مسجد کو گرم رکھنے کے لیے انگیٹھی میں لکڑیاں جلا کر سامنے رکھنا کیسا ہے ؟

December 21, 2018

تفہیم المسائل

سرد علاقوں کی مساجد میں نمازیوں کے سامنے گیس ہیٹر کا استعمال

سوال:ہمارے علاقے میں سردی شدید ہوتی ہے ،برف باری بھی ہوتی ہے ،پہلے لوگ مسجد کو گرم رکھنے کے لیے انگیٹھی میں لکڑیاں جلاتے تھے ، اب گیس آگئی ہے تو گیس کے ہیٹر جلاتے ہیں ،جو قبلے کی جانب والی دیوار میں نمازیوں کے سامنے لٹکا کر یا زمین پر رکھے جاتے ہیں اور نمازی اس جانب سجدہ کرتے ہیں ،اس صورت میں کیا آتش پرستوں سے مشابہت کی بناءپر اس کی ممانعت ہوگی یاایساکرنا جائز اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، (محمد علی ،ایبٹ آباد )

جواب: مجوسی عبادت کے وقت آگ کو تنور یا آتشدان (کانون)میں سامنے رکھتے ہیں ،جسے ہماری کُتب فقہ وفتاویٰ میں ’’کانون‘‘ سے تعبیرکیاگیا ہے، گیس /بجلی کے ہیٹر سامنے رکھ کر یا دیوار پر لٹکا کر نماز پڑھنے میں مجوسیوں کے ساتھ مشابہت نہیں ہے ۔اگرنمازی کے سامنے آگ جل رہی ہو تب بھی نماز ہو جائے گی، فقط کراہت ہے،لیکن جہاں سردی ناقابل برداشت ہو ،بالخصوص ضعیف اور معمر نمازیوں کے لیے وہاں بربنائے ضرورت کراہت مرتفع ہوجائے گی ۔ لیکن مخصوص طریقے سے انتظام کیا گیا ہو تو مکروہ نہیں ہے، مثلاً :ہیٹر وغیرہ۔ علامہ نظا م الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’جس شخص نے نماز کے دوران تندور کی طرف رُخ کیا، جس میں آگ جل رہی تھی تو یہ مکروہ ہے اور اگر قندیل یا چراغ کی طرف رُخ کیا، تو کراہت نہیں ہے ،جیساکہ ’’محیط السرخسی‘‘ میں ہے ،یہی قول زیادہ صحیح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1، ص:108)

ہمارے فقہائے کرام نے اس کی بابت یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ آگ کے سامنے نماز پڑھنا صرف اس صورت میں مکروہ ہے ، جب آگ اس انداز سے نمازی کے سامنے رکھی ہو جس انداز سے مجوسی لوگ اس کی عبادت کرتے ہوئے اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اگر آگ نماز ی کے سامنے مجوسیوں کے عبادت کے انداز سے رکھی ہوئی نہ ہو تو نماز مکروہ نہیں ہوگی ۔پس اگر آگ نمازی کے سامنے تنور یا آتشدان میں اس طرح رکھی ہو، جیسے مجوسی رکھتے ہیں تو نماز مکروہ ہوگی ورنہ نہیں ۔لہٰذا مساجد یا گھروں میں سرد ی کی وجہ سے ہیٹر سامنے لگا کر نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے ، تاہم بہتر یہ ہے کہ ہیٹر کو سامنے رکھنے کے بجائے دائیں بائیں رکھ لیا جائے ،یا سامنے کی دیوار میں ذرا اونچی جگہ پر نصب کر لیا جائے تاکہ اس میں کسی قسم کی کراہت کا شائبہ نہ رہے، اس صورت میں ہیٹر کا رُخ حسبِ ضرورت نیچے کی طرف رکھاجاسکتا ہے ۔علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’علامہ ابوالبرکات احمد بن محمود نسفی کایہ قول: ’’اگرنمازی کے سامنے شمع یا چراغ رکھا ہوتو نماز جائز ہے ‘‘،کیونکہ یہ عبادت کی نیت سے نہیں رکھے ہوتے اور کراہت کاحکم اس پر محمول ہے کہ عبادت کی نیت سے رکھے ہوں اور آگ کی عبادت مجوس (آتش پرست ) کانون (آتش دان )میں رکھ کر کرتے ہیںاور اس میں چنگاری ہوتی ہے یا تنور میں رکھاجاتاہے ،لہٰذا اس سے ہٹ کر کسی طریقے سے رکھاجائے تو اس میں بالاتفاق کراہت نہیں ہے، جبکہ شمع اطراف میں ہو جیساکہ رمضان کی راتوں میں مصر میں رکھنے کی عادت ہے ، (البحرالرائق ، جلد2، ص:56)‘‘ ۔علامہ عثمان بن علی ذیلعی نے تبیین الحقائق ،جلد1، ص: 167 میں مِنْ وعَنْ یہی مسئلہ لکھاہے ۔

تاہم اگر اس میں کراہت ہونے کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی سردی کے موسم میں ضرورت کی بنا پر اس کی گنجائش ہے،جیسا کہ فقہائے کرام نے نمازمیں چہرہ چھپانے کو مجوسیوں سے مشابہت کی وجہ سے مکروہ بتایا ہے اور بوقتِ ضرورت اس کی اباحت کی گنجائش رکھی ہے ۔

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اورنماز میں منہ کا ڈھانپنا مکروہ ہے ،کیونکہ نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اس لیے کہ منہ ڈھانپنے میں قراء ت اور اَذکارِ مشروعہ پڑھنے میں رکاوٹ پیداہوتی ہے اور اس لیے کہ اگر اپنے ہاتھ سے منہ ڈھانپے گا توہاتھ باندھنے کی سنّت ترک ہوگی اور نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ہاتھوں کو نمازمیں روکو اور اگر کپڑے سے ڈھانپے گا تویہ مجوس سے مشابہ ہے ،کیونکہ وہ آگ کی عبادت کرتے وقت منہ کو لپیٹتے ہیں اور نبی ﷺ نے نمازمیں منہ لپیٹنے سے منع فرمایاہے، سوائے اس کے کہ جمائی روکنے کے لیے منہ کو ڈھانپا جائے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ،جیساکہ گزرا، (بدائع الصنائع ،جلد 1،ص:320)‘‘۔سوئی گیس کے ہیٹر استعمال کرنے میں یہ احتیاط بھی برتا جائے کہ ہیٹر آن کرنے سے پہلے ہی اگر آگ گیس کی نوزل کے قریب رکھی جائے، تو گیس کی بو نہیں پھیلے گی ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk