عالمی گوسی پیس پرائز کا اعزاز

December 24, 2018

ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کارکردگی کو ملکی اور عالمی سطح پر سراہا جائے جس سے اس کو اور اس کے ملک کو عالمی سطح پر شہرت ملتی ہے۔ عالمی ایوارڈز میں دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ نوبیل پرائز ہے جو مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی پر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ملالہ یوسف زئی کو بچوں کو تعلیم دینے کے حق کی جدوجہد پر 2014ء میں نوبیل پرائز سے نوازا گیا جو ہمارے ملک کیلئے ایک بڑا اعزاز ہے۔ نوبیل پرائز کے علاوہ دیگر کئی عالمی اعزازات ہر سال دنیا میں اہم شخصیات کو ان کی شاندار کارکردگی پر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایشیاکا ایک معروف ایوارڈ گوسی پیس پرائز انٹرنیشنل ہے جو فلپائن کے صدر کے صدارتی حکم پر دیا جاتا ہے۔گوسی پیس پرائز عالمی شہرت یافتہ ایوارڈ ہے جسے ایشیا میں نوبیل پیس پرائز کا ہم پلہ قرار دیاجاتا ہے۔ یہ ایوارڈ دنیا میں امن کے فروغ، تعلیم، سائنس، طب، جرنلزم، سوشل ویلفیئر، معیشت، سیاست اور سفارتکاری کے شعبوں میں شاندار کارکردگی دکھانے والوں کو دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ’’ گوسی پیس پرائز‘‘ دنیا کی 12معروف شخصیات جن کا تعلق آسٹریلیا، برازیل، چین، مصر، یونان، بھارت، برطانیہ، امریکہ، جمیکا، سعودی عرب، فلپائن اور بنگلہ دیش کے میڈیسن، سرجری، سائنس، تحقیق، تعلیم و صحت، جرنلزم اور سماجی خدمات کے شعبوں سے تھا، کو دیا گیاتھا جن کا انتخاب دنیا کے معروف اداروں کی جانب سے بھیجی جانے والی نامزدگیوں میں سے گوسی فائونڈیشن کی جیوری نے کیا تھا۔ گزشتہ سال ایوارڈ کی تقریب میں گوسی فائونڈیشن کے چیئرمین ایمبسیڈر بیری گوسی نے مجھے ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کے ڈائریکٹر، قونصلر کارپس سندھ کے صدر اور کراچی میں یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے منیلا مدعو کیا تھا جس میں عالمی لیڈرز، سفارتکار اور دنیا کی معزز شخصیات نے شرکت کی تھی جو میرے لئے ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔

یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اس سال گوسی فائونڈیشن کی جیوری نے میری معاشی اور سفارتی خدمات کے پیش نظر مجھے گوسی پیس پرائز 2018ء کیلئے نامزد کیاجس کا اعلان گوسی فائونڈیشن کے چیئرمین ایمبسڈر بیری گوسی نے مارچ 2018ء میں خود کراچی آکر کیا تھا جو ہمارے ملک کیلئے بھی اعزاز ہے کہ پاکستان کو پہلی بار گوسی پیس پرائز سے نوازا گیا ہے۔ ایوارڈ وصول کرنے کیلئے میں اور میری اہلیہ نے منیلا میں گالا ایوارڈ تقریب میں شرکت کی۔ اس سال دیگر انعام یافتگان کا تعلق ارجنٹینا، کولمبیا، جرمنی، بھارت، امریکہ، فلپائن، ترکی، جنوبی افریقہ، ملائیشیا اور پولینڈ سے تھا جن میں امریکہ کے پروفیسر لنکوائن میک کرڈی، پولینڈ کے ڈاکٹر ایندری وٹز سزاک، جرمنی کے ڈاکٹر گرنارڈ سینی ورڈ، ڈاکٹر پیٹر سی ورگر، جنوبی افریقہ کے پروفیسر میکولم میک کولاچ، فلپائن کے جنرل انتونیو تمایو اور جسٹس لوکاس برسامین شامل تھے۔ ایوارڈ تقریب سے ایک دن پہلے فلپائن کے شہر منیلا کے تاریخی رزال پارک میں صبح 6بجے گارڈ آف آنرکی تقریب ہوئی جس میں مجھ سمیت تمام ایوارڈ یافتگان کو ملٹری گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور رزال پارک میں گوسی پیس پرائز 2018ء کے ایوارڈ یافتگان کی تصاویر آویز اں کی گئیں جس کا روزانہ سینکڑوں افراد دورہ کرتے ہیں۔ رات میں فلپائن کے معروف ہوٹل منیلا پنسلوا میں گالا ڈنر کی تقریب منعقد ہوئی جس میں فلپائن قونصلر کارپس کے قونصل جنرلز اور فلپائن کی معروف شخصیات نے شرکت کی۔ اس سال ایوارڈ تقریب میں میرے ساتھ میری اہلیہ نورین بھی شریک تھیں۔ تقریب میں میرے ساتھ ورلڈ فیڈریشن کے ڈائریکٹر آصف چوہدری نے ورلڈ فیڈریشن کی نمائندگی کی جبکہ فلپائن میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر امان راشد اور مراکش کے سفیر محمد ردا الفاسی نے اپنی بیگمات کے ساتھ میری دعوت پر خصوصی طور پر شرکت کی۔ ایوارڈ کی تقریب فلپائن کے تاریخی فلپائن انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں منعقد ہوئی جس میں 5ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی جن میں بیرون ملک سے آئے ہوئے مندوبین، غیر ملکی سفیروں، حکومتی وزراء، سینیٹرز، بینکوں کے صدور، عسکری قیادت، اعلیٰ شخصیات اور غیر ملکی میڈیا کےنمائندے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ انعام یافتگان کو فوجی دستوں کے ساتھ ان کے قومی پرچموں میں اسٹیج پر لایا گیا جہاں پاکستان کا سبز پرچم بھی نمایاں تھا جس کو بار بار دیکھ کر مجھے خوشی کا احساس ہوتا تھا۔

