انسان سےا چھے جانور …

March 24, 2019

حرف بہ حرف …رخسانہ رخشی، لندن
انس، انس، انس ، کیسے پیارے الفاظ ہیں یہ اور اگر ان کے زیر ، زبر ، پیش کو اس لفظ سے سوا کر دیا جائے تو خالی ’’انس ’’ لفظ رہ جائے اب اس ’’انس’’ لفظ کو آپ کون سے معنی پہنانا چاہیں گے۔ انس انسان، انس طاقتور، انس محبت والا،کون سا ؟ یہ آپ پر منحصر ہے۔ لفظ بھی خوب ہوتے ہیں انسانوں کی دنیا کے درمیان اپنے اپنے الفاظ کے معنی لے کر ابھرتے ہیں۔ مختلف قومیں، مختلف ممالک، مختلف زبانیں اور ان کے مطالب، مگر ہمارے لئے یعنی بحیثیت پاکستانی قوم کے اور ہماری اردو زبا ن کی دین لفظ ’’انسان‘‘ کے ہی ہم متحمل نہیں ہو پا رہے۔ ہم خوب انس، انس کا بڑھ چڑھ کر راگ الاپتے ہیں ۔ کہانی معاشرتی طور پر یوں بنتی ہے کہ ہم انسان ہیں، خدا نے ہمیں طاقتور بنایا ہے ، ہم میں انسیت بھی ہے۔ (کہنے کی بات) تو آپ سب کو انس، انس اور انس کی بخوبی سمجھ آگئی ہوگی کہ ہم نے خود کو لوگ کبھی نہیں کہا یعنی خود کو انسان کہا دوسروں کو لوگ کہا۔ انسان کہلوا کر خود کو توانا اور اشرف المخلوق بھی سمجھ لیا اگر نہیں سمجھا تو خود کو محبت و انسیت والا نہ سمجھا اور نہ ہی لوگوں میں انسیت و مروت بانٹنے کی کوشش کی۔ اگر انسان، انس کی خو رکھتا تو کبھی کوئی انسان کچرے میں کھانا تلاش نہ کرتا، انسیت رکھنے والے اتنے حساس اور فکر مند ہوتے ہیں کہ کسی بچے کو گندی زمین، جہاں صرف کچرا ہوتا ہے، وہاں بیٹھنے بھی نہ دیں چہ جائیکہ کہ وہاں ہمارے قوم کے بچے نہ صرف سوتے ہیں بلکہ وہیں پر کھانا بھی ڈھونڈتے ہیں کہ امراء ہمیں کھانا نہ کھلائیں شاید اس کوڑے کچرے میں ہی کچھ پھینک دیں۔آج کل سوشل میڈیا پر اور ایک دوسرے کی ٹائم لائن پر خوب تصویری پیغام بھیجے جارہے ہیں کہ شائد ہم سب کی انسانیت اس طبقے کیلئے بھی جاگ جائے کہ جہاں بچے دن بھر بھوکوں پیٹ بھرنے کے بعد بھوک سے نڈھال ہوکر وہیں گر کر سو جاتے ہیں پھٹےپرانے کپڑے، مٹی سے اٹے بال، ننگے پائوں، سر کہیں کسی اینٹ کے سرہانے رکھ کر سونے والے، جنہیں کسی موزی جانور اور کیڑوں کا بھی خوف نہیں ہوتا کہ بھوکا جانور چیر پھاڑنہ کرکے کھالے یا پھر کوئی سانپ و کیڑا نہ کاٹ لے یا کان میں گھس کر شدید اذیت پہنچائے۔ اف ! کس قدر خوفناک یہ بھی انسانوں کی دنیا ہے کہ انسانوں کے بچے گندے نالوں پر بے سدھ پڑے رہتے ہیں، کہنے والوں نے یہ ہی کہا کہ جنت کی چابیاں سڑکوں پر ، کچرے کے ڈھیر پر اور گندی ندی نالوں پر پڑی ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو انہی کی حالت سنوار کر اپنی جنت کھری کرسکتے ہیں مگر کہاں جی! ہمیں تو اپنی حج عمرے کی فکر ہے کہ زندگی کے عظیم ثواب سے ہمکنار ہوکر خدا کے سامنے سرخرو ہوجائیں کہ اسلامی شعائر کی ادائیگی کررہےہیں دنیا میں،اسلامی شعارہی جنت کی چابیاں ہیں۔ انسانی خدمت ،غرباء کی بے بسی انسانی بے قدری، اس سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ حج مہنگا ہوگیا۔ انسانوں کے بچے اور انسان بھاڑ میں جائیں۔ویسے انسانوں میں انسانوں کیلئے انسانیت کا جذبہ ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے مگر حیوانوں اور جانوروں میں اب انسانیت دکھائی دینے لگی۔