سیکورٹی اہلکار شہید کرنے والوں کے ٹھکانے ایران میں ہیں، پاکستان کا شدید احتجاج

April 21, 2019

اسلام آباد(نمائندہ جنگ،جنگ نیوز)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمودقریشی نے کہا ہےکہ بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں فوج کے 14اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر شہید کرنے والوں کا تعلق بلوچ علیحدگی پسندوں سے تھا جن کے ٹھکانے اور پناہ گاہیں ایران میں ہیں، ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے، پاکستان نے حالیہ حملے کے تناظر میں ایران کے ساتھ سرحد کی سیکورٹی بہتر کرنے کے لیے افغانستان کی طرز پر ایران کی سرحد پر بھی باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہےجبکہ ایران کے ساتھ 950 کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کے لیے فرنٹیئر کور کی نئی فورس قائم کی جارہی ہے،سرحد کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی نگرانی کی جائے گی۔دوسری جانب ا یرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہاکہ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں،یہ حملہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران پرروانگی سے قبل کیا گیا جس سے دہشت گردوں کے عزائم واضح ہوتے ہیں،دہشت گرد، انتہا پسند اوران کے معاون دونوں مسلم ریاستوں کے تعلقات سے خوف زدہ ہیں،ایران ،پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور خطے میں دہشت گردی کے سدباب کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا۔تفصیلات کےمطابق ہفتے کو وزارت خارجہ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود نے بتایا کہ ان کا ہفتے کی صبح اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے رابطہ ہوا جنہیں تمام صورتحال سے آگاہ اور اس واقعہ پر پوری قوم کے جذبات سے بھی آگاہ کردیا گیا اور ہمیں یقین ہے کہ وہ بلاتاخیر اس حوالے سے مطلوبہ کردار ادا کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اورماڑہ واقعے پر کہا کہ اس میں ملوث بلوچ دہشت گرد تنظیموں کے الائنس بی آر اے کے تربیتی کیمپ ایران میں ہیں اور اس سلسلے میں پڑوسی ملک کو قابل عمل معلومات فراہم کردی ہیں،یہ واقعہ علی الصبح بزی ٹاپ کے پاس پیش آیا جہاں ایران سے آنے والے دہشتگردوں نے بسوں کو روکا اور لوگوں کی نشاندہی کے بعد 14 پاکستانیوں کو شہید کیا گیا جس میں 10 پاکستان نیوی، 3 پاک فضائیہ اور ایک پاکستان کوسٹ گارڈ کا جوان تھا، اس واقعے پر ہمیں دکھ و تکلیف ہے کیونکہ جس بے دردی سے ہمارے سپاہیوں کو شہید کیا گیا اس پر پوری قوم کو غم و غصہ ہے اور وہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا اور کس نے کیا،اس واقعے کے بعد ایک الائنس بی آر اے سامنے آچکا ہے جس میں مختلف بلوچ دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں اور انہوں نے اس واقعے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان بغیر اطلاع کے الزامات لگانے کی بھارتی روایت نہیں دہرانا چاہتا تھا، اسی لیے مصدقہ اطلاعا ت کے بعد ہی پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرنے کا سوچا اور اب ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ یہ واقعہ بلوچ دہشت گرد تنظیموں کی کارروائی ہے اور اس نئے الائنس بی آر اے کے تربیتی اور لاجسٹکل کیمپ ایران کی سرحد کے اندر ہیں اور تحقیق و تصدیق کے بعد قابل عمل معلومات ایرانی حکام کے حوالے کردی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کیمپوں کے مقامات کی نشاندہی کردی ہے اور بتا دیا ہے کہ ان عناصر کے کیمپ کہاں کہاں موجود ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ ایران، پاکستان کے ساتھ ہمسائے اور برادرانہ تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے گا۔انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ ساتھ ہم افغان بھائیوں سے بھی کارروائی کی امید کر رہے ہیں کیونکہ بی آر اے کے تانے بانے افغانستان میں بھی جاتے ہیں اور ان کی قیادت کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی رہی ہے، تاہم افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اور ہم وہاں امن و استحکام کے خواہش مند ہیں، اس کے لیے ہم کام کر رہے ہیں اور ہمیں توقع ہے جس جذبے سے ہم ان کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی ہماری مدد کریں گے،ہمارے پاس اس واقعے کے مخصوص فارنزک ثبوت موجود ہیں جو ان مجرموں تک پہنچنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ اس راستے کو پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے سرحد پر امن و امان اور استحکام کے لیے 6 اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں پاکستان نے شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئی 7 کمانڈ تشکیل دی ہے تاکہ نگرانی اور فوری کارروائی میں آسانی ہو، اس کمانڈ کا مرکز تربت میں قائم کیا گیا ہے تاکہ اس سرحد پر موثر نگرانی ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے ایک نئی فرنٹیئر کور بنائی ہے تاکہ سرحد کے لیے درکار نفری دستیاب ہو، اس کے علاوہ پاکستان اور ایران نے باہمی مشاورت سے سرحد کو پرامن رکھنے اور ایسے عناصر کے ناپاک عزائم کے خاتمے لیے مشترکہ بارڈر سینٹر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح پاک-ایران سرحد پر بھی باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ ایک مہنگی مشق ہے لیکن اس کے باوجود یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور اس عمل کا آغاز ہوگیا ہے، باڑ لگانے کا آغاز غلط استعمال ہونے والے مقامات سے کردیا گیا ہے اور بتدریج 950 کلومیٹر کی سرحد کو مکمل کرنے کا ارادہ ہے۔ باڈر پیٹرولنگ اور مشقوں کو مربوط کرنے اور ہیلی سرولنس کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایسے واقعات سے محفوظ رہا جاسکے۔ ادھردفتر خارجہ کے مطابق وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک احتجاجی مراسلہ اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے کو بھیجا ہے جس میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔مراسلے میں کہا گیا ہےکہ کالعدم تنظیموں اور پاکستان مخالف دہشتگرد گروپوں کے گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے پہلے بھی ایران سے کئی بار مطالبہ کیا، پاکستان اس سرگرمی س متعلق ایران سے پہلے ہی انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرچکا تھا، بدقسمتی سے اس ضمن میں ایران کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران سے تعلق رکھنےو الے دہشتگردوں کی جانب سے 14 افرد کا قتل انتہائی تشویشناک ہے۔دوسری جانب پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملے پر ایرانی وزیرخارجہ نے بھی اپنا بیان جاری کردیا۔ا یرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہاکہ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔جواد ظریف نے کہاکہ یہ حملہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران پرروانگی سے قبل کیا گیا، جس سے دہشت گردوں کے عزائم واضح ہوتے ہیں۔جواد ظریف نے کہاکہ دہشت گرد، انتہا پسند اوران کے معاون دونوں مسلم ریاستوں کے تعلقات سے خوف زدہ ہیں۔ جواد ظریف نے کہاکہ ایران ،پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور خطے میں دہشت گردی کے سدباب کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گا۔