احتساب:حجم اور اعتبار میں اضافہ

December 30, 2018

’’پانامہ لیکس‘‘ (2016) حکومتی امور میں حکمراں طبقے کی بے دریغ مالی بدعنوانیوں کی بے نقابی کا ایک عالمی دھماکہ تو تھا ہی، لیکن اس کا جو نتیجہ خیز فالو اَپ پاکستان میں ہوا، لیکس کی فہرست میں شامل کرپشن سے آلود کسی اور مملکت میں اس درجے پر نہ ہوا۔ ویسے تو آئس لینڈ کے وزیراعظم کو بیوی کے بلا جواز اثاثوں کے انکشاف پر ایک ہی روز کے عوامی احتجاج پر وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑا، بھارت میں بھی کچھ حکومتی کارندے اور بااثر شخصیات لیکس کی زد میں آئیں۔ ان پر مقدمات قائم ہوئے اور اب وہ بھارتی عدالتوں میں زیر عتاب و زیر احتساب ہیں۔ سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو اپنی معمولی موروثی لیکن غیر علانیہ جائیداد کے بذریعہ لیکس منکشف ہونے پر نیک نیتی کے سہارے پارلیمنٹ میں سوالوں کی بوچھاڑ میں طویل وضاحت دینا پڑی، اس کے باوجود ان کی سیاسی ساکھ مجروح ہوئی اور وہ بطور وزیراعظم خاصے ڈھیلے پڑ گئے۔ سو، جب برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں عوام نے وزیراعظم کے مؤقف کے برعکس معمولی اکثریت سے رائے دی تو اس کا سہارا لے کر وہ بھی خود ہی اپنے جمہوری جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہو گئے۔ اسی طرح پانامہ لیکس کے نتیجے میں یورپی ریاست مالٹا کے وزیراعظم کو بھی اقتدار سے نکلنا پڑا۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پانامہ لیکس کے انکشاف سے اس کے تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف کو اقتدار کی مدت کے چوتھے سال میں حکومت سے نکلنا ہی نہیں پڑا بلکہ ان کا مقتدر خاندان، پارٹی اور فرینڈلی اپوزیشن پیپلز پارٹی بھی احتساب کی زد میں آ گئی۔ پیپلز پارٹی میں صرف کرپشن الزامات میں عالمی شہرت رکھنے والے سابق صدر آصف زرداری ہی نہیں، ان کی ہمشیرہ، صاحبزادہ اور قریب ترین یارانِ مفادات بھی احتسابی دائرے میں آ چکے ہیں اور تو اور تبدیلی اور احتساب کی علمبردار نووارد تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم جناب عمران خان اپنی دیانت داری کی شہرت کے باوجود بغیر کسی عوامی عہدے کے خلافِ قانون چند خفیف بے قاعدگیوں کے مرتکب ہونے کے الزامات کی زد میں ہیں، وہ ہی نہیں ان کی ہمشیرہ، خود کو مداوے کی رقم کی ادائیگی سے کلیئر کرانے کے باوجود الزامات کی حد تک ن لیگ اور پی پی کی مشترکہ ہوتی اپوزیشن کے پروپیگنڈے اور سرکاری کارروائی کی زد میں ہیں۔ مقتدر شریف خاندان کے خلاف تو کرپشن کے الزامات میں قانونی عمل کا دائرہ، سزا یافتہ اسیر وزیراعظم نواز شریف کے برطانیہ میں آباد، برطانوی شہریت کے حامل صاحبزادگان کے خلاف سنجیدہ عدالتی احکامات تک وسیع ہو چکا ہے جبکہ سمدھی، سابق وزیر خزانہ کے وارنٹِ گرفتاری پہلے ہی جاری ہو چکے ہیں اور وہ مفرور بھی قرار دیئے جا چکے ہیں۔ صاحبزادی اور داماد ضمانت پر، سابق وزیراعلیٰ بھائی بھی حوالۂ نیب اور بھتیجا نیب کے الزامات کی زد اور ای سی ایل پر، گویا تقریباً پورا خاندان ہی احتسابی دائرے میں آ چکا۔

پنجاب اور سندھ کے کتنے ہی سابق اور موجودہ بیورو کریٹس نیب یا ایف آئی اے میں کرپشن یا کرپشن میں معاونت اور اس کے بینی فشری ہونے کے الزامات پر زیر تفتیش ہیں۔اب لاہور میں ریلوے کی قیمتی اراضی پر رائل پام کلب کی غیر قانونی حیثیت کے مشہور اسکینڈل کی خبر عدالتی کارروائی کے حوالے سے آئی ہے، جس میں بقول چیف جسٹس تین سابق جرنیل زیر عتاب آتے معلوم دے رہے ہیں۔ یہ کرپشن کہانی ہے بھی مشرف دور کی۔ پنجاب کے سابق متحرک وزیر اعلیٰ اپنی ’’بے مثال خدمت‘‘ اور ’’ایک پائی کی بھی کرپشن نہ کرنے‘‘ کے تمام تر دعوئوں کے ساتھ پہلے ہی نیب کی تحویل میں ہیں۔ اب سندھ کے وزیراعلیٰ بھی ای سی ایل کی فہرست میں آ گئے اور ان کے جوشیلے کمسن قائد بلاول بھی۔ فالودے اور رکشے والوں کے جعلی اکائونٹس سے جو اربوں کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف ہوا ہے، یہ فقط پروپیگنڈہ ہے یا بینک کا ریکارڈ بھی کچھ بتا رہا ہے، جس کی میڈیا بھی تصدیق مع ثبوت کر رہا ہے۔ لگ رہا ہے ’’اومنی گروپ‘‘ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ثابت ہو گا۔

