8 ماہ میں ٹیکس کلیکشن میں 233.2 ارب روپے کے خسارے کا سامنا

March 18, 2019

اسلام آباد(مہتاب حیدر)پریشان کن صورتحال میں حکومت نےایف بی آر کےآغازسےاب تک کی تاریخ کاسب سےزیادہ ٹیکس خسارہ دکھایاہے کیونکہ بڑھتاہوایہ خسارہ جون 2019تک 485.9 ارب روپےتک پہنچ سکتاہے۔ اعدادوشمار کےمطابق ایف بی آر اپنی تاریخ کے سب سے بڑے ٹیکس خسارے کی طرف بڑھ رہاہے اس کے ساتھ ہی یہ خطرہ بھی ہے کہ ملک کابجٹ خسارہ گزشتہ سال پی ایم ایل(ن) کی زیرقیادت حکومت میں ریکارڈشدہ جی ڈی پی 6.6فیصدکےبرعکس موجودہ مالی سال کیلئےجی ڈی پی کے7فیصدتک بڑھ سکتاہے۔ لہذا پی ٹی آئی کی زیرقیادت حکومت موجودہ مالی سال میں معاشی محاذ پر نئے ریکارڈزبنانےکیلئےپوری طرح تیارہے۔ اتوارکوسامنےآنےوالےاور حکومت کے ساتھ شیئرکیےگئےسرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایف بی آر کےریوینیومیں کمی کا رجحان موجودہ مالی سال کےباقی کےچارماہ (مارچ-جون) کےدوران جاری رہ سکتاہےاور خدشہ ہے کہ آئندہ چار ماہ کےدوران ٹیکس خسارہ 252.7ارب روپے تک ہوسکتاہے۔ پہلے آٹھ ماہ (جولائی-فروری ) میں ایف بی آرکوپہلےہی 233.2ارب روپےخسارےکاسامناہےاورآئندہ چارماہ کیلئےظاہر کیےگئے252.7ارب روپےکے خسارے سےپی ٹی آئی کی زیرقیادت حکومت کےپہلےسال کےدوران کُل خسارہ 485.9ارب روپےکی تاریخی سطح کوچھوسکتاہے۔ تمام اہم ٹیکسز کاتجزیہ جو حکومت کے ساتھ شیئرکیاگیا اس سے انکشاف ہوتاہے کہ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائزڈیوٹی(ایف ای ڈی) کاکُل ٹیکس خسارہ پورےموجودہ مالی سال کیلئے434ارب روپے ظاہرکیاگیاہےجبکہ کسٹم ڈیوٹی کلیکشن کی مد میں خسارہ 50ارب روپے تک متوقع ہے لہذا30جون 2019تک کُل خسارہ 485.9 ارب روپے تک ہوسکتاہے۔ انکم ٹیکس: موجودہ مالی سال میں ریوینیوشارٹ فال میں خسارے کی سات وجوہات بتائی گئی ہیں۔ 1-تنخواہوں پرٹیکس کی کم کی گئی شرح۔ فنانس ایکٹ 2018میں سیلری انکم پر ٹیکس کی شرح کو حیران کُن حد تک کم کردیاگیاتھا اورایک ہی بارمیں اس کی حد4لاکھ سےبڑھاکر12لاکھ تک کردی گئی تھی۔ اِن تبدیلیوں سے مختلف سرکاری اور نجی وِدہولڈنگ ایجنٹس کے ذریعےجمع ہونےوالےوِدہولڈنگ ٹیکسزمیں کافی کمی ہوئی۔ اِن تبدیلیوں کےریوینیوپراثرکی وجہ سےاب تک موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ(جولائی – فروری) میں 32.4 ارب روپےکانقصان ہوا اور اس بات کی توقع ہے کہ مکمل مالی سال کیلئے ریوینیوکا نقصان 50ارب روپے تک ہوگا۔ ٹیلی کام سیکٹر: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ٹیلی کام سبسکرائیبرز پر نافذ شدہ وِد ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف فیصلہ دیاتھا جس کے نتیجے میں انکم ٹیکس آرڈیننس2001کی سیکشن 236کےتحت ریوینیوکی مد میں بھاری نقصان ہواجوموجودہ مالی سال میں اب تک 34ارب روپے تک ہے۔ مکمل موجودہ مالی سال کےدوران ٹیلی کام سیکٹر سے کل نقصان کا تخمینہ تقریباً55ارب روپےہے۔ 3-کم کیےگئےسرکاری اخراجات: پی ایس ڈی پی (پبلک سیکٹرڈویلپمنٹ پروگرام) میں کمی کےباعث انکم ٹیکس آرڈیننس2001کی سیکشن153کےتحت کنٹریکٹر، سپلائرزاورسروس پروائیڈرزسےہونےوالی ریوینیوکلیکشن کمیں بہت زیادہ کمی ہوئی ہے۔ اب تک موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کےدوران مالی خسارہ 54ارب روپے تک ہےاوراس مدمیں پورےمالی سال کےلئےکُل خسارہ 80ارب روپےتک متوقع ہے۔4- درآمدات میں کمی: درآمدات میں کمی کےباعث انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 148کے تحت ٹیکس کٹوتی میں کمی موجودہ مالی سال کےپہلے آٹھ ماہ کےدوران 11ارب روپے تک ہوئی ہے اورجون 2019کےاختتام تک کل مالی خسارہ 16ارب روپے تک متوقع ہے۔ 5-فائلرزکی جانب سے کیش نکلوانےپرٹیکس کاخاتمہ: انکم ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 231A میں کی گئی حالیہ تبدیلیوں کےباعث چار ماہ(مارچ- جون)تک مالی خسارہ 5ارب روپے تک متوقع تھا۔ 6-بیکنگ سیکٹرکی جانب سے منافع میں کمی: کمرشل بینکوں کی جانب سے منافع میں کمی کانتیجہ منافع لینےوالوں سےٹیکس میں کمی کی صورت میں نکلا اور پہلےآٹھ ماہ میں اس کا ریوینیوپراثر16ارب روپےتک ہے۔ سالانہ خسارہ 25ارب روپے تک متوقع ہے۔ 7-ایمنسٹی سکیم کے تحت ادائیگیوں کانتیجہ: گزشتہ مالی سال 2017-18 میں ایمنسٹی سکیم کے تحت ادائیگی پر ٹیکس 120ارب روپے تک رہا جو صرف ایک بار کا عمل تھا اور رواں سال یہ متوقع نہیں ہے۔ سیلز ٹیکس اور ایف ای ڈی: پہلے آٹھ ماہ کےدوران یکم جولائی 2018سے فروری 2019تک سیلز ٹیکس ڈومیسٹک کلیشن ٹیکس (نیٹ) 407.1ارب روپے کے متوقع ہدف کےبرعکس 373.15ارب روپے تک رہا۔ تاہم بجٹ2019میں سیلز ٹیکس غورشدہ پالیسی کے فیصلے کےمطابق سیلز ٹیکس کی شرح کم کردی گئی تھی جس کا نتیجہ پی اوایل پراڈکٹس، فرٹیلازر، فرٹیلائزرکیلئےفیڈگیس اورنان فائیلرزکیلئےکاربُکنگ پرپابندی کےبعد 38.1 ارب روپے کےریلیف کی صورت میں نکلا۔ 1- پٹرولیم پراڈکٹس: پالیسی فیصلے کےطورپر سہولت کاری کیلئےایل این جی کااستعمال اور فرنس آئل کی درآمد روک دی گئی تھی۔ مقامی ریفائنریزکےپاس فرنس آئل کیلئےزیادہ سٹوریج کی گنجائش نہیں ہے اورانھیں خام تیل کاصفائی کو کم کرنا پڑا۔ سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی سپیڈ ڈیزل اینڈ فرنس آئل کا استعمال 9.1ایم ٹی(2017)سے کم ہوکر 2018میں 6.5ایم ٹی ہوگیا۔ موٹرسپیرٹ کااستعمال بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ مارچ سے جون 2018تک ایم ایس اور ایچ ایس ڈی پر اوسطً سیلز ٹیکس کی شرح بالترتیب تقریباً16فیصداور25.2فیصدتھی جواب 17 فیصدکے سٹینڈرڈریٹ پرہےاور جون 2019کےاختتام تک یہ ہی رہنے کی توقع ہے۔ تمام پی اوایل پراڈکٹس رپ کلیکشن 21فیصد تک کم ہوئی کیونکہ گزشتہ مالی سال کےموجودہ عرصےکےدوران حاصل ہونے والے166.5ارب روپےکےبرعکس موجودہ مالی سال کےپہلےآٹھ ماہ کے دوران اس سے 131.4ارب روپے حاصل ہوئے۔ ایم ایس میں رُکے ہوئے اضافےکےساتھ ہائی سپیڈ ڈیزل کےاستعمال میں کمی اور اوسطً سیلز ٹیکس کی شرح میں 25.2فیصد سے17فیصد تک کےفرق کا نتیجہ پی اوایل سیکٹرسےموجودہ مالی سال کےباقی چار ماہ(مارچ- جون) میں 17ارب روپے تک کم کلیکشن کی صورت میں نکلےگا۔ اب تک فروری 2019تک درآمدات پرسیلزٹیکس کی مدمیں29ارب روپےخسارے کاسامنا ہے اور جون 2019تک اس مدمیں کُل خسارہ 44ارب روپےکی سطح تک ہونےکاامکان ہے۔ 2-قدرتی گیس: پالیسی اقدامات کانتیجہ پہلےآٹھ ماہ میں ریوینیوکلیکشن میں کمی کی صورت میں نکلااور موجودہ مالی سال کے باقی چار ماہ کےدوران بھی یہ ہی رجحان برقراررہنےکاامکان ہے۔ (i) تمام فرٹیلائیزرزپرجی ایس ٹی کی 17فیصد ( 3%ویلیوایڈیشن ٹیکس) سے 12فیصد تک کم شرح اور نتیجتاً فرٹیلائزرز پلانٹس کو قدرتی گیس کی فراہمی میں سیلز ٹیکس کی 5فیصدتک کمی۔ (iii) فیڈ سٹاک کےطورپر فرٹیلائزرزتیارکرنےوالوں کی جانب سے ایل این جی پرسیلز ٹیکس کو فنانس بل2018میں چھوٹ دی گئی۔ (iv) سیلز ٹیکس سپیشل پروسیجر2007کےرول58بی کے تحت ایل این جی کی درآمد پر واجب الادا 3فیصد ویلیوایڈیشن ٹیکس کوختم کردیاگیا۔ سیلز ٹیکس کلیکشن میں ایف بی آر کی قدرتی گیس پراب تک 26.5فیصدتک منفی گروتھ ہوئی ہےکیونکہ ایف بی آر نےگزشتہ مالی سال کےپہلےآٹھ ماہ کےدوران 19.2ارب روپےکےمقابلےمیں موجودہ مالی سال کےپہلے آٹھ ماہ کےدوران 14.1ارب روپے جمع کیے ہیں۔ موجودہ مالی سال کے باقی عرصے کےدوران 2.6ارب روپے کا اضافی خسارہ متوقع ہے۔ 3)آٹوموبائل اور موٹرسائیکل: اب تک پہلے آٹھ ماہ کے دوران موٹروہیکل اورموٹرسائیکلوں پرسیلزٹیکس کلیکشن بالترتیب 3ارب روپےاورایک ارب روپے تک کم ہواہے۔ 4)فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی(ایف ای ڈی) ڈومیسٹک: درآمدات کےمرحلے پرایف ای ڈی کھانےوالےتیل کی درآمد پر جمع کی جاتی ہے۔ ڈومیسٹک بیس کا تعلق تمباکو، سیمنٹ، ایئرلائنز، مشروبات اور سوڈاواٹروغیرہ سے ہے۔ گزشتہ سال کے پہلے آٹھ ماہ کےدوران 114ارب روپے کےبرعکس موجودہ مالی سال کے اسی عرصے کےدوران ایف ای ڈی کلیکشن 129ارب روپے تک ہےجو ایک 13فیصد کی مثبت گروتھ ہے۔ کسٹم ڈیوٹی: اب تک ایف بی آر نےکسٹم ڈیوٹی کی صورت میں موجودہ مالی سال کےپہلے آٹھ ماہ کےدوران 444ارب روپے جمع کیے ہیں اور انھیں باقی کےچارماہ (مارچ-جون) کےدوران 291ارب روپے جمع کرنےہیں تاکہ 30جون 2019تک وہ اپنےبورڈ پرطےشدہ 735ارب روپے کا ہدف دکھا سکیں۔ باقی کےچارماہ کےدوران 291ارب روپے کےمطلوبہ ہدف کےبرعکس ایف بی آر کی جانب سے 241ارب روپے جمع کرنےکا امکان ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسٹم ڈیوٹی کلیکشن کی مد میں کم ہوتی ہوئی درآمدات کےباعث اِسے 50ارب روپےخسارے کاسامنا ہوسکتاہے۔