سوئٹزرلینڈ کا اپرنٹس شپ ماڈل

March 17, 2019

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ دنیا تیز ترین صنعتی تبدیلی کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے، جس کے تمام شعبہ ہائے زندگی پر دور رس نتائج مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔

امریکا کی بات کریں تو وہاں بڑھتی آٹومیشن آئندہ 2 عشروں کے دوران کروڑوں روایتی نوکریوں کو نگل جائے گی، جنہیں انسان ہاتھوںسے انجام دیتے ہیں۔ تخمینہ ہے کہ اس آٹومیشن کے نتیجے میں وہاں، 20سے 25فیصد افرادی قوت اپنی موجودہ روایتی نوکریوں سے محروم ہوجائے گی۔ تاہم کہتے ہیں کہ ناگزیر تبدیلیوں سے ڈرنے کے بجائے، عمل اور تدبیر سے اس کا مقابلہ کیا جانا بہتر رہتا ہے۔

رواںسال ورلڈ اکنامک فورم کی ڈیووس میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں لیبر لیڈرز، ایگزیکٹوز اور پروفیسرز اس بات پر متفق نظر آئے کہ مستقبل میں جاب مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے افرادی قوت کو تربیت فراہم کرنے کےنئے طریقے فوری طور پر دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ہی ایک نیا طریقہ سوئٹزرلینڈ کا اپرنٹس شپ ماڈل ہوسکتا ہے۔

Bain & Company تعلیمی تحقیق اور تربیت کے شعبہ میں کام کرنے والا ادارہ ہے۔ یہ ادارہ مختلف امریکی ریاستوں اور مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر ’’آن جاب ٹریننگ پروگرامز‘‘ پر کام کررہا ہے۔ یہ پروگرام اسی مقصد کے تحت آج تک امریکا میں ڈیزائن کردہ پروگراموں سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس پروگرام کا آئیڈیا سوئٹزرلینڈ کے اپرنٹس شپ پروگرام سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

کرس بیرلی اور ابیگیل اسمتھ، بین اینڈ کمپنی میںپارٹنرز ہیں۔ بین پارٹنرز نے اس سلسلے میں Making the Leapکے نام سے تحقیقی رپورٹ تحریر کی ہے۔ اس رپورٹ میں سوئٹزرلینڈ کے Career-connected learning (CCL) ماڈل کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ماڈل کو کس طرح پرائیویٹ-پبلک پارٹنرشپ کے تحت امریکا میں لاگو کیا جاسکتا ہے، جس کے امریکی سسٹم اور روزگار کی تلاش میںمصروف افرادی قوت کی نوکری سے متعلق ذہنیت پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔

بین پارٹنرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ریاستوں میں کولوراڈو، ڈیلاویر، واشنگٹن اور وِنسکونسن کے ’جاب ٹریننگ پروگرام‘ امریکا بھر میں سب سے بہترین ہیں۔ بین پارٹنرز 2017ء میں ڈینور اور 2018ء میں ریاست واشنگٹن کے ساتھ CCL پروگرام پر کام کرچکے ہیں۔

تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ مارکیٹمیں نوکریوں کی کمی نہیںہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دستیاب نوکریوںکے لیے اہل افرادی قوت دستیاب نہیںہے۔ اس مسئلے کا حل، ریاست بہ ریاست اور مختلف ملکوں کے لیے الگ ہوسکتا ہے، تاہم درج ذیل کچھ نکات کی مدد سے ہر ریاست کی اپنی ضرورت کے مطابق CCL پروگرام کے خدوخال تیار کیے جاسکتے ہیں۔

* مڈل اسکول تک پہنچتے، ایک طالبِعلم اپنی ریاست کے CCL پروگرام کو سمجھ چکا ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد اچھی تنخواہ والی نوکری کے حصول کی طرف اس کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایک طویل کیریئر کا آغاز یا 4سالہ کالج ڈگری کی طرف پہلا قدم ہوسکتا ہے۔

* ہائی اسکول میں وہ نرسوں اور سرجیکل ٹیکنیشنز کے لیے Job-shadowing پروگرام میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ بطور جونیئر یا سینئر، سرجیکل ٹیکنیشن کے لیے وہ تین سالہ CCLپروگرام کے لیے درخواست دیتے ہیں۔

* کلاس روم لرننگ میںآن جاب ٹریننگ کو شامل رکھا جاتا ہے۔ تربیت کے پہلے سال کے دوران، وہ وسیع تر کوچنگ اور مینٹورشپ حاصل کرتے ہیں۔ ہفتے کے تین دن کسی ہسپتال میں کام کرتے ہیں، جبکہ باقی وقت مقامی کمیونٹی کالج میں تعلیم حاصل کرتےہیں۔

* 60کریڈٹس مکمل کرنے کے بعد وہ ایسوسی ایٹ ڈگری حاصل کرتے ہیں اور ان کی سند کو انڈسٹری اور ریاست کی جانب سے تسلیم کیا جاتا ہے۔

* تین سالہ CCLپروگرام کے اختتام پر وہ یا تو کسی ہسپتال میں کُل وقتی کام حاصل کرسکتے ہیں، جس کی موجودہ سالانہ تنخواہ 46ہزار ڈالر (علاوہ دیگر فوائد) ہے، یا پھر 4سالہ کالج ڈگری حاصل کرنے جاسکتے ہیں، جس کے لیے انھیں میڈیکل اسکول کا رُخکرنا پڑے گا۔

سوئٹزرلینڈ میں، 15سال کی عمر کو پہنچنے والے 70فی صد طلباء تین سالہ اپرنٹس شپ اختیار کرتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کا CCLپروگرام اس قدر کامیاب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کمپنیاں اپنی سرمایہ کاری کے منافع (ریٹرن) پر نظر رکھتی ہیں۔ سوئس کمپنیوں کی توجہ کے باعث یہ پروگرام نجی اور سرکاری، دونوں شعبہ جات کے لیے منافع بخش ہے۔ بین پارٹنرز کا کہنا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے اس پروگرام کو امریکا اور دیگر ملکوں میںبھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔

تاہم محققین کا کہنا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کا CCLپروگرام امریکا یا کسی اور ملک میں کامیابی سے اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں ’کلچرل شفٹ‘ لایا جائے، جہاں ووکیشنل اسکولوں اور اپرنٹس شپ پروگرامز کو روایتی تعلیم کے مساوی اہمیت حاصل ہو۔

’’سوئٹزرلینڈ نے ہنر اور فنی تربیت کی اہمیت سمجھ لی ہے، باقی دنیا کے لیے ابھی ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ اب امریکا اس کلچر کو اپنانے کی کوشش کررہا ہے۔