امر واقع تو یہ ہے کہ کرپشن کے جو جو الزامات و انکشافات اب تک چھپی کرپشن کہانیوں کے منکشف ہونے کے ساتھ منظر عام پر آ رہے ہیں، بہت محتاط اندازے کے مطابق، ووٹرز ادھر کے ہوں یا ادھر کے، ایٹ لارج وہ انہیں بحال ہوتے ’’بیمار پاکستان‘‘ کی کڑوی حقیقتوں کے طور ہی جان رہے ہیں اور ذہناً آمادہ معلوم دے رہے ہیں کہ پاکستان بہرحال کرپشن کے موذی مرض سے نجات حاصل کرے۔ حقیقت یہی ہے کہ دفاع کیلئے لازمی ہونے والے سیاسی گٹھ جوڑ بشمول ن لیگ اور پی پی بڑھتے احتسابی عمل کو حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دے یا غیر قانونی، ہر دو بیانیے لغو ہیں۔ عوامی رویہ بھی اس کی مکمل تصدیق کر رہاہےکہ جاری عمل درست ہے۔ احتسابی عمل کا حجم جیسے جیسے بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے اس کا اعتماد بھی بڑھ رہا ہے۔ تبھی تو از خود زیر عتاب جماعتوں کے حامی تجزیہ کار بھی احتسابی عمل کے خلاف کسی عوام تحریک کو خارج از امکان قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک تفتیشی اداروں اور عدالتوں کا تعلق ہے، تھانہ کچہری سسٹم تو ’’نئے پاکستان‘‘ میں بھی اسٹیٹس کو کی بڑی اور سخت جان باقیات کے طور بدستور موجود ہے، تاہم احتسابی عمل کی کامیابی کی بڑی ضمانت اس کا ٹاپ سے ڈائون کی طرف ہونا ہے وگرنہ ’’جمہوری حکومتوں‘‘ کیلئے آئینی حکمرانی کا بھرم رکھنے کیلئے احتسابی عمل ڈائون ٹو ڈائون ہی ہوتا رہا یعنی چھوٹے چوروں کا ہی۔ اسی سے پھر رشوت کے ذرائع نکال لئے جاتے۔ متاثرین احتسابی عمل پر جتنی چیخ و پکار کر لیں، حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی نے پاکستان میں پہلی مرتبہ وائٹ کالر کرائمز کی کامیاب اور معیاری تفتیش کے نئے معیار قائم کئے ہیں۔ خود متاثرینِ احتساب اس کی پیشہ ورانہ مہارت سے تیار کردہ رپورٹس کے حوالے دے کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، گویا جے آئی ٹی نے تفتیش اندھا دھند کسی سیاسی دبائو اور اثر میں نہیں بلکہ ویسے ہی کی ہے جیسے پیشہ ورانہ انداز میں ہونی چاہئے لیکن ہمارے ہاں نہیں ہوتی رہی۔ وزیراعظم عمران خان اپنی طویل جدوجہد کے ہدف اور انتخابی وعدے کی حد تک احتسابی عمل کو نتیجہ خیز بنانے میں مکمل سنجیدہ نظر آتے ہیں اور ان کی اس میں مداخلت کا بھی کوئی شائبہ نہیں ملتا۔ اب گٹھ جوڑ اپوزیشن کے اس الزام کی کوئی اہمیت نہیں کہ جاری احتسابی عمل ’’انتقامی کارروائی‘‘ ہے۔ انتقام تو کسی ظلم و زیادتی کا ہوتا ہے، پی پی اور ن لیگی حکومتوں نے عمران خان سے کوئی ایسی زیادتی نہیں کی تھی جس کا وہ ان سے بذریعہ احتساب انتقام لیتے۔ ’’ستم‘‘ تو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے خود عمران خان ہر دو اسٹیٹس کو کی حکومتوں پر ڈھاتے رہے کہ شدت سے ان کی کرپشن کا پیچھا ساتھ ساتھ کرتے رہے، پوری جرات اور تسلسل سے اسے بے نقاب اور کڑے احتساب سے اسے ختم کرنے کا قوم سے وعدہ کرتے رہے۔ عدلیہ اور تفتیشی ادارے اسٹیٹس کو کی اسی روایتی مداخلت سے آزاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے تناظر میں شروع ہونے والے احتسابی عمل کا جوڈیشل ٹرائل، وزیراعظم نواز شریف کے کیس سپریم کورٹ کے حوالے کرنے سے شروع ہو کر سپریم کورٹ سے ان کی نااہلی اور نیب عدالتوں سے انہیں دس اور سات سال کی سزا تک کے قانونی عمل اور ان کے خلاف اپیل کی قانونی جدوجہد سے عبارت ہے۔