امریکا اور شمالی کوریا کے ناکام مذاکرات

March 06, 2019

وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سنیڈز نے اعلان کیا ہےکہ ویتنام میں امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے مابین جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے بارے میں مذاکرات کا دوسرا دور بغیر کسی نتیجے پر پہنچے اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ ہر چند کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں مگر دونوں جانب کے سفارت کاروں کو قدرے امید ہے کہ آئندہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔

گزشتہ سال دونوں رہنماوئں کی پہلی ملاقات میں جو ہری معاملات کے مسئلے پر کم پیش رفت ہوئی تھی مگر توقعات زیادہ تھیں کہ کوئی بات بن جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے پہلی بار ملاقات میں اور اب بھی صدر کم جونگ ان ، کو یقین دلایا کہ اگر شمالی کوریا جوہری ہتھیارروں کی تیاری سے ہاتھ اٹھا لئے اور ملکی ترقی پر دھیان دے تو شمالی کوریا دنیا کی بہت بڑی معیشت ،ترقی یافتہ ملک بن کر ابھر سکتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ سمیت دیگر تمام امریکی رہنمائوں اور سفارت کاروں کو تشویش ہے کہ شمالی کوریا دنیا کے امن کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ ادھر چین نے بھی خبردار کیا ہے کہ شمالی کوریا میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جس سے کسی بھی وقت جنگ کا خطرہ ہے اگر ایسا ہوا تو شاید فتح کسی کی بھی نہ ہو۔ تمام تر کشیدگی اور مسائل کے باوجود شمالی کوریا نے حال ہی میں ایک بڑی قومی تقریب کے موقع پر بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کرڈالا،تاہم چین جو شمالی کوریا کا واحد دوست ملک ہے اس نے بھی شمالی کوریا کے اس اقدام کو سخت ناپسند کیا اور ایک سال کے لئے شمالی کوریا سے کوئلہ کی خریداری کا سودا منسوخ کر دیا۔مگر صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ چین ہی وہ ملک ہے جس کی بات شمالی کوریا مانتا ہے لیکن چین جوہری ہتھیاروں کے مسئلے پر شمالی کوریا پرحقیقی دبائو نہیں ڈال رہا ہے اگرچین نے اس مسئلے کو حل نہ کرنے کی صورت میں دلچسپی نہ دکھائی تو امریکا سے تجارت میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکی صدور شمالی کوریا کے رہنمائوں سے براہ راست بات چیت سے کنی کتراتے رہے ،کیونکہ یہ بات مشہور ہے شمالی کوریا کے رہنما میز پر بات چیت میں مقابل کو جیتنے کا موقع نہیںدیتے۔ صدر ٹرمپ دو بار بہت پرجوش انداز میں مذاکرات میں شریک ہوئے مگر کم جونگ ان ،سے بات چیت کے بعد وہ بھی مایوس اٹھے۔شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان، کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ پہلے امریکا شمالی کوریا پر سے تمام پابندیاں ختم کرے پھرمذاکرات کرے اس کے بغیر شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو کیپ نہیں کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اگر پابندیاں نرم کر دی جائیں تو کچھ بات آگے بڑھ سکتی ہے مگر اب وہ اس سے بھی انکاری ہے۔ ویتنام میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد خیال ہے کہ صدر ٹرمپ ماضی قریب کی طرح شمالی کوریا پر برسنے لگیں گے۔ رچرڈ ہارس جو وزارت خارجہ کے اہم ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے، برا سمجھوتہ سے بہتر ہے کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا مذاکرات کے دوسرے دن بعد از ظہرانہ طے تھا کہ دونوں رہنما پریس کانفرنس کر یں گے ،جس میں کوئی اہم اعلان متوقع ہے، مگر ویتنام کے تاریخی ہوٹل میٹرو پول میں دوپہر کو سناٹا تھا۔ اس پر سب کو شدید مایوسی ہوئی،کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوا۔ ایک امریکی مندوب کا خیال تھا کہ صدر ٹرمپ نے بہت وقت ضائع کیا۔ان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو اس سال کا امن نوبل انعام متوقع تھا جو اب ایک خواب ہی رہ گیا۔انہیں ایک نہیں مختلف صدمات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔صدر ٹرمپ سے ایک سینئر امریکی نامہ نگار نے سوال کیا کہ، اگر امریکا شمالی کوریا پر سے پابندیاں اٹھا لے اور پھر اس سے مذاکرات کئے جائیں تو امریکا کو اس میں کیا قباحت ہے ؟