فلپائن کی موجودہ ترقی کا سہرا موجودہ صدر روڈریگو دوتیرتے (Rodrigo Duterte) کے سر جاتا ہے جن کے کرپشن اور منشیات کے خلاف سخت اقدامات کے باعث گزشتہ چند سالوں میں فلپائن نے حیرت انگیز معاشی ترقی کی ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2050ء تک فلپائن دنیا کی 16ویں بڑی اور ایشیاکی پانچویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال فلپائن کی مجموعی ایکسپورٹ 35ارب ڈالر تھی جو پاکستان کی ایکسپورٹ سے زیادہ ہے جبکہ فلپائن کا شمار بھارت اور چین کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنیوالے ممالک میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال بیرون ملک مقیم 12ملین سے زائد فلپائنی باشندوں نے 25ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر اپنے وطن بھیجی تھیں۔ اسی طرح فلپائن کا شمار کال سینٹر سروسز فراہم کرنیوالے سرفہرست ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں اس شعبے سے تقریباً ایک ملین افراد وابستہ ہیں۔ گزشتہ سال صرف کال سینٹرز سے فلپائن کو 21ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ فلپائن کو اس سال سیاحت سے بھی 4ارب ڈالر سے زائد آمدنی ہوئی۔

فلپائن کی مجموعی 100ملین آبادی کا تقریباً 10فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ فلپائنی صوبہ مندانائو میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ میں نے اپنے قیام کے آخری دن نماز جمعہ منیلا کی سب سے بڑی بلیو مسجد میں ادا کی۔ مسجد کے پیش امام نے مجھے بتایا کہ فلپائنی باشندے سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے واپسی پر خاندان سمیت اسلام قبول کررہے ہیں۔ فلپائن کی شرح خواندگی 95فیصد ہے اور یہاں کا معیار تعلیم بہت اچھا تصور کیا جاتا ہے جو یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں انتہائی سستا ہے۔ کچھ دہائی قبل تک معاشی اعتبار سے پاکستان کی معیشت فلپائن سے بہتر تھی مگر آج فلپائن ہم سے کئی گنا آگے نکل چکا ہے۔ فلپائن کے 85ارب ڈالرز رمبادلہ کے ذخائر 4ذرائع سے حاصل کئے جاتے ہیں جن میں پہلے نمبر پر ایکسپورٹس (35ارب ڈالر)، دوسرے نمبر پر ترسیلات زر (25ارب ڈالر)، تیسرے نمبر پر کال سینٹرز (21ارب ڈالر) اور چوتھے نمبر پر سیاحت (4ارب ڈالر)شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار میں بیرونی سرمایہ کاری شامل نہیں۔ گزشتہ 10سالوں میں منیلا کے وسط میں بونی فیسیو گلوبل سٹی (BGC) کا ماڈرن شہر قائم کیا گیا ہے جس کی بلند و بالا عمارتیں، شاپنگ مال اور جدید انفرااسٹرکچر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میرا قیام اسی علاقے میں پیناسولا ہوٹل میں تھا جس کے آس پاس جدید عمارتوں میں قائم کال سینٹرز میں دن رات نوجوان لڑکے لڑکیاں شفٹوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی فلپائن کی طرح کال سینٹرز انڈسٹری کو فروغ دینے کا پوٹینشل موجود ہے۔ میں نے اپنے کالموں میں ہمیشہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ دور اندیش، مخلص اور جرات مند لیڈرز ہی قوم کی قسمت بدلتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی لیڈرز کی ضرور ت ہے۔