کیا شیشے کے سامنے کھڑے ہونے سے نماز ادا ہوجاتی ہے؟

January 04, 2019

تفہیم المسائل

مسجد میں محرابی دیوار پر شیشے لگانا

سوال: ہماری مسجد میں سامنے کی جانب جو کھڑکیاں ہیں ،اُن کے شیشے میں انتہائی واضح عکس نظر آتا ہے ،جیسے آئینے کے سامنے کھڑے ہوں۔اکثر نمازیوں کا کہنا ہے کہ عکس کی وجہ سے ہماری نماز نہیں ہوتی ،اس حوالے سے شرعی حکم بیان فرمائیں۔(ڈاکٹر طارق چغتائی ، کراچی)

جواب:نمازی کے سامنے شیشے کے دروازے یا کھڑکیاں ہوں تو نماز تو ہوجائے گی، البتہ اگر شیشے کی وجہ سے نمازی کی نماز میں خلل ہوتا ہو اور نمازی کی توجہ اس جانب جاتی ہو،تو نماز مکروہِ تنزیہی ہوگی ،یعنی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں،ان شیشوں میں جو عکس نظر آتا ہے ،اس کا حکم تصویر کا نہیں ہے۔

ہمارے فقہائے کرام نے قبلے کی جانب دیوار اور محراب میں نقش ونگار کو مکروہ فرمایا ،سبب یہ ہے کہ نمازی کا دھیان بٹے گا ، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ہمارے بعض مشایخ نے محراب اور قبلہ کی جانب دیوار پر نقش کو مکروہ جانا ہے، کیونکہ یہ نمازی کے دل کوغافل کرتاہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد5، ص:319)‘‘۔

تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’ اور محراب کے علاوہ مسجد میں نقش ونگار بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ،محراب میں نقش ونگار بنانا مکروہ ہے، کیونکہ یہ نمازی کو غافل کردیتے ہیں اور باریک بینی پر مشتمل نقش ونگار کا اہتمام کرنا مکروہ ہے ،خصوصاً قبلے کی دیوار میں ایساکرنا مکروہ ہے ۔یہ ’’حلبی‘‘ کا قول ہے ۔’’المجتبیٰ‘‘ کے باب الحظرمیں ہے: ایک قول یہ بیان کیاگیا ہے :محراب میں ایسا کرنا مکروہ ہے ،چھت اور پچھلی دیوارپر ایساکرنا مکروہ نہیں ،اس کا ظاہر معنی یہ ہے کہ محراب سے مراد قبلہ کی دیوار ہے ،پس اسے یادرکھا جانا چاہیے ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ، جلد4،ص:202-203،دمشق)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا: ’’جس مکان میں آئینے قد آدم چار طرف لگے ہوں ،اُس مکان میں نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ ‘‘ ، آپ نے جواب میں لکھا:’’ آئینہ سامنے ہو تو نماز میں کراہت نہیں کہ سببِ کراہت تصویر ہے اوروہ یہاں موجود نہیں اور اگر اسے تصویر کاحکم دیں تو آئینہ کارکھنا بھی مثل تصویر ناجائز ہوجائے، حالانکہ بالاجماع جائز ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ وہاں تصویر ہوتی ہی نہیں، بلکہ خطوط شعاعی آئینہ کی صقالت(شفافیت) کی وجہ سے لوٹ کر چہرے پر آتے ہیں ،گویا یہ شخص خود اپنے کو دیکھتاہے ،نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہو،(فتاویٰ امجدیہ ،جلداول، ص:184) ‘‘ ۔

مفتی وقارالدین رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیاگیا:’’ اگر محراب کے اندر شیشے جڑے ہوں اور محراب کی دیوار پر نمازیوں کی تصویر دکھائی دیتی ہو ،توکیا ایسی صورت میں نماز ہوجاتی ہے یانہیں ؟‘‘آپ نے جواب میں لکھا:’’ محراب یاقبلہ کی جانب دیوار میں شیشے اتنی اونچائی پر لگائے جاسکتے ہیں کہ خاشعین (عاجزی کے ساتھ نماز پڑھنے والے) کی نظر رکوع سے اٹھتے اور سجدے میں جاتے وقت،ان پر نہ پڑے اوراگر نیچے لگادیئے ہیں تویہ لگانا ناجائز ہے اور اس وجہ سے نماز میں کراہت ِ تنزیہی ہوتی ہے کہ ان پر نظر پڑنے کی وجہ سے خشوع میں فرق آئے گا۔ لیکن آئینے میں آنے والے عکس کا حکم تصویر کا نہیں ہے ، (وقارالفتاویٰ ،جلددوم،ص:73)‘‘۔

مزید ایک سوال ہوا:’’ مسجد کے برآمدے میں دروازوں پر شیشے لگے ہوئے ہیں ،اس میں مقتدی اور بعض اوقات امام کی بھی پوری تصویر نظر آتی ہے ،اس صورت میں نمازپڑھنا کیساہے اور اگر نماز پڑھی جائے توکیا اسے لوٹانا ضروری ہے یانہیں؟‘‘آپ نے جواب میں لکھا: ’’ نمازیوں کے آگے اتنی اونچائی تک کہ خاشعین کی طرح نماز پڑھنے میں جہاں تک نظر آجاتاہے ،شیشے لگانا یاکوئی ایسی چیز لگانا جس سے نمازی کا دھیان اور التفات ادھر جاتاہو ،مکروہ ہے۔لہٰذا اتنی اونچائی تک کے شیشے ہٹالینے چاہئیں،ان شیشوں میں اپنی شکل جونظر آتی ہے ،اس کے احکام تصویر کے نہیں ،لہٰذا نماز مکروہِ تحریمی نہ ہوگی، مگر مکروہِ تنزیہی ہے،(وقارالفتاویٰ ، جلد دوم ،ص:258)‘‘۔

لیکن اگر کوئی خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھ رہاہے اور اس کی نظر حالتِ قیام میں مقامِ سجدہ ،حالتِ رکوع میں اپنے قدموں اور حالتِ قعدہ میں اپنی گود پر مرکوز ہوتو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا ،ہماری کُتبِ فقہ میں آدابِ نماز یہی بتائے گئے ہیں ۔