آ بیل مجھے مار

April 07, 2019

کوئی اپنے پائوںپہ کلہاڑا مارنے کااتنا مشاق ہوگا، پھر بھی آ بیل مجھے مار پہ اتنا مصر۔ شاید جنرل یحییٰ خان کی بدمستی کے بعد آج یہ منظر عمران خان کی حکومت میںہر روز دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لگتا ہے ابھی انتخابی گرما گرمی نہیںگئی اور نااہلی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ معاملاتِ ریاست اچھے نہیںتو اتنے بگڑے ہوئے بھی نہیںتھے کہ سنبھالے نہ جا سکتے۔ اور جب سنبھالے نہیںجا رہے تو تحریکِانصاف والے ہر ایک کا منہ نوچنے میںکوئی کسر ہے کہ نہیںچھوڑ رہے۔ جانے کیوںہر وزیرِخزانہ ذمہ داری سنبھالنے کی بجائے، دیوالیہ دیوالیہ کا شور مچا کر منڈی کو ہراساںاور کاروبارِ زندگی کو اتنا بے یقینی کا شکار کر دیتا ہے۔ یہ کام شوکت عزیز نے کیا اور آئی ایم ایف سے پناہ مانگی، پیپلز پارٹی کے وزیرِخزانہ نے بھی واقعی نادہندہ ہونے سے بچنے کے لئے ایسا کیا، اسحاق ڈار نے بھی کیا، لیکن جلد ہی بدحواسی پر قابو پا کر۔ اور اب ہمارے آدھے انقلابی اسد عمر ہیں کہ ہر دوسرے روز دیوالیہ دیوالیہ کی گردان دُہرا کر واقعی ستیاناس کرنے پہ تُلے ہیں۔ آٹھ ماہ تک تھو تھو کرنے کے بعد وہ اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہ مجبور ہیںجس کے پاس لاعلاج بیماریوںکے آزمودہ نسخے ہیں کہ عادی بیمار پر اب وہ بے اثر ہو چکے۔ پھر بھی وہ یہ اعلان کرتے نہیںتھکتے کہ بس آخری بار۔ اور ہر آخری بار کے بعد جب بیماری پھر سے عود کر آتی ہے تو بادلِ ناخواستہ پھر اُسی عطار کی عطائی پہ بھروسہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ نیا پاکستان والے نومولود حکمراں اب تک یہی طے نہیںکر پا رہے کہ اُنہیں کاروبارِمعیشت کو کس سمت میںلے جانا ہے اور اس ملک کا کیا بنانا ہے۔

نئے پاکستان کے بابرکت آٹھ ماہ میںمعاشی نمو تقریباً آدھی (3.5فیصد) رہ گئی، صنعت چل رہی ہے نہ زراعت اور کوئی بے یقینی کے سمندر میںپیسہ گنوانے کو تیار نہیں۔ مہنگائی ہے کہ دوہرے ہندسے (9.4فیصد) کو چھو رہی ہے۔ کاسۂگدائی توڑنے والوںنے خیر سے آٹھ ماہ میں 3400 ارب روپے کے قرضوںکا بوجھ لادا ہے اور اب یومیہ قرضخوری 14ارب روپے ہے۔ حکومتی قرضاب 27.6 کھرب ہو چکا۔ قرضوںکی قسط اور سود نکال کر بڑھتے خرچوںاور گھٹتے محصولات (318 ارب) کے باعث ملک پھر بڑے مالی خسارے سے دوچار ہے! (اسٹیٹ بنک رپورٹ)۔ چشمِبددُور! اقوامِمتحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن کے مطابق جنوبی ایشیا میںپاکستان معاشی نمو میںسوائے افغانستان کے سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ 2019 میںبھارت کی نمو 7.2 فیصد، بنگلہ دیش 7.3فیصد، نیپال اور مالدیپ 6.5 فیصد اور 2020میںپاکستان کی معاشی نمو 3.6فیصد رہے گی۔ معیشت دان ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق 20لاکھ نوکریاںتو کہاںملنی تھیں، اُلٹا دس لاکھ لوگ اِس سال بیروزگار ہوئے اور چالیس لاکھ خطِغربت سے نیچے گر گئے۔ اکنامک ایڈوائزری کونسل کے ایک اور رُکن اشفاق حسن خان کے تخمینے کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) پندرہ فیصد کم ہو کر 330 ارب ڈالرز سے 280 ارب ڈالرز ہونے کو ہے۔ مہنگائی کا طوفان ابھی شروع ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس تو اب قرضوںکی ادائیگی اور بڑھتے دفاعی اخراجات (کل چار کھرب) کے لئے بھی پورے پیسے نہیں۔ سابقہ فاٹا کے لئے وزیراعظم نے جس ایک ہزار ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے، اُس پر صوبے بشمول پختون خوا اپنا حصہ کٹوانے پہ تیار نہیں۔ اب وزیراعظم کیا کرے سوائے اس کے کہ پرانے منصوبوںپر اپنی تختیاںآویزاںکرتا پھرے۔ لیکن تیل ابھی نہیںنکلا، ذرا آئی ایم ایف کا معاہدہ ہو لینے دیں اور اگلا بجٹ آنے دیں، پھر دیکھئے کہ کیسی مہنگائی و کساد بازاری (Stagnation) کی سونامی آئے گی۔ ماضی کے سایوںکے تعاقب یا پھر منی چینجرز کے پیچھے لٹھ لے کر بھاگنے سے ڈالر نیچے آنے سے رہا۔ کہیںیہ نہ ہو کہ دولت ناپید ہو جائے اور روپیہ قفسِعنصری سے پرواز کر جائے۔

چھوڑیئے اس بلڈی معیشت کے قصے کو، یہ حکومت کے بس میںنہیں۔ ذرا زورِگفتار یا دشنام طرازی تو ملاحظہ ہو۔ بھئی جب آپ کے سیاسی مخالفین کو دن میں تارے دکھا ئے جارہے ہیں تو اُس پر آپ کو بدزبانی کا کیا ثواب ملے گا۔ مئی میںاگر فائنانشنل ٹاسک فورس نے پاکستان کی کالعدم تنظیموںاور دہشت گردوںکے بارے میں تادیبی کارروائیوں کی کارکردگی کو مشکوک پایا، تو ستمبر میںپاکستان خدانخواستہ بلیک لسٹ پر آ کر یکا و تنہا ہو سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اپوزیشن اور پارلیمنٹ کو نیشنل ایکشن پلان اور خاص طور پر دہشت گرد تنظیموںکے حوالے سے اعتماد میںلے کر فیصلہ کُن اور نتیجہ خیز اقدامات پر اعتماد میںلیا جاتا، وزیراعظم نے سیاسی محاذ آرائی کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹھارہویںترمیم پر کلہاڑے چلانے کی اشتعال انگیزی وفاق کو خطرے میںڈال سکتی ہے۔ سندھ تو اس پر لڑنے کو تیار کھڑا ہے اور وزیرِقانون پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کی تنہائی کا بدلہ لینے کے لئے وزیراعظم کو آئین کی شق 149 کے تحت سندھ پر ہلہ بولنے کا مشورہ دے رہے ہیں، جبکہ وزارتِقانون کی حالت یہ ہے کہ یہ ایک بھی مسودئہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی پوزیشن میںنہیں۔کیا یہ وہ ہیں؟لیکن وہ نہیںجو تیزاب کے پیپوںکو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے دیکھتے اُن میںکودنے کو ہیں، کوئی اپنے پائوںپہ کلہاڑا مارنے میںاتنا مشاق ہوگا، اور پھر آ بیل مجھے مار پہ اتنا مصر!!