’’گیتا گوپی ناتھ‘‘آئی ایم ایف کی پہلی خاتون چیف اکانومسٹ مقرر

January 04, 2019

عالمی مالیاتی ادارے (IMF) نے گیتا گوپی ناتھ کو ادارے کی اگلی چیف اکانومسٹمقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گیتا گوپی ناتھ 2018ء کے اختتام پر جب چیف اکانومسٹ کے طور پر اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گی تو اس کے ساتھ ہی وہ آئی ایم ایف کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کی سربراہی کرنے والی اولین خاتون کا اعزاز بھی حاصل کرلیں گی۔ اس وقت گیتا گوپی ناتھ ہارورڈبزنس اسکول میںانٹرنیشنل اسٹڈیز اینڈاکنامکس کی پروفیسر کی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں۔گیتا گوپی ناتھ کی ریسرچ میں میکرواکنامکس اور انٹرنیشنل فنانس بشمول شرحِ تبادلہ، تجارت، سرمایہ کا بہاؤ، پیداوار اور قرضہ جات شامل ہیں۔

کئی اہم پالیسی مسائل پر گیتا گوپی ناتھ، اپنے ادارے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتیں، جیسے کرنسی کی لچکدار شرحِتبادلہ کی پالیسی۔وہ سمجھتی ہیں کہ کسی بھی ملک کی کرنسی کی لچکدار شرحِ تبادلہ کے مقابلے میں یہ دیکھنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ڈالر (امریکی) کے مقابلے میں اس کرنسی کی شرحِتبادلہ کیا ہے۔

2014ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے لیے ایک تحریری مراسلے میں گیتا گوپی ناتھ نے آئی ایم ایف پر زور دیا تھا کہ وہ عالمی منڈیوں میں ہیجان کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ’مداخلت ختم کرنےکیلئے بحران پھوٹ پڑنے کا انتظار کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کو رہنمائی فراہم کرنی چاہیے کہ وہ عالمی مالیاتی منڈیوں میں ہیجان کو کس طرح ختم کرے گا‘۔

ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ گوپی ناتھ نے معاشیات کے جن مسائل پر ریسرچ کی ہےوہ روایتی سوچ کی نفی کرتی ہے اور اجتماعی سوچ کو مثبت انداز میں آگے بڑھاتی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ادارہ (آئی ایم ایف) مالیات، مارکیٹ کے تکنیکی اُتار چڑھاؤ اور حقیقی معیشت کے پھیلاؤ کے درمیان تعلق قائم کرنے، آنے والے معاشی اور مالیاتی رجحانات سے قبل از وقت خبردار کرنے کا نظام وضع کرنے، آئی ایم ایف پروگرامز کے تحت انفرادی ملکوں کی بیرونی اور مارکیٹ بحرانوں کے خلاف قوت مدافعت کو بہتر بنانے اور سرمایہ کے بہاؤ میں حد سے زیادہ اضافے یا انتہائی قلت کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پالیسی ترتیب دینے جیسے معاملات میں گوپی ناتھ کی رائے اور ریسرچ کو کس حد تک شامل کرتا ہے۔یہ سب اسی وقت ممکن ہوپائے گا، جب آئی ایم ایف میں بیٹھے اعلیٰعہدیدار کھُلے ذہن، فکری پھرتی اور ایک عرصے سے قائم روایتی سوچ کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے تیار ہوںگے۔

ایک ہونہار طالبہ

یہ 1991ء کی بات ہے جب گیتا گوپی ناتھ یونیورسٹی آف دلی میں بی اے کی طالبہ تھیں اور بھارت کو مالیاتی اور کرنسی کے بحران کا سامنا تھا۔ یہی وہ وقت تھا، جب گیتا کی ملکی معاشی صورت حال میں دلچسپی بڑھنے لگی اور اس نے اکنامکس کے شعبے میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ گیتا گوپی ناتھ کے لیے اس وجہ سے بھی نسبتاً آسان تھا، کیونکہ انٹرنیشنل فنانس میں ان کی عمومی دلچسپی پہلے بھی موجود تھی۔

اس کے بعد انھوں نے دلی اسکول آف اکنامکس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف واشنگٹن سے ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں، جس کے بعد انھوں نے پرنسٹن سے ڈاکٹریٹ کیا۔

گیتا گوپی ناتھ کے انتخاب پر آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا لگارڈ کہتی ہیں، ’گیتا، بے داغ تعلیمی ساکھ،ثابت شدہ دانشورانہ و قائدانہ صلاحیتوں اور وسیع بین الاقوامی تجربہ کے ساتھ اس وقت دنیا میں موجود غیرمعمولی صلاحیتیں رکھنے والے ماہرِ معاشیات میں سے ایک ہیں۔ یہ ساری باتیں، انھیں تاریخ کے اس اہم موڑ پر ہمارے ریسرچ ڈپارٹمنٹ کی سربراہی کرنے کا اہل بناتی ہیں‘۔

گیتا گوپی ناتھ کے بارے میں بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ایک اہلکار کہتے ہیں، ’گوپی ناتھ انتہائی باریک بینی سے کام کرتی ہیں، جس سے آئی ایم ایف کو اپنے رکن ملکوں خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کو عالمگیریت کے پیچیدہ معاشی اور سماجی چیلنجزسے نمٹنے کیلئے رہنمائی فراہم کرنے میں مدد ملے گی‘۔ انھیں 2011ء میں ورلڈاکنامک فورم نے ینگ گلوبل لیڈر بھی منتخب کیا تھا۔

آئی ایم ایف کیا ہے؟

آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے، جو رکن ملکوں کی معیشتوں اور انکی باہمی کارکردگی بالخصوص زرمبادلہ اوربیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے اور انکی معاشی فلاح اور ادائیگیوں کےخسارے سے نبٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ جنگ عظیم دوم کے بعد بریٹن ووڈز کے معاہدہ کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لیے دسمبر 1945ء میں قائم کیا گیا۔ اس کا مرکزی دفتر امریکا کے دار الحکومت واشنگٹن میں ہے۔ اس وقت دنیا کے 189ممالک اس کے رکن ہیں۔ یہ ادارہ تقریباً تمام ممالک کو قرضہ دیتا ہے، جو ان ممالک کے بیرونی قرضہ جات میں شامل ہوتے ہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ مقروض ممالک پر کچھ شرائط بھی لگائی جاتی ہیں، جن کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بگاڑتی ہیں۔ آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کے ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