، وفاقی حکومت سے مراد کابینہ ہے، اور یہ حکم اس وقت بھی نافذالعمل تھا جب جی ایچ کیو اور وزارت دفاع نے این او سی جاری کیا تھا۔ حکم کے مطابق جہاں تک مسلح افواج (آرمی، بحریہ، فضائیہ اور ان سے منسلک ادارے)کا تعلق ہے، وزارت دفاع نے بتایا کہ دہری شہریت کے حامل افراد کی بھرتی کی اجازت نہیں کیونکہ اس حوالے سے آرمی، فضائیہ اور بحریہ میں متعلقہ پالیسی موجود ہے اور دہری شہریت کے حامل افراد کو ان اداروں میں ملازمت کیلئے اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرنی پڑتی ہے۔سیکریٹری دفاع نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ یہ پالیسی مسلح افواج میں بھرتی کے اشتہار میں بھی شائع کی جاتی ہے اور اس وقت فوج میں دہری شہریت کا حامل کوئی فرد نہیں۔ تاہم اگست 2018کے عدالتی حکم کے مطابق سیکریٹری دفاع کیلئے ضروری ہے کہ وہ جانچ کریں کہ دہری شہریت کا حامل کوئی شخص حقائق چھپا کر یا غلط بیانی کر کے مسلح افواج میں تو شامل نہیں ہوا۔ فیصلے میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ سابق آئی ایس آئی جنرل (ریٹائرڈ) شجاع پاشا نے 25ستمبر 2018کو دستخط شدہ ایک سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے متحدہ عرب امارات یا کسی اور جگہ کوئی غیر ملکی ملازمت حاصل نہیں کی۔سپریم کورٹ اور اعلی عدلیہ میں ججز کی تقرری سے متعلق فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 177اور 193کا حوالہ دیا گیا جس کے مطابق کوئی بھی شخص اس وقت تک جج نہیں بن سکتا جب تک وہ پاکستان کا شہری نہ ہو۔ سابقہ حکومتی ملازمین کی غیر ملکی ملازمتوں پر پابندی کے حوالے سے ایکٹ 1966کے سیکشن 3کے مطابق جس کا حوالہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کیس میں دیا گیا، کے مطابق کوئی بھی سابقہ حکومتی ملازم ، سوائے وفاقی حکومت یا اس کے مقرر کردہ نمائندے کی تحریری اجازت کے ، غیرملکی حکومت یا ایجنسی کی ملازمت اختیار نہیں کرے گا۔ کوئی بھی سابقہ حکومتی ملازم ، جو اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے وقت غیر ملکی حکومت یا ایجنسی کی ملازمت اختیا رکئے ہوئے ہے، سوائے اس کے کہ وفاقی حکومت کی تحریری اجازت ہو، اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد تین ماہ مکمل ہونے کے بعد اپنی ملازمت جاری نہیں رکھ سکے گا۔ 1966ایکٹ کے سیکشن 2اے کے مطابق سابقہ حکومتی ملازم وہ ہے جسے صوبائی یا وفاقی حکومت نے کسی بھی وقت بھرتی کیا تھا اور اب ملازمت ختم ہو چکی۔ سیکشن 3کی خلاف ورزی کی سزا سیکشن 4میں بیان کی گئی ہے جو سات سال قیدیا جرمانہ جو 15ہزار روپے تک ہو سکتا ہے، یا جائیداد کی ضبطگی، یا پھر ان میں سے کوئی بھی دو سزائیں۔