کرتارپورسےپلوامہ تک

February 22, 2019

کراچی (تجزیہ:مظہرعباس)وزیراعظم عمران خان کی زیرِ قیادت پاکستان کی نئی لیڈرشپ نےبھارت کی جانب سے مثبت ردِعمل موصول ہوئےبغیر آگے بڑھنے کیلئےکچھ دلیرانہ اقدامات کیے ہیں۔ کرتار پور راہداری کا افتتاح اُن میں سے ایک ہے، مذاکرات بھی ایک اقدام ہے۔ بھارت کو جوبات سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہےکہ دوجوہری ریاستوں کے درمیان ’جنگ کی بجائےمذاکرات‘ واحد راستہ ہے۔ پاکستان دہشتگردی پر معنی خیز مذاکرات کرنےکیلئے تیار ہے۔ تاہم بھارتی انتخابات سے قبل پلوامہ جیسےواقعات انتہاپسندذہنیت اوربی جی پی کےپاکستان مخالف بیانیہ کی حمایت میں جاتے ہیں، یہ بیانیہ پلوامہ واقعےکےبعدکی الیکشن مہم سےبھی ظاہر ہورہاہےکیونکہ یہ ان کامرکزی نکتہ بن گیاہے۔ عمران خان تمام معاملات پرایک سےزیادہ بارمذاکرات کی پیشکش کرچکےہیں اور بھارت کوماضی سےباہرنکلنےکامشورہ دیاہے۔ لہذایہ یقین کرنےکی کئی وجوہات ہیں کہ پاکستان اس میں ملوث نہیں۔ یہ نیاپاکستان ہے۔انھوں نےکہا،’’ہم اپنی سرزمین کودہ شتگر دی کیلئےاستعمال کرنےکی اجازت نہیں دیں گےاورنہ ہی اپنےملک میں دہشتگردحملےکی اجازت دیں گے۔‘‘ گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان نےبھارت کوکئی بارمذاکرات کی پیشکش کرکےبہت سےبھارتیوں کوحیران کردیا۔ اپنی حلف برداری کی تقریب میں انھوں نے بھا ر تی لیجنڈزکپل دیو، سنیل گواسکر اور سدھو کو دعوت دی تھی اور تب ’کرتار پور بارڈ‘ کھولنےکی پیشکش کی۔ حتٰی کہ موجودہ بھارتی ٹیم نے خیر سگا لی کے طورپرعمران خان کوبلابھیجاتھا۔ لہذا انھوں نےاپنی مدت کا آغازبھارت اور افغانستان دونوں کے ساتھ مذا کر ا ت کی پالیسی کے ساتھ اچھا کیا۔ پہلی بار سول ملٹری لیڈرشپ ایک پیج پر نظر آئی اورکرتارپور کی پیشکش پہلی بار آرمی چیف جنرل چیف قمرجاوید باجوہ کی طرف سے آئی۔ عمران بھارت میں ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں لیکن اِن اقدامات مزید مقبول بنادیا۔ حتٰی کہ سدھو نے ان خیالات کا اظہار کیا تھاکیونکہ انھوں نے اُن کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی تھی لیکن باقی دونوں نے دعوت کو ردنہیں کیاتھا لیکن پہلے سے طے شدہ مصروفیات کےباعث شرکت سے معذرت کرلی تھی۔ عمران کی جانب سے یکے بعد دیگرے پیش کش کے باعث انھیں بھارت میں کافی سراہاگیااور کچھ نامور بھارتی صحافیوں نے اپنی حکومت کو پاکستان کی نئی قیادت سےمذاکرات دوبارہ شروع کرنےکا مشورہ دیا۔ عمران نے اپنی پہلی تقریر میں ‘غربت‘ کا بطورمشترک وجہ کےحوالہ دیا کہ کیوں پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کرنےچاہیئے۔ پھر انھوں نے اپنے ہم منصب وزیراعظم نریندرامودی کوخط لکھا اور اس میں اپنا عہد دھریا۔ دوسری جانب سے ردعملِ مثبت نہیں تھا لیکن پھر بھی کرکٹ سے سیاست میں آنے والاپاکستانی سیاستدان مایوس نہیں ہوا اور یہ کہتے ہوئے مطمئن رہا ’بھارتی انتخابات ایک وجہ ہوسکتے ہیں جس کے باعث بی جے پی حکومت مذاکرات سے گریز کررہی ہے۔‘ سدھوکو بھارت میں تنقید کا سامنا کرناپڑا لیکن انھوں نے عمران اور باجوہ دونوں کابہادری سے دفاع کیا جس کے باعث بھارت میں نئی بحث چھڑ گئی اور حتٰی کہ حکمران جماعت بی جے پی میں بھی سوچ منقسم ہوگئی۔ بعد میں لاہور میں کرتارپور کی طرف ایک تقریب کا اہتمام کیاگیا تو پاکستان نے بھارتی وزیرِ خارجہ سوشما سوراج کو دعوت دی۔ تاہم وہ نہیں آئیں اور انھوں نے ایک جونیئروزیر کو بھیجا لیکن انھوں نے اصولی اقدام کاخیرمقدم کیا۔ ان تمام اقدامات سے پاکستان اور وزیراعظم کا نہ صرف بھارت بلکہ دنیابھر میں مثبت امیج بنانے میں مدد ملی۔ لہذا جب ’پلوامہ کا واقعہ‘ رونما ہوا جس میں 44 بھارتی فوجی ایک خودکش حملے میں مارےگئے، یہ حملہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، پاکستان کے دفترِ خارجہ نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ تحقیقات میں تعاون کی پیش کش بھی کی۔ منگل کو اپنےچھ منٹ کےویڈیوبیان میں پاکستانی وزیراعظم نے یہاں تک کہااور بھارت کو ’دہشتگردی‘پرمذاکرات کی پیشکش کی، پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات مسترد کیے، نئی دہلی کو غوروفکرکرنےکامشورہ دیا، انھیں اپنی کشمیر پالیسی پر سنجیدگی سے نظرثانی کا مشورہ دیا اور آخرمیں واضح طور پر کہاکہ کسی بھی ملٹری ایڈونچرکی صورت میں پاکستان جواب دینے کا سوچے گا بھی نہیں بلکہ جواب دے گا۔