طالب علموں کی صلاحیتیں نکھارنے میں اساتذہ کا کردار

March 31, 2019

انسان نے جب علم و آگہی کی شارع پر قدم رکھا تو تعلیم و تربیت میں اخلاقیات، نیکی و صداقت اور اعلیٰ انسانی اوصاف لازمی جزو تھے۔ اساتذہ کا مرتبہ رُوحانی والدین کا سا ہوتا ہے، جو مکمل خلوص سے بچوں میںاپنا علم منتقل کرتے ہیں۔ لیکن جب سے معاشرے میں کمرشل ازم آیا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے تعلیم و معاش اور سیاست و کاروبار سمیت ہر شعبے میں زوال آتا گیا ہے۔

اُستاد اور طالب علموں کے مابین اکیسویں صدی میں Behaviour Management (رویہ / برتائو کی انتظام سازی) جیسی نئی سائنس کا ظہور ہوا۔ اُستاد اور طالب علم کے مابین رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ کلاس روم میں قواعد و ضوابط اور معمول کی کیا اہمیت ہے؟ بچوں کو سبق یاد نہ کرنےیا اسکول سے غیر حاضری پر پٹائی کرنی چاہیے یا نہیں؟ بچہ پیار سے سمجھتا ہے یا سختی ضروری ہے؟ طالب علموں کے خراب رویئے اور شرارتوں پر کیسے قابو پایا جائے؟ رویے/ برتائو کو بہتر اور مہذب بنانے کی حکمت عملی (Behaviour Management) ان تمام سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ ذیل میں تحقیق پر مبنی حکمت عملیوں اور ان کے دور رس اثرات کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔

اُستاد اور طالب علم کے مضبوط تعلقات

اساتذہ اپنے طالب علموں سے مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لیے ان پر ویسی ہی توجہ دیں، جیسی والدین اپنے بچوں پر دیتے ہیں تا کہ وہ آپ کی تکریم کریں۔ طالب علم کے احساسات جانیں اور ایک ایک طالب علم کو وقت دیں۔ ان کے ساتھ دوستوں جیسا اعتماد قائم کرتے ہوئے پیار کے ساتھ متوازن ڈانٹ ڈپٹ بھی کریں۔

طالب علموں پر نظر رکھیں

جب طالب علموں کو اس بات کا ادراک ہو کہ ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جارہی ہے تو وہ عموماً بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ آپ کلاس روم کی سیٹنگ اس طرح رکھیں کہ ہر طالب علم پر آپ کی نظر ہو۔ وقتاً فوقتاً پوری کلاس کا چکرلگائیں۔

تدریس کو آسان بنائیں

طالب علموں کی ذہنی سطح دیکھتے ہوئے انھیں ایسا کوئی سبق نہ دیں، جو ان کے ذہن پر بوجھ بنے۔ انھیں گروپ اسٹڈی کی طرف مائل کریں۔ ہر ایک سبق کو انتہائی آسان اور واضح الفاظ میں پہلے خود بیان کریں کہ آج ہم جو پڑھنے جا رہے ہیں اس میں کیا ہے اور کون سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ طالب علموں کی دلچسپی اُس وقت قائم ہوگی جب آپ ہر ایک اسٹوڈنٹ کو کہیں گے کہ دھیان سے سُنیں کیونکہ اس کے بعد سب کو پڑھنا ہوگا۔ ایک ایک پیراگراف تمام طالب علموں کو دیں، سبق کی تکمیل کے بعد انھیں کہیں کہ کل اس بارے میں سوالات ہوں گے اس لیے دوبارہ پڑھ کر آیئے گا۔

نصاب پر زیادہ وقت دیں

کسی بھی اسکول میں طالب علموں کو مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں، ان مضامین کی نصابی کتب اور کاپیوں سے طالب علموں کی کمر جھک جاتی ہے۔ ایلیمنٹری/ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں ایک ساتھ کم از کم10مضامین کا بوجھ ایک معصوم طالب علم پر ہوتا ہے۔ اس لیے ہر ایک ٹیچر کو اپنے مضمون کو انتہائی سہل کرنے کے لیے ہوم ورک کرنا ہوگا۔ یہ بوجھ طالب علموں کو ابتدائی جماعتوں میں ہی نصاب سے نفرت اور رویے میں بیزاری کا موجب بنتا ہے۔ اس لیے ہر ایک ٹیچر کو اپنے نصاب کو پورے سال کے مطابق اس طرح بانٹنا ہوگا کہ ایک سال بعد جب امتحانات ہوں تو یہ مضامین طالب علموں کے لیے بوجھ نہ بنیں۔ زبان کی کلاس میں الفاظ سے محبت اور ریاضی کی کلاس میں اعداد سے چاہت جبکہ سائنس کی کلاسز میں آسان اور سہل انداز میں تدریس طالب علموں کے ذہنوں پر گراں نہیں گزرے گی۔ ابتدائی جماعتوں کے اساتذہ کی طرف سے بنیاد مضبوط ہونے کے بعد یہ طالب علم کالج اوریونیورسٹی کی تعلیم میں باکمال نکلیں گے۔ اس طرح تمام اساتذہ مل کر پاکستانی طالب علموں کو اقوام عالم میں باوقار مقام دلا کر تا عمر اِن طالب علموں کی دُعائوں کے تحائف پا سکتے ہیں۔

پاکستان میں تعلیم سے محبت کا حقیقی جذبہ اُجاگر کرنے میں اساتذہ کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ طالب علموں کو بھی اپنے اساتذہ کو رول ماڈل بنانے کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔ مغرب میں اس کے نتائج حیران کن ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جہاں محبت کے جھروکے سے تعلیم و تدریس ہو رہی ہے، وہاں نتائج آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اساتذہ اس معاملے میں خوش نصیب ہیں کہ ان پر زائد مضامین پڑھانے کا اتنا بوجھ نہیں کہ سانس لینا بھی دُشوار ہو جائے۔ اس کے علاوہ ہر ایک بچّے پر یکساں محبت نچھاور کرنے والے اساتذہ اگر مل بیٹھ کر حکمت عملی بنائیں تو تعلیم کا سونامی آ سکتا ہے۔