عمارتوں میں حفاظتی انتظامات یقینی بنائیں !

March 23, 2019

کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں مین یونیورسٹی روڈ پر کثیر المنزلہ عمارت کی بالائی منزلوں میں جمعرات کو آگ بھڑکنے کے بعد جو افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی، اس سے ملک بھر میں تعمیر ہونے والی تمام عمارتوں میں کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے حفاظتی انتظامات یقینی بنانے کی ضرورت ایک بار پھر اجاگر ہوئی ہے۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور دیگر شہروں میں بلند وبالا عمارتوں میں آئے روز آگ لگنے کے جو واقعات رونما ہوتے رہتےہیں، ان کی ایک وجہ ان عمارتوں میں آگ بجھانے کے آلات کا فقدان، متبادل راستوں اور ڈک وغیرہ کی غیر موجودگی، دھویں و گھٹن سے بچائو کی تدابیر سمیت دیگر حفاظتی انتظامات سے غفلت بتائی جاتی ہے اور یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث جمعرات کو کراچی کے کثیر المنزلہ ٹریڈ سینٹر میں آگ لگنے کے بعد محصور افراد بھگدڑ کے شکار ہوئے، جان بچانے کی کوشش میں بارھویں منزل سے چھلانگ لگانے والے دو افراد جاں بحق اور 9؍افراد جھلس گئے۔ فائر بریگیڈ کا عملہ پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے اگرچہ آگ پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا مگر عمارتوں کی تعمیر کے دوران اور بعد ازاں بھی ان میں متبادل سیڑھیوں سمیت حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اسنارکل اور فائر ٹینڈروں کی مناسب تعداد میں موجودگی یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کے مختلف علاقوں میں فٹ پاتھوں پر بطور ریلنگ ایسے پائپ لگے ہوئے تھے جن سے فائربریگیڈ والوں کو آگ بجھانے کیلئے مقامی طور پر بھی پانی کے حصول میں آسانی رہتی تھی۔ اس طریق کار کو اب بھی شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانے پر غور کیا جانا چاہئے۔ وطن عزیز میں اگرچہ ہر شعبے سے متعلق قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا رہے تو کئی مسائل پر قابو پانا زیادہ آسان ہو جائے۔ قانون چھوٹے سے چھوٹے معاملے سے متعلق ہو یا بڑے امور سے تعلق رکھتا ہو، اس کا موثر نفاذ ضروری ہے۔ رشوت لیکر قانون شکنیوں سے چشم پوشی کا کلچر اب مزید برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