ایک واقعہ پچھلے دنوں پڑھنے کو ملا جس سے ہمیں دو سبق ملے۔ ایک آسٹریلیا کی فیملی نے انیمل شیلٹر سے ایک بڑا سا کتا ایڈاپٹ کرلیا۔ ہمارے یہاں تو صرف بچے بے اولاد جوڑے ہی ایڈاپٹ کرتے ہیں بعض تو یہ ذمہ داری بھی نہیں اٹھاتے ٹھیک طرح سے کہ بچے لے پالک بناکر انہیں اچھی زندگی دی جائے کافی حد تک مسائل کم ہوسکتے ہیں۔ پھر ہوگا یہ کہ وہ بچے جو کچرے سے کھانا ڈھونڈ کر کھاتے ہیں پھر وہیں کہیں گندی جگہوں پر سو جاتے ہیں وہ بچے پھر بے سہارا لوگوں کے سینٹرز میں پناہ لے سکتے ہیں کیونکہ ایسے بچوں کو کوئی ایڈاپٹ نہیں کرتا سوائے دارالامان یا پھر ان شیلٹرز کے بہرحال اس خاندان نے کتا لے لیا اور ایک ماہ میں ہی اسے اپنے سے خوب مانوس کرلیا۔ شیلٹرز ہوم کے کتنے گھریلو کتوں کی نسبت زیادہ تشدد پسند اور غصے میں رہتے ہیں کیونکہ کتوں کا غصیلہ پن اور وائیلٹ ہونے کی وجہ ان کا اچھے طریقے سے خیال نہ رکھنا ہوتا ہے کتے بھی پسند کرتے ہیں کہ پیار کرنے والے لوگوں میں رہیں۔ ان سے پیار اور توجہ ملے تو وہ پھریسے وفادار ہوتے ہیں کہ مالک کیلئے جان بھی دے دیتے ہیں۔ تو ایسا بہت کم آج کل انسانوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہ کتا جب مالکان کے گھر میں رہنے لگا تو ایک دن انہوں نے اپنے بچے کو گھر کے گارڈن میں کتے کے ساتھ کھیلنے دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کتے نے بچے کو کھیلتے کھیلتے اچانک دھکا دینا شروع کیا ایسے کہ ٹرائوزر سے پکڑ کے دور دور پھینکنا شروع کردیا۔ گھر والوں نے بھاگ کر بچے کو تھاما۔ دیکھا تو بچے کو خراش تک نہیں آئی مگر کتے کا بھونکنا کم نہ ہوا گھر والوں نے دیکھا کہ وہ گرنے لگا اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لیکر گئے کہ کیا ہوا جو کتے کا رد عمل عجیب و غریب ہوا پہلے بچے کے ساتھ کھیلتا رہا پھر اسے اپنے سے دور کرنے کیلئے اسے دور دھکے دیتا رہا۔ چیک اپ کے بعد پتہ چلا کہ کتے کو کسی سانپ نے کاٹ لیا سانپ کتے کے پاس تھا اور کتا نہیں چاہتا تھا کہ سانپ بچے کے قریب جاکر اسے نقصان پہنچائے۔ اس نے وفاداری دکھائی۔کتا ایسا جانور ہے جو انسانوں کے ساتھ رہے تو وفاداری میں انسانوں سے آگے نکل جاتا ہے انسان سالہا سال تک ایک دوسرے کے ساتھ رہیں پھر بھی آپس میں اتنی محبت اور وفاداری نہیں نبھاسکتے مگر جانور انسانوں سے محبت میں بہت آگے نکل جاتے ہیں جن کے ساتھ رہتے ہیں ان کی وفاداری میں پھر انسانیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ کتا اگر ہمارے فٹ پاتھ پر پڑے بچوں کا دوست ہو جائے تو انسان جو انہیں روٹی کو نہیں پوچھتے مگر شائد کتا یہ کام بھی کرجائے کہ ان کی کھانے کی چیزیں ڈھونڈ کر لے آئے۔ کتے اپنے مالک کی محبت میں اتنے وفاداری کے ثبوت پیش کرتے ہیں کہ مالک کی وفات کے بعد اس کی قبر پر جاکر روتے ہیں۔ مالک اگر قتل ہو جائے تو اس کے قاتل کو پکڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اہل یورپ انسانوں اور انسانیت سے زیادہ پالتو جانوروں کی وفائوں پر یقین رکھتے ہیں۔