نیب قوانین میں ترمیم

February 09, 2019

وفاقی کابینہ نے جمعرات کے روز نیب کو مزید طاقتور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب غیر جانبدار اور شفاف ہوتا نظر آنا چاہئے، ایکٹ بیلنسنگ لگے تو اداروں پر اعتماد باقی نہیں رہتا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اِس حوالے سے کہا کہ ماضی میں اداروں کے مابین تنائو رہا، اب عدلیہ آزاد، فوج اور حکومت میں بہترین کوآرڈی نیشن ہے اور رہے گی۔ یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ریاستی اداروں میں مربوط تعاون کے بجائے کھینچا تانی کی کیفیت ہو تو کوئی بھی حکومت اپنا اولین فریضہ یعنی آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے میں کامرانی سے ہمکنار نہیں ہو پاتی۔ وطن عزیز کا جائزہ لیا جائے تو جو بے یقینی دکھائی دے رہی ہے ہمارے لئے کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں چنانچہ تمام تر اداروں کو آئین کی بالا دستی یقینی بنانے پر توجہ مبذول کرنا ہو گی تاکہ ابہام کا خاتمہ ہو سکے۔ پاکستان سردست کسی بھی نوع کے سیاسی، سماجی، علاقائی یا اقتصادی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا انفرادیت سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت اورحب الوطنی کا سب کو ثبوت دینا ہو گا۔ نیب کے بارے میں وفاقی کابینہ کا بیان اور عزائم وقت کی ضرورت ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے جو ادارہ سب سے زیادہ تنقید کا ہدف بنا وہ نیب ہی تھا۔ احتساب کیلئے یہ ادارہ مسلم لیگ (ن) نے قائم کیا تھا، 12اکتوبر 1999ء کو مسلم لیگ( ن) کی حکومت کو برطرف کر کے پرویز مشرف نے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لی تو محض 4دن بعد ایک آرڈیننس کے ذریعے قومی احتساب بیورو قائم کیا جو ہنوز موجود ہے اور روبہ عمل بھی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان ادوار میں اس ادارے سے احتساب کے بجائے بادی النظر میں انتقام کو فروغ دیا گیا، سیاسی رہنمائوں پر مقدمات کی بھرمار ہو گئی، البتہ بعد ازاں خود سیاسی جماعتوں کو ادراک ہو گیا کہ اس طرزِ عمل نے کسی اور کو نہیں خود انہیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، یہی وجہ ہے کہ لندن میں ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں کے مابین ہونے والے میثاقِ جمہوریت میںیہ بھی طے پایا کہ احتساب کا عمل تو جاری رہے گا تاہم اسے شفافیت کے ساتھ حقیقی احتساب کیلئے ہی جاری رکھا جائے گا۔ بہرکیف پھر حالات ایسے ہو گئے کہ میثاقِ جمہوریت پر عمل نہ ہو پایا۔ جہاں تک بات ہے موجود قومی احتساب بیورو کی تو یہ نہ صرف ایک عرصہ سے اپوزیشن اور سیاسی و سماجی حلقوں کی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے بلکہ عدالت عظمیٰ بھی اس کے بعض اقدامات پر حیرت و خفگی کا اظہار کر چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خود مختار ادارہ ہے، یہ اس کی خود مختاری نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے جسے چاہا اٹھا کر اندر کر دیا، جس پر عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑا کہ نیب پہلے مطلوبہ تفتیش تو کر لیا کرے۔ یوں بھی ایک جمہوری ملک میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کو جوابدہ نہ ہو۔ یاد رہے کہ نیب کے ایسے ہی معاملات پر جس میں ’’پلی بارگین‘‘ بھی شامل تھا، عدالت عظمیٰ نے گزشتہ برس دسمبر کے آخری دنوں میں نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ ’’اے‘‘ کے اسکوپ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو فروری کے پہلے ہفتے تک اس’’دفعہ‘‘ میں ترمیم کی مہلت دی تھی۔ حکومتی پیش رفت خواہ عدالتی حکم کے سلسلے میں ہی ہوئی ہو، ایک احسن امر ہے۔ معاشی ارتقا و استحکام کے لئے احتساب کا عمل جس قدر ضروری ہے اس سے بھی زیادہ اہم اس عمل کی غیر جانبداری و شفافیت ہے ورنہ مطلوبہ مقاصد کا حصول تو کجا الٹا معاملات خرابی بسیار کی جانب جانےکا اندیشہ رہتا ہے۔ حکومت نے اب یہ بیڑہ اٹھا ہی لیا ہے تو اسے نیب کی وہ تمام خامیاں دور کرنا ہوں گی جن کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے، کمزوریاں دور کرکے اگر اسے اختیارات دینے کی ضرورت ہو تو وہ بھی دیئے جائیں لیکن اسے ایسا موثر ادارہ بنایا جائے کہ اس کی شفافیت اور غیر جانبداری اس کے اقدامات سے عیاں ہو۔ اس ضمن میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت کو لازم کیا جائے تا کہ ایک ایسا جامع و موثر نظام وضع ہو سکے کہ جس کو کسی بھی صورت مطعون کیا جا سکے نہ اس سےسیاسی انتقام کا کام لیا جا سکے۔