قوم کی ترقی کیلئےطرزِحکمرانی نہیں دیانتدارقیادت ضروری

April 17, 2019

لاہور(صابرشاہ) ’’جنگ گروپ اورجیوٹیلی ویژن نیٹ ورک‘‘ کی جانب سےکی گئی تحقیق سےپتہ لگتاہےکہ ایک کامیاب قوم کی تشکیل کیلئے طرزِ حکمرانی سے زیادہ مضبوط عزم، بےعیب نظامِ انصاف اورایک مثالی طرزِحکومت کےساتھ ایک ایماندارقیادت بھی ضروری ہے۔ مکمل صدارتی نظام ہو، نیم صدارتی نظام، پارلیمانی جمہوریت، مطلق العنان بادشاہت، آئینی بادشاہت، یک جماعتی ریاست یافوجی آمریت ہو، تحقیق سے تپہ لگتاہےکہ جب تک رہنما، منتخب یاغیرمنتخب، خودکوشفافیت اوراحتساب کیلئےپیش کرکےقیادت نہیں کرتےتب تک ممالک اور ان کے شہری خوشحال نہیں ہوتے اور ان کی عزت بھی نہیں ہوتی۔ کسی طرح سے کچھ نامعلوم وجوہات کےباعث پاکستانی میڈیاکےمخصوص حصےمیں دوایوانی قانون سازی کی بجائے صدارتی نظام اختیار کرنےکےبارےمیں اچانک سے بحث چھڑگئی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے بہت سےپارلیمنٹیرینزکوصدارتی نظام اختیارکرنےکاخیال پسندنہیں آئےگالیکن یہ بحث اس حقیقت سے مضبوط ہوچکی ہے کہ اگست2018 کو اقتد ا ر میں آنےکےبعدسےپاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت صرف آدھادرجن بل منظورکرنےمیں کامیاب ہوئی ہے، واضح طورپرنوازشریف کی پی ایم ایل(ن)، آصف زرداری کی زیرِ قیادت پی پی پی اورمولانافضل الرحمٰن کی جمعیتِ علمائےاسلام وغیرہ کی مضبوط اپوزیشن کی جانب سےمزاحمت کی جاتی ہے۔ ہاں، پی ٹی آئی کوایوانِ زیریں میں کمزوراکثریت حاصل ہےجس کےباعث عددی طورپریہ کام کرنےکےقابل نہیں ہے، لیکن سیاسی حلقےجن پرپاکستانی اپوزیشن مشتمل ہے، وہ قومی احتساب بیوروسےزیادہ خوش نہیں ہیں، کچھ اہم قومی سیاستدانوں کی گرفتاری کےبعد اور بہت جلدہی میگاکرپشن کیسز میں ممکنہ طورپرکچھ مزیدہائی پروفائل گرفتاریوں ہوں گی۔ چونکہ پاکستانی قانون سازایوانوں میں ٹریری بنچز جھگڑتے ہیں تو اپوزیشن مبینہ طورپر وہی کام کررہی ہے جس سے مقننہ کے کام میں رکاوٹ پڑےیہی جمہوریت کیلئے اہم ہے۔ جنگ گروپ اورجیوٹیلی ویژن نیٹورک‘‘ کی جانب سےکی گئی تحقیق سےپتہ لگتاہےکہ مکمل طورپر صدارتی نظام کم ازکم80ممالک میں مقبول اورموثرہے، کافی زیادہ اقوام کیلئے طاقتور صدارتی نظام اچھاثابت نہیں ہوا۔ مکمل صدارتی نظام میں صدرریاست اور حکومت دونوں کا سربراہ ہوتاہے، کوئی وزیراعظم نہیں ہوتا۔ مندرجہ میں ایسےجمہوری اورغیرجمہوری دونوں ممالک کی فہرست ہے جہاں مکمل صدا رتی نظام ہے۔ ریاست متحدہ ہائے امریکا، جنوبی کوریا، افغانستان، سوڈان، فلپائن، ارجنٹائن، آوری کوسٹ، سائپرس، میکسیکو، تاجکستان، تنزانیہ، برازیل، پنامہ، ازبکستان، قازقستان، انڈونیشیا، کینیا، جارجیا، بولیویا، چاڈ، چلی، تیونس، کولمبیا، ترکمانستان، کرغستان، یوراگوئے، وینزویلا، زمبابوے، یوگینڈا، کیمرون، گیمبیا، نائیجریا، کانگو، پیراگوئے، پیرو، راونڈا، سینیگال، نائیجر، نیکارگوا، گھانا، ہیٹی، آرمینیا، بولیویا، بیلاروس، کوسٹاریکا، لائیبیریا، مالاوی، مالدیپ، ٹوگو، سیچلس، سیری لیون، سوری نیم، ڈومینکا، ایکواڈور، ایلسواڈور، ایکویٹوریل، گوئٹےمالا، گینی، گینی بیساو، ہونڈرس، مکرونیشیا، موزمبیق، نمبیا، گیبون، پلائو، مالے، مارشل آئی لینڈ، نائورو، میڈاغاسکر، بینن، بوٹسوانا، برکینافاسو، برونڈی، سنٹرل افریکن ریپبلک، کیمروس، ڈی جبوتی اور کِرتابی۔ اب مندرجہ بالا فہرست میں امریکہ اور جنوبی کوریا جیسی ترقی یافتہ قومیں بھی شامل ہیں اور انتہائی غریب اقوام جیسے کانگو، روانڈا، سینیگال، نائیجر، گیبون، پلائو، مالے، گھانا، ہیٹی، یوگینڈااورکیمرون وغیرہ جیسے ملک بھی شامل ہیں۔