صدر ٹرمپ نے جواب دیا،شمالی کوریا پر سے پابندیاں اٹھانا بہت خطرناک فیصلہ ہو گا ،وہ پابندیاں اٹھاتے ہی اپنی آنکھیں پھیر لے گا اور ہمارے پاس جو لیور ہے وہ بھی ہاتھ ے نکل جائے گا۔ اس حوالے سے وال اسٹریٹ جرنل اور نیویارک ٹائمز کے ماہرین کی ٹیم نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو ،شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں اور دور مار میزائلوں پر ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جاری عالمی حالات بہت نازک دور سے گزر رہے ہیں۔دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو اور ٹکرائہ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔روس نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو میں کمی کے سمجھوتے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان جو جوہری قوتیں ہیں، آمنے سامنے کھڑی ہیں، جس سے نہ صرف اس خطے کو بلکہ دنیا کے امن کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہے۔ ایران اپنے جوہری پروگرام کو ری ایکٹو کر رہا ہے، جبکہ شمالی کوریا ماضی کی طرح اپنے جوہری پروگرام اور میزائل پروگرام پر ڈٹا رہے گا۔ اس کی وجہ سے امریکا کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ادہر جاپان میں بھی شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی وجہ سے شدید اضطراب پایاجاتا ہے۔ امریکی خلائی سیارچوں کی ایک نمایاں تعداد شمالی کوریا کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ان سے حاصل ہونے والی تصاویر سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو بدستور آگے بڑھانے میں مگن ہے۔ہرچند کہ شمالی کوریا میںخوراک، روزمرہ کی اشیاء اور دوائوںکی شدید قلت ہے۔ عوام کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر شمالی کوریا کی افواج اور صدر ہتھیاروں کی تیاری ان کو جدید بنانے اور ان کی تعداد میں اضافہ پر پوری سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔

امریکا جوہری ہتھیاروں سے سخت تشویش مبتلا ہے۔ ان ملکوں نے امریکا کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں بھی دی ہیں، اس کے ساتھ ہی دور مار بیلسٹک میزائل بھی تیار کر رہیں، جو امریکا کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ان حملوں سے صرف امریکا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا وجود خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔ اس لئے اب امریکا جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کرنے اور نئے ہتھیاروں پر پابندی لگانے پر زور دے رہا ہے۔ دنیا فی الفور آٹھ ایٹمی قوتیں مثلاً روس 6.852بم ،امریکا 6580بم،365بم، فرانس300بم ، برطانیہ216بم، پاکستان 150 بم ، بھارت 130بم اور اسرائیل 80( غیر اعلانیہ) جبکہ شمالی کوریا اور ایران بم اور میزائل تیار کر رہے ہیں۔ اس طرح دنیا میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جوہری ہتھیاروں کی تعداد پندرہ ہزار سے زائد ہے جو پورے نظام شمسی کو تباہ کر سکتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ دنیا کو اب جنگوں سے نکل کر سوچنا ہو گا دنیا کو اور بھیانک خطرات لاحق ہیں اور کب کیا ہو جائے، ہم نہیں جانتے۔ دو شہاب ثاقب زمین کی طرف آ رہے ہیں۔ اوزون لیئر مزید چوڑی ہو رہی ہے۔گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موسمی تغیرات سے ملکوں میں تباہیاں۔آلودگی میں انتہائی اضافہ اور آبادی میں شدید بے ترتیب اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ سائنس دان اور ماہرین مزید خوفناک خطرات کا تجزیہ کر رہے ہیں، جس سے اس دنیا کو اور تمام انسانوں کو بھیانک خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ،جن میں لیزر ہتھیار خلائی ہتھیار، روبوٹس کی بہتات اور مصنوعی ذہانت وغیرہ شامل ہیں ۔

درحقیقت یہ سب کچھ انتہائی خود غرضی ،طبع اور طاقت کی حرص پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کارپوریشن بنانے، اجارہ داریاں قائم کرنے اور دنیا کی زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی سرگرم جدوجہد میں مصروف ہے۔روس کے صدر نے گزشتہ دنوں ماسکو میں نوجوانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ حقائق بتائے تھے انہوں نےکہا کہ ہم حرص اور لالچ کی اس دوڑ کو روکنے میں ناکام رہے۔ اب ہر جگہ آپ کو روبوٹس کام کرتے نظرآئیں گے۔نئی نسل کا کیاہو گا؟