قاضی حسین احمد۔ اسلام کاایک عظیم مجاہد

January 07, 2013

اتوار صبح فجر کی نماز کے لیے موبائل کا الارم بجا تو حسب عادت نیم نیند کی کیفیت میں ہی ایس ایم ایس پیغام پڑھنے کی کوشش شروع ہی کی تو خبر ملی کہ قاضی حسین احمد انتقال کر گئے۔ یہ پیغام پڑھتے ہی نیند اُڑ گئی، زبان سے ایک دم انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا اور دل ایسے بیٹھ گیا گویا میرا کوئی اپنا بہت قریبی مجھ سے جدا ہو گیا۔وضو کیا، نماز کے لیے مسجد گیا، واپس آیا مگر دل تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ محترم قاضی صاحب کا چہرہ تھا کہ ایک پل کے لیے بھی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کبھی اُن کی مسکراہٹ، تو کبھی شفقت سے بھرا غصہ اور کبھی اُن کامخصوص پشتو کے لہجے میں اردو بولنے کا انداز سب آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ ابھی چند دن پہلے ہی رات کوئی نو دس بجے کے وقت قاضی صاحب سے بات کرنے کے لیے فون کیا تھا تا کہ علامہ طاہر القادری factor پر اُن سے بات کی جائے ۔موبائل اُن کے سیکرٹری نے اُٹھایا اور بتایا کہ قاضی صاحب کی طبیعت خراب ہے اس لیے جلدی آرام کے لیے چلے گئے۔ اس پر میں نے قاضی صاحب کی بیٹی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے بات کی تو پتہ چلا کہ معمول کے دمہ کا مسئلہ ہے۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ چند ہی دن کے بعد اسلام کا یہ عظیم مجاہد ہم سے اس طرح جدا ہو جائے گا۔ کہنے کو تو قاضی صاحب عملی سیاست سے چند سال قبل ریٹائر ہو چکے تھے مگر عمر کے اس حصہ میں بھی قاضی صاحب کا جوش و لولہ نوجوانوں والا تھا اور 74 سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اب بھی بہت کچھ کر گزرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے ۔وہ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے اور اسلامی امہ کے اتحاد کے داعی تھے۔ دنیا میں کہیں بھی اسلامی تحریک چلتی اور کامیاب ہوتی اُس پر قاضی صاحب فخر کرتے اور جہاد کرنے والوں کی کھلے عام حمایت کرتے۔ اسلامی جماعتوں اورعلماء کرام کے خلاف کبھی کوئی بات نہ کرتے بلکہ اُن کی زندگی میں ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اسلامی سوچ رکھنے والے اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر ایک اللہ اور رسول پاکﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں مل کر اسلام دشمن قوتوں کا سامنا کریں اور آپس کے تنازعات کو ختم کریں۔ حال ہی میں جب قاضی صاحب پر خودکش حملہ کیا گیا تواسلام سے محبت کرنے والے اس درویشنے اس بات کو مکمل رد کر دیا کہ تحریک طالبان پاکستان نے اُن پر حملہ کیابلکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے کیا گیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش کی یہ حالت تھی کہ جماعت اسلامی کی امارت سے دستبرداری اور عملی سیاست سے فراغت کے بعد انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کو دوبارہ فعال بنایا جس کا مقصد مختلف مکتبہ فکر اور مذہبی فرقوں کو اکٹھا کرنا تھا تاکہ فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ چند ماہ قبل ایک ملاقات کے دوران قاضی صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملکی یکجہتی کونسل ایک ایسا نظام وضع کرے جس کے ذریعے ملک بھر کی تمام مساجد میں جمعةالمبارک کی نماز کے لیے ایک متفقہ خطبہ جاری کیا جائے جو فروہی مسائل کو ہوا دینے کی بجائے اسلام کے بنیادی عقائد کی ترویج کرے تاکہ مسلمان میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ ملے۔ گزشتہ سال میڈیا کے ذریعے پھلائی جانی والی فحاشی و عریانیت کے مسئلہ پر میڈیا کے اندر سے جب شور اُٹھا تو اس بُرائی سے معاشرہ کو پاک کرانے کے لیے میں نے ملک کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ ترین رہمناؤں سے بات کرنے کے علاوہ پاکستان کے کچھ بڑے بڑے علمائے کرام سے بھی ملاقاتیں کیں مگر ان میں سے اکثر نے مجھے مایوس کیا۔ کچھ نے زبانی جمع خرچ کیا ۔ مگر فحاشی کے خلاف اس جنگ میں قاضی صاحب نے جو کیا وہ کوئی دوسرا نہ کر سکا۔ چند ماہ قبل ایک شام میں نے قاضی صاحب کو فون کیا اور ملنے کی درخواست کی۔ اُسی رات میری قاضی صاحب سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی جس میں میں نے اُن سے فحاشی و عریانیت کی لعنت کے خلاف کچھ کرنے کی درخواست کی۔ قاضی صاحب نے مجھ سے کہا کہ دو دن کے بعد قومی یکجہتی کونسل کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں وہ اس لعنت کے خلاف متفقہ قرارداد پاس کروائیں گے۔ دو دن کے بعد کونسل کا اجلاس ہوتا ہے جس میں فحاشی و عریانیت کے خلاف متفقہ قرارداد پاس کر دی جاتی ہے۔ اس کے چند روز کے بعد قاضی صاحب چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ نجی ٹی وی چینلز کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی اور انڈین کلچر کو روکنے کے لیے سو موٹو لیا جائے۔ قاضی صاحب کی درخواست پر چیف جسٹس پیمرا اور تمام متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کرتے ہیں۔ قاضی صاحب منصورہ لاہور میں واقع اپنے گھر میں تھے جب اُن کو اطلاع ملی کہ اگلے دن ہی سپریم کورٹ میں اُن کا کیس لگ رہا ہے۔ میری قاضی صاحب سے بات ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ کے لیے مشکل ہو گاکہ صبح سپریم کورٹ تشریف لاسکیں مگر ان کے عزم کا یہ حال تھا کہ کہنے لگے کہ کیس کی اہمیت کی وجہ سے وہ ہر حال میں خود سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔ قاضی صاحب شرافت، انکساری اور سادگی کا ایک بہترین نمونہ تھے۔ کوئی جماعت اسلامی کی سیاست اور پالیسیوں سے اتفاق کرے یا اس کا مخالف ہو مگر قاضی صاحب کی شخصیت سب کے لیے ہمیشہ قابل احترام اور غیر متنازع رہی۔کسی بھی شخص کا دنیا سے جانا یقیناً اُس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے لیے غم کا باعث ہوتا ہے مگر قاضی صاحب کی جدائی نے لاکھوں کروڑوں کو اداس کر دیا ۔ دنیا بھر کے مسلمان اور اسلام پسند ایک عظیم مجاہد سے محروم ہو گئے ۔مگر اللہ کی یہی رضا تھی۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ اے رب کریم قاضی صاحب کے اعمال کو قبول فرما، ان کے گناہوں اورسرزنشوں کو معاف فرما اور ہمیں بھی قاضی صاحب کی طرح اپنے دین کے کام کے لیے چن لے۔ آمین۔